اسٹیٹس کو کے خلاف پہلی لڑائی
پاکستان کے سیاسی محاذ پر اس وقت جو چومکھی جنگ جاری ہے۔
پسماندہ ملکوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ سماجی سیاسی اور اقتصادی پسماندگی ہے، خاص طور پر پاکستان اس حوالے سے پسماندہ ترین ملکوں میں شامل ہے۔ عموماً یہ ذمے داری اہل سیاست کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے منشور، اپنے وژن کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کریں لیکن سیاسی اشرافیہ کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ عوام پسماندہ خاص طور پر سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں۔ اس ''نیک مقصد'' کے حصول کے لیے یہ محترم اپنی سیاست کو منشور کے حوالے سے استوار کرنے کے بجائے متحارب سیاست کے ذریعے عوام میں سیاسی دشمنی کا کلچر پیدا کرکے عوام کی تقسیم کو گہرا کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر مضبوط ہے جس میں شخصیت پرستی کو عقیدہ کا درجہ دیا جاتا ہے اور عوام کو پارٹیوں کے منشور کا وفادار بنانے کے بجائے شخصیتوں کا وفادار بناکر رکھا جاتا ہے۔ یہ کلچر پاکستان میں اس قدر مستحکم ہے کہ یہاں سیاسی پارٹیاں منشور کے حوالے سے نہیں پہچانی جاتیں بلکہ ''قیادت'' کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بدترین صورتحال یہ ہے کہ پارٹیوں کے نام کے ساتھ بریکٹ میں (ن)، (ف) وغیرہ جیسی اضافتیں استعمال کرکے بالواسطہ طور پر شخصیت پرستی کو مستحکم کیا جاتا ہے۔
اس بد دیانتانہ کلچر کی وجہ سے ہر سیاسی اور مذہبی پارٹی شخصیت اور خاندان کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے، پارٹی منشور پس منظر میں چلاجاتا ہے۔ اس کا دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ اہل سیاست اقتدار کو اپنی میراث سمجھ کر اس پر قبضہ جمانے بیٹھتے ہیں اور ولی عہدوں، شہزادوں، ملکائوں اور شہزادیوں کی ایک لمبی لائن لگادی جاتی ہے اور سیاسی وراثت کا عوام دشمن اور جمہوریت دشمن کلچر کو اس قدر مستحکم کردیاجاتا ہے کہ عوام شخصیتوں کے محور پر گھومتے رہتے ہیں۔
آج کے دور میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے، اگر میڈیا عوام میں سیاسی اور طبقاتی شعور پیدا کرنا چاہے اور اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی پر عمل کرے تو ملک سے نہ صرف شخصیت پرستی اور خاندان پرستی کا بدترین کلچر ختم ہوسکتا ہے، بلکہ عوام سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت شخصیتوں کے حوالے سے کرنے کے بجائے پارٹیوں کے منشور کے حوالے سے کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی محاذ پر اس وقت جو چومکھی جنگ جاری ہے وہ اپنی اصل میں شخصیت اور خاندان پرستی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہے، چونکہ اس ملک کی اشرافیہ نے جمہوریت کے پردے میں کرپشن کے ذریعے اربوں کی دولت کمالی ہے، سو وہ اس جنگ کو جیتنے اور ملک میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے اربوں روپے خرچ کررہی ہے اور اس جنگ کو جمہوریت کی بقا کی جنگ کا نام دے کر نہ صرف عوام کو گمراہ کررہی ہے، بلکہ بے پیندوں کے اہل قلم، اہل دانش کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس بدترین مقصد کے حصول کے لیے مڈل کلاس کے بکائو مال کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں جو ہر محاذ پر اشرافیہ کے وفادار سپاہیوں کا مجرمانہ فرض ادا کررہے ہیں۔
