وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہے جو تخلیقی لوگوں نے لکھی ہو شمیم حنفی

تبدیلی آتی نہیں بلکہ لائی جاتی ہے ہماری حیثیت ادب میں کم وبیش صارف کی ہے، مقررین


Staff Reporter December 26, 2017
تخلیق ہی ہر حال میں مقدم ہے، تنقیدکے منصب ہیں، تہذیب کی سمت متعین کرنا اختیار میں نہیں، تہذیب کا سفر ہمیشہ ارتقائی ہوتا ہے، مقررین۔ فوٹو؛ ایکسپریس

آرٹس کونسل کراچی میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن ''اردو تنقید ایک جائزہ'' کے موضوع پر گفتگو میں پاکستان اور بھارت کے ادیبوں، شاعروں اور نقادوں نے کہا ہے کہ ایک اچھے نقاد کے لیے خود ایک اچھا تخلیق کار ہونا ضروری ہے تنقید کرنے والا صرف کتابیں پڑھ کر نقاد نہیں بن سکتا اس کے لیے اسے ادب سے بھی واقف ہونا ضروری ہے آج کی تنقید آج کی تخلیق سے وہ رشتے نہیں بنا پا رہی جو بنانا چاہیے۔

تنقید تخلیق کی طرح سماجی عمل ہے کوئی بھی لفظ فکر کے مربوط یا غیر مربوط نظام کے بغیر اپنا وجود نہیں رکھتا یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی دلیل ہے کہ لوگ جیتے جاگتے ادب سے زیادہ دلچسپی رکھیں اجلاس سے بھارت کے معروف ادیب ، مصنف اور شاعر شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین سمیت انوار احمد، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، نجیبہ عارف اور سرور جاوید نے اظہار خیال کیا، شمیم حنفی نے خطاب میں کہاکہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوں نے لکھی ہو جدیدیت کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کیے ہیں ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

انھوں نے کہاکہ ادب اپنے عقائد کے اظہار کیلیے نہیں ہوتا اور تہذیبیں کبھی ایک رخ پر سفر نہیں کرتیں بلکہ تہذیبیں دن کے اجالے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی ہیں اچانک مسلط نہیں کی جاتیں انھوں نے کہاکہ یہ بات سچ ہے کہ ہم نے مغربی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہمیں اپنی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جبکہ ہمارے ہاں کثرت سے مغربی لکھاریوں کا ذکر ملتا ہے انھوں نے کہاکہ ہم تنگ نظر ہوتے جارہے ہیں ہمیں اپنی روایت پر بھی نظر رکھنی چاہیے تعصبات نے ادب، تہذیب اور زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، قاضی افضال حسین نے کہاکہ پوری دنیا کو زبان کی اصلاحت پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے طرزِ وجود کی بنیادی شکل کو ہم نے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں انھوں نے کہاکہ شعر جو شاعر نے بیان کیے ہوتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ پڑھنے والا اس سے بہتر معنی بیان نہ کرسکے۔

انھوں نے کہاکہ زبان کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے تبدیلی آتی نہیں بلکہ لائی جاتی ہے ہماری حیثیت ادب میں تقریباً کنزیومر کی ہے، انوار احمد نے کہاکہ عموماً یہ بحث سننے میں آتی ہے کہ تخلیق مقدم ہے یا تنقید تو میں یہ کہوں گا کہ تخلیق ہی ہر حال میں مقدم ہے تنقید کے منصب ہیں جن میں پہلا اصولِ تنقید، دوسرا عملِ تنقیداور تیسر نقد تنقید ہے ہم مغرب سے اس لیے متاثر ہورہے ہیں وہاں علم پروڈیوس ہورہا ہے اور مستقل تحقیقی کام ہورہا ہے ہمارے زمانے میں اردو کے حوالے سے علم صرف اتنا تھا کہ ہم اپنے الفاظوں کے تلفظ کو درست طریقے سے ادا کرلیں معاشرے میں جمہوریت ہو یا نہ ہو زبان پر جمہور کا سکہ چلتا ہے آسان سے آسان تر گفتگو اور بات کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ممتاز مفتی ،سجادظہیر اور دیگر کی کتابوں میں تنقید کا وسیع تناظر نظر آئے گا جب تک تنقید سچائی کے ساتھ نہ ہو اس کا اثر نہیں ہوگا ترقی پسند تنقید کا جمالیات سے رشتہ نہیں ٹوٹا ہے تنقید میں نئی نئی بحث شامل ہوئی ہیں حسن عسکری اور کلیم الدین احمد نے ان بحث پر بات بھی کی ہے انھوں نے کہاکہ آج کی تنقید آج کے تخلیق کار سے وہ رشتے نہیں بناپارہی جو بنانے چاہئیں نئی تحریر اور نئی تہذیب پر ہمیشہ گفتگوکرنے کی ضرورت ہوتی ہے تنقید ایک محاسباتی عمل ہے جس سے فکر اور قوتِ آگاہی میں فائدہ ہوتا ہے اردو تنقید میں اپنی صنفی قوت میں اضافہ کیا ہے تنقید کا شاندار ماضی کروٹ لے گا۔

