نئی تبدیلیاں
اب تو مہنگائینے مڈل کلاس تو کیا اپر کلاس کو بھی پیس کر رکھ دیا ہے
پاکستانی سیاست پچھلے کئی مہینوں سے بھونچالی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ اب یہ صورتحال اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ اس کے اثرات ملکی معیشت پر بدترین مرتب ہو رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ پچھلے ڈیڑھ سال کے مقابلے میں کمزور ترین سطح پر ہے۔ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کمزور ترین سطح پر آ گیا ہے۔ روپے کی اس کمزوری کی وجہ سے ہمارے بیرونی قرضے 75 ارب ڈالر سے 85ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ سرمایہ کاروں نے 6ارب ڈالر اسٹاک کر لیے ہیں۔ اس امید پر کہ روپیہ مزید گرے گا اور لاکھوں کروڑوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ لیکن غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس جائے گا۔
اب تو مہنگائینے مڈل کلاس تو کیا اپر کلاس کو بھی پیس کر رکھ دیا ہے کہ بہت جلد پاکستان میں صرف دو طبقے رہ جائیں گے، ایک بہت زیادہ امیر تو دوسرا بہت زیادہ غریب۔ اس وقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف 13ارب ڈالر کے قریب رہ گئے ہیں جس سے تین مہینے کا درآمدی بل بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ہماری درآمدت 32ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جب کہ برآمدات مسلسل گر رہی ہیں۔ برآمدات میں کمی کی وجہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اس سے بھی اہم وجہ مہنگی بجلی ہے۔ مہنگی بجلی سے بننے والی اشیا عالمی مارکیٹ میں بھارت' بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں کی سستی ا ور معیاری مصنوعات سے مار کھا گئیں ہیں۔
حال ہی میں نومبر کے مہینے میں حکومتنے زیرو لوڈشیڈنگ کا اعلان کیا گیا جب اے سی تو کیا پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ بات تب ہوتی جب زیرو لوڈشیڈنگ کا اعلان مئی جون کے مہینوں میں کیا جاتا۔ ہمارا مسئلہ صرف بجلی کی کمی نہیں بلکہ مہنگی ترین بجلی بھی ہے۔ اس مہنگی بجلی نے نہ صرف پاکستانی عوام کی غربت میں مزید اضافہ کر دیا بلکہ کاروبار بھی تباہ کر دیے۔ مہنگے ڈالر کی وجہ سے مہنگائی کا ایک نیا بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، خوردنی تیل ،کھاد ، فوڈ آئٹمز اور ہر وہ چیز جو پاکستان درآمد کرتا ہے کی قیمتیں ملٹی پلائی ہو کر عام آدمی کی دسترس سے باہر نکل جائیں گی۔
ایک طرف معیشت کا یہ عالم دوسری طرف سیاسی بے یقینی انتہاء کی ایسی کہ پارلیمنٹ کے اسپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ لگتا نہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔ یہ تو مایوسی کی انتہا ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے غیر معمولی انٹرویو کے چند دن بعد پھر اس بات پر اصرار کیا کہ انھوں نے سسٹم کو لاحق خطرات کی بات ایسے ہی نہیں کی تھی حقیقت میں خطرات موجود ہیں۔ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں، فوج سیاستدانوں سب نے غلطیاں کیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب اپنا کام کریں۔ جمہوریت پسند ہوں ووٹ کی طاقت اہم ہے۔ آرمی چیف نے کہا اسکولوں سے زیادہ مدارس بنے۔ ملک بھر میں پھیلے مدارس زیادہ تر دینی تعلیم دے رہے ہیں تاہم اب اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آرمی چیف سینیٹ میں گئے اور گھنٹوں سوالات کے جواب دیے۔ یہ چیز اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کے دشمن اس وقت پاکستان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج ' پارلیمنٹ' عدلیہ بیرونی دنیا کو ایک پیج پر نظر آئیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان صرف جمہوری عمل کے ذریعے ہی ترقی کر سکتا ہے۔ میں جمہوریت پسند انسان ہوں لیکن جمہوریت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد ان کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے مفاد کو ترجیح دیں۔
