سینٹ اینڈریوز چرچ کی چینی آنٹی
سینٹ اینڈریوز بچپن کی یاد آور البم میں یوں محفوظ ہے کہ اس کی چار فٹ اونچی چار دیواری کے اندر بہت ہریالی تھی۔
میں جنوبی پنجاب کے جس قصبے میں پچپن برس پہلے جنما وہاں ایک ہی چرچ تھا اور اب بھی ہے۔سینٹ اینڈریوز چرچ۔تقسیم سے پہلے تعمیر ہوا تھا (مگر یہ اضافی بات ہے۔ ننانوے فیصد چرچ تقسیم سے پہلے ہی تعمیر ہوئے تھے)۔ سینٹ اینڈریوز بچپن کی یاد آور البم میں یوں محفوظ ہے کہ اس کی چار فٹ اونچی چار دیواری کے اندر بہت ہریالی تھی۔ اتنے درخت کہ سخت گرمیوں میں بھی ٹھنڈک سی محسوس ہوتی۔
میرا پرائمری سرکاری اسکول چرچ سے زیادہ دور نہیں تھا۔میری معاشرتی علوم کی کتاب میں پینسٹھ کی جنگ کے ہیرو نام کا ایک باب بھی تھا۔ان میں اسکواڈرن لیڈر سیسل چوہدری ستارہِ جرات بھی شامل تھے۔یہ سب پاکستان کے ہیرو تھے۔اکتیس بچوں کی کلاس میں انور ڈیوڈ اور منیر مسیح بھی تھے۔اسکول کی چھٹی اتوار کو ہوتی تھی۔
ہم تین چار من چلے بچے دوپہر کو چھٹی کے بعد کبھی کبھار سینٹ اینڈریوز چرچ کی دیوار الانگ کے اندر گھس جاتے ، ایک دوسرے کے پیچھے شور مچاتے دوڑتے اور درختوں کی چھاؤں میں ہی تھوڑی دیر سستا بھی لیتے۔اس چرچ میں ایک فلپینو راہبہ تھیں۔تقریباً میری دادی کی ہم عمر مگر دادی سے زیادہ ہنس مکھ۔وہ ہم بچوں کا شور سنتیں تو اپنے کاٹیج کی کھڑکی سے جھانک کر پاس بلاتیں اور کبھی ٹافیاں تو کبھی پھل دیتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی کام چلاؤ اردو میں کہتیں، اچھے بچے شور نہیں مچاتے۔خداوند کو شور پسند نہیں۔
ان کا نام شائد سسٹر بلیسیکا یا ایسا ہی کچھ تھا۔مگر ہم بچوں نے اپنی آسانی کے لیے گول مٹول چہرے کی مناسبت ان کا نام چینی آنٹی رکھ چھوڑا تھا۔چرچ میں دو تین آم کے درخت بھی تھے۔چینی آنٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ جو کیری یا آم گرے وہ اٹھایا جا سکتا ہے مگر درخت پر چڑھنا منع ہے۔
ہر برس کرسمس سے ایک شام پہلے چار دیواری اور عمارت کو بطورِ خاص روشنیوں کی دلہن بنایا جاتا اور چرچ کا گیٹ صبح تک کے لیے کھول دیا جاتا۔چینی آنٹی ایک بڑی سی میز پر چھوٹے چھوٹے کیک چنوا دیتیں۔اس میز کے اردگرد مصنوعی پھولوں اور پتوں کی جھالر بھی لگائی جاتی جس میں پیتل کی چھوٹی چھوٹی نازک سی گھنٹیاں بھی رنگ برنگے ربن باندھ کے اڑسی ہوئی ہوتیں۔ٹونٹی والی ایک تانبے کی ٹنکی میں چائے بھری ہوتی۔کوئی بھی یہ کیک کھا سکتا اور گرم گرم چائے سڑک سکتا تھا۔کسی کا جی چاہتا تو دعائیہ سروس دیکھنے اور سننے مرکزی ہال میں بھی جا سکتا تھا۔ہمیں بول اور گائیکی تو پلے نہیں پڑتی تھی مگر کورس میں اجتماعی آوازوں کے ساتھ ساتھ بکھرنے والی موسیقی کانوں کو بھلے سی لگتی۔
ایک دوپہر حسب ِ معمول ہم بچے بند دیوار پھلانگ کے اندر بستے اچھالتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے لگے ، درختوں کی اوٹ سے چھپن چھپائی کھیلتے رہے۔چینی آنٹی کی کھڑکی کھلی تو اس میں کوئی ناشناس گورا مردانہ چہرہ دکھائی دیا۔ہم نے اشاروں میں پوچھا سسٹر کہاں ہیں ؟ گورے مردانہ چہرے نے شائد انگریزی میں کچھ کہا اور پھر کھڑکی کا پٹ بندہوگیا۔آم کے درخت تلے سستا رہے مالی نے ہم بچوں کو اشارے سے بلایا۔تمہاری دوست چلی گئی اوپر...اوپر کہاں ؟ آسمان میں...اوپر...