نجیبہ عارف نے کہاکہ تہذیب کامسئلہ کسی ایک طبقے تک نہیں یہ ہر فرد کا براہ راست مسئلہ ہے تہذیب ہم میں سے ہر ایک کی اجتماعی اور انفرادی شناخت کا معاملہ ہے تہذیب محض کسی سماج کے خاص گروہ پر مشتمل نہیںہوتی بلکہ یہ آدرشوں کامجموعہ ہوتی ہے انھوں نے کہاکہ تہذیب تین اشیا کا مجموعہ ہے جن میں تمدن ، تاریخ اور ثقافت شامل ہیں تہذیب کی سمت متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا صرف تاریخ ہی تہذیب نہیں ہوتی مگر یہ تہذیب کا حصہ ضرور ہوتی ہے انھوں نے کہاکہ زندہ قومیں اپنے تہذیبی ارتقا کاراستہ نہیں چھوڑتیں تہذیب کا سفر ہمیشہ ارتقائی ہوتا ہے فوراً تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔

سرور جاوید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جب تنقید روبہ زوال ہوتی ہے تو ادب کی دیگر اصناف بھی زوال پذیر ہوتی ہیں ترقی پسند ادب اب روبہ زوال ہے ترقی پسند ادیب کم نظر آتے ہیں جدیدیت پسند زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ تنقید اپنے منصب سے ہٹ گئی ہے ادبی رسائل کا حال دیکھا جائے تو وہ موصول ہونے والے ہر ادبی مواد کو من و عن شایع کردیتے ہیں اور معیار تک کا خیال نہیں رکھتے یہ تنقید کا کام تھا کہ وہ بتائے کہ افسانہ کیا ہے، شاعری کیا ہے اور دیگر اصناف سخن کیا ہیں انھوں نے کہاکہ اب یہ سب چیزیں سماج سے الگ ہورہی ہیں لگتا ہے کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شان الحق حقی نے زبان وبیان کی بہت خدمت کی، جاذب قریشی

آرٹس کونسل کراچی میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن ''یادرفتگاں'' کے حوالے سے ان ممتاز شعرا اورادیبوں کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ان میں نیئر مسعود ،خلیق انجم، ابراہیم جویو، شان الحق حقی، ندا فاضلی، تصدق سہیل، فارغ بخاری اور مسعود احمد برکاتی شامل ہیں بھارت سے آئے ہوئے معروف شاعر و ادیب شمیم حنفی نے نیئر مسعود کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ کسی ایسے دوست کو یاد کرنا جس سے آپ بہت محبت کرتے ہیں اور جو اب اس دنیا میں موجود نہ ہوں بڑا مشکل کام ہے افسانہ نگار کی حیثیت سے انھوں نے بہت کم عمری میں خود کو منوالیا تھا میری اور نیئر مسعود کی ملاقات اور دوستی 60 برس کے عرصے پر محیط ہے۔

اردو اور سندھی ادب کے ادیب اور دانشور سید مظہر جمیل نے ابراہیم جویو کی شخصیت پر گفتگو میں کہا کہ ابراہیم جویو سندھی زبان کے بہت بڑے محرک اور محقق تھے ان کے انتقال کے بعد سندھ کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں ان پر 22 سیمینارز منعقد ہوئے اور ان کی شخصیت پر 30 کتابیں چھاپی گئیں ابراہیم جویو کا بچپن غربت میں گذرا شیخ ایاز سمیت دیگر شعرا انھیں استاد تسلیم کرتے تھے جدیدسندھی ادب کے فروغ کے لیے انھوں نے مہران رسالہ نکالا جس میں ابراہیم جویو نے افسانہ ،جدید فکشن اور ناول کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔

معروف شاعر و نقاد جاذب قریشی نے ڈاکٹر شان الحق حقی کی شخصیت سے متعلق کہاکہ ان کی شخصیت بہت پہلو دار ہے وہ موجود لمحے میں اکثرغائب رہتے ، بھلکڑ بھی تھے مگر لکھتے اور شاعری کرتے وقت ان سے کبھی بھول نہ ہوتی انھوں نے زبان و بیان کی بہت زیادہ خدمت کی ہے اور کئی لغات مرتب کی ہیں۔

وہ توڑنے سے زیادہ جوڑنے کو افضل سمجھتے تھے انھیں ترجمہ نگاری سے عشق تھا شان الحق حقی نے کئی دیگر زبانوں کے شاعروں کو اردو زبان میں منتقل کیا ان کی شاعری میں زندگی اور عشق کے سچے رنگ جھلکتے رہے،معروف صحافی پیرزادہ سلمان نے معروف شاعر ندا فاضلی کی شخصیت پر گفتگو میں کہا کہ جس محفل میں مصطفی زیدی، مجاز اور شکیب جلالی کا ذکر نہ ہو وہاں ندا فاضلی کا ذکر کیوں ہورہا ہے۔

ڈاکٹر جمال نقوی نے فارغ بخاری کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہر طرح کی تنگ نظری سے آزاد تھے مسائل میں رہ کر زندگی گزاری، پروفیسر مجیب انوار حمیدی نے بچوں کے ممتاز ادیب مسعود احمد برکاتی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انھیں بچپن ہی سے لکھنے کا شوق تھا ، ''نونہال'' رسالہ انھوں نے ایک عرصے تک شایع کیا جبکہ بچوں کے ادب کے لیے ایسی ایسی شاہکار کہانیاں اور کتابیں تحریر کیں جنھیں کئی نسلوں تک فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں