ترقیاتی اداروں کی کارکردگی
کیا ان اداروں نے اس ’’میگا سٹی‘‘ کے قدرتی اور قدیمی حسن کو تباہ و بربادکرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے؟
HONG KONG:
2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق وسیع و عریض رقبہ پر محیط دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحلی پٹی پر واقع 19.9 ملین نفوس پر مشتمل میٹروپولیٹن سٹی ''کراچی'' زمانہ قدیم سے آباد ہے۔ اس میٹروپولیٹن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گزرتے ہوئے ہر دور میں مختلف خطابات و اعزازات کی زد میں رہا۔ کبھی اسے ''عروس البلاد'' اور کبھی اسے ''منی پاکستان'' بھی کہا گیا۔
اس کی آبادی کسی بھی ملک کی مجموعی آبادی کے مساوی ہونے کی وجہ سے اسے ''میگا سٹی'' کا بھی اعزاز حاصل رہا اور یوں دنیا میں آبادی کے تناسب سے یہ شہر دسویں نمبر کے درجہ کا حقدار قرار پایا۔ 1960 کی دہائی میں کراچی کو ترقی پذیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا تھا اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں اپنے زوروں پر تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے کونے کونے سے لوگ حصول روزگار کے لیے اس شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آبادی میں تیزی سے اضافہ اور سونے پر سہاگہ کہیے کہ اس شہر کے ترقیاتی اداروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضمن میں معیاری منصوبہ بندی نہیں کی اور اربنائزیشن کا جو سبق انھوں نے یاد کیا تھا اسے بھلا دیا۔ بدقسمتی سے جو ترقیاتی منصوبہ جات روبہ عمل ہیں، ان میں بھی مالیاتی خوردبرد کا خدشہ پایا جانا کسی حد تک ممکن ہوسکتا ہے۔ کیوں ممکن نہ ہو کیونکہ ہم مجموعی طور پر ایک کرپشن زدہ معاشرے کی پیداوار ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ کرپشن اور مالیاتی اسکینڈل کے بغیر ہمارا کوئی بھی منصوبہ چل ہی نہیں سکتا اور اسی کرپشن نے ہمیں مالیاتی اور اخلاقی طور پر(derail) کیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے ان کے اثرات براہ راست شہری ترقیاتی اداروں کی کارکردگی پر ضرور پڑتے ہیں۔ ملک کی معیشت کے دو اہم ستون ہیں، ایک زراعت اور دوسرا صنعت۔ زراعت صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کی ترقی کے مثبت اثرات براہ راست صنعتوں پر پڑتے ہیں تو خودبخود معیاری اور شفاف منافع بخش کاروبار کے مواقع پیدا ہوجانے کے بھی قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
دونوں ستونوں کی عدم موجودگی ہی سے لوگ سرمایہ جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہوکر غیر قانونی کاروبار کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ منافع بخش کاروبارکی خواہش و حسرت ہر شخص کے دل میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ مگر قابل افسوس ہے یہ امر کہ مادیت پرستی کی دوڑ میں ہر شخص اپنا منجن فروخت کر رہا ہے۔ کو ئی مذہب کی آڑ میں اور کوئی انسانی فلاح و بہبو د کے نام پر کاروبار چمکا رہا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں جب منتخب حکومیتں ناکام ہوجایا کرتی ہیں تو لامحالہ یہ کام ایک فرد یا افراد کا گروپ سنبھال لیتا ہے اور ایسے کام میں اچھے برے میں بھی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ ملک میں ایسے متعدد فلاحی ٹرسٹ، فاونڈیشنز، سوسائٹیز کا بھی انکشاف ہوا جو اپنے فنڈز منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو فراہم کیا کرتے تھے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ملک کی اعلیٰ فاضل عدالت نے ایسے تمام شادی ہالوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا جو ویلفیئر یا رفاہ عامہ کے نام پر کاروبار کر رہے تھے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کراچی ادارہ ترقیات کی ٹیم نے شہر میں اس قسم کے شادی ہالوں کو منہدم کردیا۔ مشہور کہاوت 'گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے' کہ مصداق چالیس سال سے قائم علم و ادب و سخن اور امروہہ برادری کی فلاح و بہبود کا مرکز بھی اس انہدامی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی حکومتی اداروں کو ایسا کرنے کا یکدم کیسے خیال آجاتا ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ شہر میں کسی بھی زمین پر سرکاری الاٹمنٹ کا معاملہ ہو، یا وہ چائنا کٹنگ کا معاملہ ہو، پارکوں پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پتھارے داروں کو جگہ فراہم کرنا ہو، لب سڑک فلک شگاف عمارتیں بغیر پارکنگ کی سہولیات کے تعمیر کی اجازت ہو، یہ سب کچھ گورکھ دھندہ 'کچھ لو اور کچھ دو'' کی بنیاد پر ان ہی اداروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ روپے پیسے کی کشش کے سامنے سب قانون اور پالیسیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ایک آتا ہے اپنے حصہ کا کام کر جاتا ہے، پھر دوسرا آتا ہے اپنا کوٹہ پورا کرکے راہ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے اپنے گھر تعمیر کرتے ہوئے گھر کے باہر سڑک کی زمین پر دس دس فٹ ریمپ بنا لیے ہیں اور مکانوں کے چھجے اپنی مقررہ حدود سے باہر نکال لیے ہیں جس سے موصوف کا مکان باہر نمایاں تو ہوگیا مگر بیچارے پڑوسی کا مکان دب کر چھپ گیا اور گلی بھی اپنی مقررہ حدود سے سکڑ کر تنگ ہوکر رہ گئی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان مکانوں کے مکین اپنی گاڑیاں مکان کے باہر گلی میں پارک کرتے ہیں، جس سے گاڑیوں کی آسان آمد و رفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گلی میں آمد و رفت کے لیے اتنا راستہ تو ضرور ہو کہ ایمرجنسی کی صورت میں کم از کم ایک ایمبولینس تو گزر سکے۔ ترقیاتی ادارے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایسے گمبھیر اور عوامی سہولیات کے معاملات کا فوری نوٹس کیوں نہیں لیتی۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، مزید یہ کہ شہر میں ٹریفک جام کا سب سے بڑا مسئلہ کٹنگ کا بند ہونا ہے۔ طویل فاصلوں پر کٹنگ دینا کہاں کا سوک سینس ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں روز بروز تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور طویل وقت تک گاڑیوں کے پھنسے رہنے سے سخت ذہنی کوفت، وقت کا ضیاع اور اس سے بھی بڑھ کر جیب پر پڑنے والا ناقابل تلافی اضافی مالی بوجھ۔ دوسرا سب سے بنیادی مسئلہ شہریوں کا ٹریفک رولز سے ناواقفیت ہے۔ عام شکایت ہے کہ ٹریفک جام کے باعث ایمبولینس کا تاخیر سے اسپتال پہنچنے سے اکثر و بیشتر بیمار مریض یا کسی بھی حادثہ کا شکار جان کی بازی راستہ ہی میں ہار جاتے ہیں۔
کیا ان اداروں نے اس ''میگا سٹی'' کے قدرتی اور قدیمی حسن کو تباہ و بربادکرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے؟ ان کا ذہن مک مکا کی طرف کیوں ہے؟ منہدم کرنے والی بھاری بھاری مشینری کی نمائش سے خوفزدہ کرکے اپنے مدمقابل پارٹی سے کس حد تک پیسہ جمع کرنا چاہتے ہیں؟ شہر میں جابجا بینکوئٹ نام کے شادی ہال ان ہی اداروں کی ملی بھگت اور منشا سے کاروبار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں خدشہ ہے کہ ان کو بھی مستقبل قریب میں یہ ہی ادارے غیر قانونی تعمیرات کے کھاتے میں ڈال کر منہدم کردیں گے۔
خدارا! یہ شہر آپ کا گھر ہے، اپنی خداداد توانائیاں اس کو دنیا کا ٹاؤن پلاننگ کا جدیدترین شاہکار ماڈل بنانے میں صرف کریں، نہ کہ اس عالمی ساحلی میٹروپولیٹن کو تباہ شدہ اور اجڑے ہوئے لبنان اور شام کی شکل دینا۔ اس کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک بنانا مجموعی طور پر جس طرح ہماری شہری ذمے داری ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان اداروں کے اہلکاروں کی ذمے داری ہے جو شہر میں لاکھوں مالیت سے تعمیرکردہ املاک کو بے دردی سے توڑ پھوڑ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ انہدامی کا جاری یہ عمل خود ان اداروں کی نااہلی ظاہر کرتا ہے، جو نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا پر اس قسم کی انہدامی کا دکھایا جانا ان ہی اداروں کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ کسی بھی قسم کی اس سلسلہ میں محاذ آرائی سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ اسی میں ہماری اور سب کی عافیت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں راہ راست پر لائے۔
2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق وسیع و عریض رقبہ پر محیط دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحلی پٹی پر واقع 19.9 ملین نفوس پر مشتمل میٹروپولیٹن سٹی ''کراچی'' زمانہ قدیم سے آباد ہے۔ اس میٹروپولیٹن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گزرتے ہوئے ہر دور میں مختلف خطابات و اعزازات کی زد میں رہا۔ کبھی اسے ''عروس البلاد'' اور کبھی اسے ''منی پاکستان'' بھی کہا گیا۔
اس کی آبادی کسی بھی ملک کی مجموعی آبادی کے مساوی ہونے کی وجہ سے اسے ''میگا سٹی'' کا بھی اعزاز حاصل رہا اور یوں دنیا میں آبادی کے تناسب سے یہ شہر دسویں نمبر کے درجہ کا حقدار قرار پایا۔ 1960 کی دہائی میں کراچی کو ترقی پذیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا تھا اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں اپنے زوروں پر تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کے کونے کونے سے لوگ حصول روزگار کے لیے اس شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آبادی میں تیزی سے اضافہ اور سونے پر سہاگہ کہیے کہ اس شہر کے ترقیاتی اداروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضمن میں معیاری منصوبہ بندی نہیں کی اور اربنائزیشن کا جو سبق انھوں نے یاد کیا تھا اسے بھلا دیا۔ بدقسمتی سے جو ترقیاتی منصوبہ جات روبہ عمل ہیں، ان میں بھی مالیاتی خوردبرد کا خدشہ پایا جانا کسی حد تک ممکن ہوسکتا ہے۔ کیوں ممکن نہ ہو کیونکہ ہم مجموعی طور پر ایک کرپشن زدہ معاشرے کی پیداوار ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ کرپشن اور مالیاتی اسکینڈل کے بغیر ہمارا کوئی بھی منصوبہ چل ہی نہیں سکتا اور اسی کرپشن نے ہمیں مالیاتی اور اخلاقی طور پر(derail) کیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے ان کے اثرات براہ راست شہری ترقیاتی اداروں کی کارکردگی پر ضرور پڑتے ہیں۔ ملک کی معیشت کے دو اہم ستون ہیں، ایک زراعت اور دوسرا صنعت۔ زراعت صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کی ترقی کے مثبت اثرات براہ راست صنعتوں پر پڑتے ہیں تو خودبخود معیاری اور شفاف منافع بخش کاروبار کے مواقع پیدا ہوجانے کے بھی قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
دونوں ستونوں کی عدم موجودگی ہی سے لوگ سرمایہ جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہوکر غیر قانونی کاروبار کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ منافع بخش کاروبارکی خواہش و حسرت ہر شخص کے دل میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ مگر قابل افسوس ہے یہ امر کہ مادیت پرستی کی دوڑ میں ہر شخص اپنا منجن فروخت کر رہا ہے۔ کو ئی مذہب کی آڑ میں اور کوئی انسانی فلاح و بہبو د کے نام پر کاروبار چمکا رہا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں جب منتخب حکومیتں ناکام ہوجایا کرتی ہیں تو لامحالہ یہ کام ایک فرد یا افراد کا گروپ سنبھال لیتا ہے اور ایسے کام میں اچھے برے میں بھی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ ملک میں ایسے متعدد فلاحی ٹرسٹ، فاونڈیشنز، سوسائٹیز کا بھی انکشاف ہوا جو اپنے فنڈز منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو فراہم کیا کرتے تھے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ملک کی اعلیٰ فاضل عدالت نے ایسے تمام شادی ہالوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا جو ویلفیئر یا رفاہ عامہ کے نام پر کاروبار کر رہے تھے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کراچی ادارہ ترقیات کی ٹیم نے شہر میں اس قسم کے شادی ہالوں کو منہدم کردیا۔ مشہور کہاوت 'گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے' کہ مصداق چالیس سال سے قائم علم و ادب و سخن اور امروہہ برادری کی فلاح و بہبود کا مرکز بھی اس انہدامی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی حکومتی اداروں کو ایسا کرنے کا یکدم کیسے خیال آجاتا ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ شہر میں کسی بھی زمین پر سرکاری الاٹمنٹ کا معاملہ ہو، یا وہ چائنا کٹنگ کا معاملہ ہو، پارکوں پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پتھارے داروں کو جگہ فراہم کرنا ہو، لب سڑک فلک شگاف عمارتیں بغیر پارکنگ کی سہولیات کے تعمیر کی اجازت ہو، یہ سب کچھ گورکھ دھندہ 'کچھ لو اور کچھ دو'' کی بنیاد پر ان ہی اداروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ روپے پیسے کی کشش کے سامنے سب قانون اور پالیسیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ایک آتا ہے اپنے حصہ کا کام کر جاتا ہے، پھر دوسرا آتا ہے اپنا کوٹہ پورا کرکے راہ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے اپنے گھر تعمیر کرتے ہوئے گھر کے باہر سڑک کی زمین پر دس دس فٹ ریمپ بنا لیے ہیں اور مکانوں کے چھجے اپنی مقررہ حدود سے باہر نکال لیے ہیں جس سے موصوف کا مکان باہر نمایاں تو ہوگیا مگر بیچارے پڑوسی کا مکان دب کر چھپ گیا اور گلی بھی اپنی مقررہ حدود سے سکڑ کر تنگ ہوکر رہ گئی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان مکانوں کے مکین اپنی گاڑیاں مکان کے باہر گلی میں پارک کرتے ہیں، جس سے گاڑیوں کی آسان آمد و رفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گلی میں آمد و رفت کے لیے اتنا راستہ تو ضرور ہو کہ ایمرجنسی کی صورت میں کم از کم ایک ایمبولینس تو گزر سکے۔ ترقیاتی ادارے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایسے گمبھیر اور عوامی سہولیات کے معاملات کا فوری نوٹس کیوں نہیں لیتی۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، مزید یہ کہ شہر میں ٹریفک جام کا سب سے بڑا مسئلہ کٹنگ کا بند ہونا ہے۔ طویل فاصلوں پر کٹنگ دینا کہاں کا سوک سینس ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں روز بروز تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور طویل وقت تک گاڑیوں کے پھنسے رہنے سے سخت ذہنی کوفت، وقت کا ضیاع اور اس سے بھی بڑھ کر جیب پر پڑنے والا ناقابل تلافی اضافی مالی بوجھ۔ دوسرا سب سے بنیادی مسئلہ شہریوں کا ٹریفک رولز سے ناواقفیت ہے۔ عام شکایت ہے کہ ٹریفک جام کے باعث ایمبولینس کا تاخیر سے اسپتال پہنچنے سے اکثر و بیشتر بیمار مریض یا کسی بھی حادثہ کا شکار جان کی بازی راستہ ہی میں ہار جاتے ہیں۔
کیا ان اداروں نے اس ''میگا سٹی'' کے قدرتی اور قدیمی حسن کو تباہ و بربادکرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے؟ ان کا ذہن مک مکا کی طرف کیوں ہے؟ منہدم کرنے والی بھاری بھاری مشینری کی نمائش سے خوفزدہ کرکے اپنے مدمقابل پارٹی سے کس حد تک پیسہ جمع کرنا چاہتے ہیں؟ شہر میں جابجا بینکوئٹ نام کے شادی ہال ان ہی اداروں کی ملی بھگت اور منشا سے کاروبار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں خدشہ ہے کہ ان کو بھی مستقبل قریب میں یہ ہی ادارے غیر قانونی تعمیرات کے کھاتے میں ڈال کر منہدم کردیں گے۔
خدارا! یہ شہر آپ کا گھر ہے، اپنی خداداد توانائیاں اس کو دنیا کا ٹاؤن پلاننگ کا جدیدترین شاہکار ماڈل بنانے میں صرف کریں، نہ کہ اس عالمی ساحلی میٹروپولیٹن کو تباہ شدہ اور اجڑے ہوئے لبنان اور شام کی شکل دینا۔ اس کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک بنانا مجموعی طور پر جس طرح ہماری شہری ذمے داری ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان اداروں کے اہلکاروں کی ذمے داری ہے جو شہر میں لاکھوں مالیت سے تعمیرکردہ املاک کو بے دردی سے توڑ پھوڑ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ انہدامی کا جاری یہ عمل خود ان اداروں کی نااہلی ظاہر کرتا ہے، جو نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا پر اس قسم کی انہدامی کا دکھایا جانا ان ہی اداروں کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ کسی بھی قسم کی اس سلسلہ میں محاذ آرائی سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ اسی میں ہماری اور سب کی عافیت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں راہ راست پر لائے۔