آرمی چیف نے صحیح کہا کہ پاکستانی جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوام کے مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے کروڑ پتی' ارب پتی بن جاتے ہیں۔ یہ الزام نہیں۔ ان کا لائف اسٹائل ہی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ سیاست ایک کاروبار بن گیا ہے۔ الیکشن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ اقتدار' دولت' طاقت حاصل کر کے غریب عوام پر حکمرانی اور علاقے میں اپنی بادشاہت قائم کی جاسکے۔ منتخب ہونے کے بعد عوام ان کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر عوام کا اعتماد جمہوریت سے اٹھنے لگا ہے۔ عوام غریب سے غریب تر اور ان کے نمایندے امیر سے امیر تر ہونے کے نتیجے میں عوام کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے دکھ درد کی مسیحائی کے لیے عدلیہ اور فوج کی طرف دیکھیں ۔ اب اس میں قصور کس کا ہے۔ عوام کا یا منتخب نمایندوں کا؟ آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ آرمی چیف نے درست کہا کہ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں جب کہ پچھلے کئی سالوں سے بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ ایسے حالات بنا دیے جائیں کہ فوج مجبور ہو کر اقتدار سنبھال لے۔ جنرل صاحب کے سینیٹ میں خطاب نے اس خواہش پر وقتی طور پر مٹی ڈال دی ہے۔
مستقبل میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے یا کمزور آرمی چیف نے یہ کہہ کر واضح کر دیا ہے کہ یہ سیاستدانوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ فوج کو مداخلت پر مجبور نہ کریں۔ یہ بڑی کڑی شرط ہے۔ اس کڑی شرط پر سیاستدان کس حد تک پورا اترتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس کے علاوہ یہ ذہن نشین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ صرف ایک خطاب سے پاکستان میں سویلین بالادستی قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ اس راستے میں ابھی بہت سے کٹھن مرحلے آنے والے ہیں۔
آرمی چیف کے کوئٹہ خطاب میں ان کی تقریر کا سب سے اہم حصہ دینی مدارس کے بارے میں ان کا اظہار خیال تھا۔ انھوںنے کہا کہ میں مدارس کے خلاف نہیں لیکن پچھلے چالیس برس میں اسکولوں سے زیادہ مدارس قائم ہوئے ۔ آرمی چیف نے اس حساس معاملے پر بڑا اہم سوال اٹھایا ہے۔ ضروری ہے کہ ملک کے تمام مکتبہ فکر کے لوگ ٹھنڈے دل و دماغ سے اس مسلیے پر غور کریں کہ مدارس کے طلبا کو جدید تعلیم کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ کہیں جدید تعلیم اداروں کے طلبا سے مقابلے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
فروری اور مارچ روپے کی قدر کے حوالے سے اہم ہے۔
سیل فون:0346-4527997
اب تو مہنگائینے مڈل کلاس تو کیا اپر کلاس کو بھی پیس کر رکھ دیا ہے کہ بہت جلد پاکستان میں صرف دو طبقے رہ جائیں گے، ایک بہت زیادہ امیر تو دوسرا بہت زیادہ غریب۔ اس وقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف 13ارب ڈالر کے قریب رہ گئے ہیں جس سے تین مہینے کا درآمدی بل بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ہماری درآمدت 32ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جب کہ برآمدات مسلسل گر رہی ہیں۔ برآمدات میں کمی کی وجہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اس سے بھی اہم وجہ مہنگی بجلی ہے۔ مہنگی بجلی سے بننے والی اشیا عالمی مارکیٹ میں بھارت' بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں کی سستی ا ور معیاری مصنوعات سے مار کھا گئیں ہیں۔
حال ہی میں نومبر کے مہینے میں حکومتنے زیرو لوڈشیڈنگ کا اعلان کیا گیا جب اے سی تو کیا پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ بات تب ہوتی جب زیرو لوڈشیڈنگ کا اعلان مئی جون کے مہینوں میں کیا جاتا۔ ہمارا مسئلہ صرف بجلی کی کمی نہیں بلکہ مہنگی ترین بجلی بھی ہے۔ اس مہنگی بجلی نے نہ صرف پاکستانی عوام کی غربت میں مزید اضافہ کر دیا بلکہ کاروبار بھی تباہ کر دیے۔ مہنگے ڈالر کی وجہ سے مہنگائی کا ایک نیا بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، خوردنی تیل ،کھاد ، فوڈ آئٹمز اور ہر وہ چیز جو پاکستان درآمد کرتا ہے کی قیمتیں ملٹی پلائی ہو کر عام آدمی کی دسترس سے باہر نکل جائیں گی۔