میری آنکھوں کی نمی میں تیرتے ہوئے کسی نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں سرگوشی کی '' اچھے بچے شور نہیں مچاتے۔خداوند کو شور پسند نہیں''۔
پھر کبھی سینٹ اینڈریوز کی دیوار پھلانگنے کو جی نہ چاہا۔ سال بہ سال گذرتے رہے۔ میں اپنا قصبہ چھوڑ کے کراچی آگیا اور وہاں سے لندن۔پھر کسی نے بتایا کہ جب بابری مسجد گرائی گئی تو مندر تو کوئی دستیاب نہیں تھا لہذا مشتعل ہجوم نے چرچ پر غصہ نکالا اور کچھ جذباتیوں نے گیٹ توڑ دیا۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو بہت بعد میں یہ بھی سنا کہ سینٹ اینڈریوز چرچ کو ایک امریکا مخالف جلوس نے آگ لگانے کی کوشش کی مگر پولیس اور فائر بریگیڈ کی کارروائی کے سبب زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔بس کچھ مذہبی مورتیاں اور صلیبیں ٹوٹیں۔
پچھلے دسمبر میں بہت دنوں بعد کسی شادی میں شرکت کے لیے میرا سوِ قصبہ جانا ہوا ( قصبہ تو میں عادتاً کہہ رہا ہوں۔اب تو ماشااللہ پورا بالغ شہر بن چکا ہے )۔کئی پرانے اسکولیوں سے ملاقات ہوئی۔کوئی گنجا ہو گیا ہے،کسی کا سر بالکل سفید اور کسی کی بس کنپٹی پر سے رنگ اترا ہوا۔
یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن میں وہاں پہنچا، اس کے اگلے دن کرسمس پڑ رہا تھا۔ میں نے رشید ٹڈے سے کہا ، چلو یار شام ہو رہی ہے۔سینٹ اینڈریوز چلتے ہیں چینی آنٹی کی یاد میں کرسمس کیک کھانے۔ٹڈے کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ تم پاگل ہو کیا ؟ غیر مسلموں کا مال کھاؤ گے ؟ مجھے جھٹکا سا لگا۔یار ٹڈے بچپن میں تو تم ، میں ، سلطان ، خواجہ اور انور ڈیوڈ وہاں جا جا کے خوب کرسمس کیک ٹھونستے تھے اور چینی آنٹی سے ٹافیاں اور پھل اینٹھتے تھے۔اب تمہیں کیا موت پڑ رہی ہے۔
کہنے لگا وہ بچپن تھا۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ غیر مسلموں کے ہاتھ کی چیز کھانا پینا اور ان سے میل جول بڑھانا حرام ہے۔تم اکیلے جانا چاہو تو چلے جاؤ مگر مجھے یہ بھاشن مت دینا کہ فلاں تو اہلِ کتاب ہے اور فلاں نہیں۔جو حرام ہے سو حرام ہے بس۔۔۔
میں سٹپٹاتے ہوئے اٹھا اور خود ہی چل پڑا۔سینٹ اینڈریوز ویسا ہی تھا جیسا پچاس سال پہلے۔بس اتنا بدلاؤ آیا تھا کہ پہلے یہ عمارت چوبیس دسمبر کی شام روشنی کی دلہن بن جاتی تھیں اور اسوقت صرف تین شرمیلی برقی لڑیاں ایک دوسرے سے ذرا ذرا فاصلے پر جل بجھ رہی تھیں۔چار دیواری نے بھی قد کاٹھ نکال لیا ہے۔پہلے چار فٹی تھی اب وقت کے ساتھ ساتھ سات آٹھ فٹ تک اونچی ہو چلی ہے۔ لکڑی کے پرانے لاغر گیٹ کو مضبوط آہنی گیٹ نے جانے کب بے دخل کردیا۔اس بند فولادی گیٹ کے باہر کھڑے کچھ نوجوان اندر جانے والے ہر مرد ، عورت اور بچے کی تلاشی لے رہے تھے۔
میں نے تلاشی لینے والوں میں سے ایک سے مسکراتے ہوئے کہا، میری کرسمس ینگ مین۔ ینگ مین نے چہرے کے اسپاٹ تاثرات بدلے بغیر مجھ سے پوچھا، سر کیا آپ مسلمان ہیں ؟ میں نے پوچھا ہاں مگر تمہیں کیسے پتہ چلا ؟ سر یہاں کوئی کرسچن چرچ کے گیٹ سے باہر اب میری کرسمس نہیں کہتا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)