ترقی یافتہ ہی نہیں پسماندہ ملکوں میں بھی شخصیت پرستی اور خاندان پرستی کے کلچر کو ختم کردیا گیا ہے یا ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ان کوششوں کا ہی نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں سیاست اور اقتدار پر سے اشرافیہ کا قبضہ ختم کردیا گیا ہے اور وہاں ہمیشہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس چھائی نظر آتی ہے۔ بھارت جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں اشرافیہ کا تسلط ختم کردیا گیا ہے۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی کی تاریخ ہے، اس 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار اشرافیائی بالادستی کو چیلنج کیا گیا ہے، اس چیلنج کی وجہ پاکستانی اشرافیہ میں ایک بھونچال آگیا ہے اور اشرافیہ اس چیلنج کو جمہوریت کے خلاف سازش کا نام دے کر عوام اور مڈل کلاس کے اہل دانش میں ایک نظریاتی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس عوام دشمن مہم پر اربوں کی دولت پانی کی طرح بہا رہی ہے لیکن اشرافیہ کی 70 سالہ لوٹ مار کے شکار عوام اشرافیہ کی سازش کو سمجھ رہے ہیں اور اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں، اس حوالے سے اس بچکانہ غلطی کی نشان دہی ضروری ہے کہ اشرافیائی گرفت سے عوام کو آزادی دلانے کی اس لڑائی میں اچھے طالبان برے طالبان کا فلسفہ اپنانے کی غلطی کی جارہی ہے۔ یہ غلطی خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ، اس ملک سے اشرافیہ کی بالادستی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کو نہ صرف کمزور کردے گی بلکہ یہ جنگ لاحاصل جنگ بن کر رہ جائے گی۔
بلاشبہ یہ جنگ ابہام زدہ جنگ بن کر رہ گئی ہے اور اس کے کرداروں میں ایسے کردار بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کے اپنے پیشہ ورانہ مفاد شامل ہوں، لیکن اس حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ لڑائی 70 سالہ 'اسٹیٹس کو' کو توڑنے میں کوئی کردار ادا کررہی ہے یا نہیں۔ اس ملک کا سیاست کے حوالے سے سب سے اہم سوال 70 سالہ اسٹیٹس کو ہے۔ اگر اس لڑائی سے یہ اسٹیٹس کو ٹوٹتا ہے یا کمزور ہوتا ہے تو عوام اس بات کی پرواہ نہیں کریںگے کہ کون کیا کردار ادا کررہا ہے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز پاکستانی عوام کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی پسماندگی کے حوالے سے شروع کیا تھا اور اس پسماندگی کا سبب بننے والے طبقات کی نشان دہی کی تھی، لیکن اصل سوال جوں کا توں باقی ہے یعنی وہ نظام مضبوط بھی ہے، مستحکم بھی، جو عوام کو ذہنی طور پر پسماندہ سماجی طور پر پسماندہ اور اقتصادی طور پر بھی پسماندہ رکھتا ہے۔ بلاشبہ اسٹیٹس کو ٹوٹتا ہے یا کمزور ہوتا ہے تو جمہوریت عوامی ہونے کی طرف پیش رفت کرسکتی ہے لیکن اس کے زہریلے اثرات جہاں سے پھوٹتے ہیں اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ جب تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا جاتا ہے اس وقت تک اس کی جڑیں اور کونپلیں باقی رہے گی اور اشرافیائی بالادستی کسی نہ کسے حوالے سے باقی رہے گی۔
ہم نے اس حقیقت کی بھی نشان دہی کی تھی کہ ملک سے پسماندگی دور کرنے میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا ایک اہم اور مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ میڈیا کی ذمے داری یہ ہے کہ 70 سالہ اسٹیٹس کو کے خلاف لڑی جانے والی اس لڑائی میں مبہم اور دوغلے کردار ادا کرنے کے بجائے اسٹیٹس کو کے خلاف لڑی جانے والی اس ادھوری اور منتشر لڑائی کو واضح اور اس کے کرداروں کو ان کی کمزوریوں کے ساتھ اجاگر کرکے عوام کے سامنے اس لڑائی کی خوبیاں اور خامیاں ظاہر کرے تاکہ عوام اس کی حمایت میں یکسو ہوں اور اس کے کرداروں کی کمزوریوں اور خامیوں پر نظر رکھتے ہوئے اسے درست سمت میں آگے بڑھائیں۔ یہ طریقہ عمل کے ذریعے شعور حاصل کرنے کا ایسا طریقہ ہے جو نظام کی تبدیلی میں معاونت ثابت ہوسکتا ہے۔