ایک طرف معیشت کا یہ عالم دوسری طرف سیاسی بے یقینی انتہاء کی ایسی کہ پارلیمنٹ کے اسپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ لگتا نہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔ یہ تو مایوسی کی انتہا ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے غیر معمولی انٹرویو کے چند دن بعد پھر اس بات پر اصرار کیا کہ انھوں نے سسٹم کو لاحق خطرات کی بات ایسے ہی نہیں کی تھی حقیقت میں خطرات موجود ہیں۔ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں، فوج سیاستدانوں سب نے غلطیاں کیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب اپنا کام کریں۔ جمہوریت پسند ہوں ووٹ کی طاقت اہم ہے۔ آرمی چیف نے کہا اسکولوں سے زیادہ مدارس بنے۔ ملک بھر میں پھیلے مدارس زیادہ تر دینی تعلیم دے رہے ہیں تاہم اب اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آرمی چیف سینیٹ میں گئے اور گھنٹوں سوالات کے جواب دیے۔ یہ چیز اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کے دشمن اس وقت پاکستان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج ' پارلیمنٹ' عدلیہ بیرونی دنیا کو ایک پیج پر نظر آئیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان صرف جمہوری عمل کے ذریعے ہی ترقی کر سکتا ہے۔ میں جمہوریت پسند انسان ہوں لیکن جمہوریت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد ان کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے مفاد کو ترجیح دیں۔
آرمی چیف نے صحیح کہا کہ پاکستانی جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوام کے مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے کروڑ پتی' ارب پتی بن جاتے ہیں۔ یہ الزام نہیں۔ ان کا لائف اسٹائل ہی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ سیاست ایک کاروبار بن گیا ہے۔ الیکشن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ اقتدار' دولت' طاقت حاصل کر کے غریب عوام پر حکمرانی اور علاقے میں اپنی بادشاہت قائم کی جاسکے۔ منتخب ہونے کے بعد عوام ان کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر عوام کا اعتماد جمہوریت سے اٹھنے لگا ہے۔ عوام غریب سے غریب تر اور ان کے نمایندے امیر سے امیر تر ہونے کے نتیجے میں عوام کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے دکھ درد کی مسیحائی کے لیے عدلیہ اور فوج کی طرف دیکھیں ۔ اب اس میں قصور کس کا ہے۔ عوام کا یا منتخب نمایندوں کا؟ آپ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ آرمی چیف نے درست کہا کہ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں جب کہ پچھلے کئی سالوں سے بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ ایسے حالات بنا دیے جائیں کہ فوج مجبور ہو کر اقتدار سنبھال لے۔ جنرل صاحب کے سینیٹ میں خطاب نے اس خواہش پر وقتی طور پر مٹی ڈال دی ہے۔
مستقبل میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے یا کمزور آرمی چیف نے یہ کہہ کر واضح کر دیا ہے کہ یہ سیاستدانوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ فوج کو مداخلت پر مجبور نہ کریں۔ یہ بڑی کڑی شرط ہے۔ اس کڑی شرط پر سیاستدان کس حد تک پورا اترتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس کے علاوہ یہ ذہن نشین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ صرف ایک خطاب سے پاکستان میں سویلین بالادستی قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ اس راستے میں ابھی بہت سے کٹھن مرحلے آنے والے ہیں۔
آرمی چیف کے کوئٹہ خطاب میں ان کی تقریر کا سب سے اہم حصہ دینی مدارس کے بارے میں ان کا اظہار خیال تھا۔ انھوںنے کہا کہ میں مدارس کے خلاف نہیں لیکن پچھلے چالیس برس میں اسکولوں سے زیادہ مدارس قائم ہوئے ۔ آرمی چیف نے اس حساس معاملے پر بڑا اہم سوال اٹھایا ہے۔ ضروری ہے کہ ملک کے تمام مکتبہ فکر کے لوگ ٹھنڈے دل و دماغ سے اس مسلیے پر غور کریں کہ مدارس کے طلبا کو جدید تعلیم کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ کہیں جدید تعلیم اداروں کے طلبا سے مقابلے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
فروری اور مارچ روپے کی قدر کے حوالے سے اہم ہے۔
سیل فون:0346-4527997