ریٹرن جمع نہ کرانیوالوں کی تعداد میں اضافہ زیر التوا آڈٹ کیسز 7 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز
ماتحت اداروں نے ٹیکس دہندگان کی آڈٹ رپورٹ ایف بی آرکو بھجوادی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے کی وجہ سے آڈٹ کے لیے منتخب کرنے کے بعد ماتحت اداروں کے پاس آڈٹ کے زیر التوا کیسوں کی تعداد بڑھ کر 7 لاکھ 80 ہزارسے تجاوز کرگئی ہے جبکہ ایف بی آر کے ماتحت اداروں نے ٹیکس دہندگان کی آڈٹ رپورٹ ایف بی آرکو بھجوادی ہے جس میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران صرف21 ہزار 694 ٹیکس دہندگان کے آڈٹ مکمل ہوسکے ہیں۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق صرف ایک سال کے دوران آڈٹ کے زیر التوا کیسوں کی شرح میں 33.7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت آڈٹ کے جتنے کیس زیر التوا ہیں اس سے پہلے کبھی التوا کا شکار نہیں تھے اور اس کی بنیادی وجہ ایف بی آر کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں متعارف کروایا جانے والا سیکشن214 ڈی ہے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فنانس ایکٹ2015 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت لاگو کیے جانیوالے سیکشن 214ڈی کے تحت انکم ٹیکس آڈٹ کیلیے منتخب ہونے والے ٹیکس دہندگان کے بعدآڈٹ کا کام متاثر ہوا ہے کیونکہ اس سیکشن کے تحت ٹیکس دہندگان کی غیر معمولی و بے مثالی تعداد آڈٹ کیلیے منتخب ہوئی ہے جبکہ اس کے علاوہ پیرامیٹرک بنیادوں پر جنوری2017 میں پیرامیٹرز کی بنیاد پر کی جانے والی قرعہ اندازی کے ذریعے مجموعی طور پر 93 ہزار 277 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کرکے نوٹس جاری کر رکھے ہیں لیکن اس نئی آڈٹ پالیسی میں طے کیے جانے والے پیرامیٹرز میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ جن ٹیکس دہندگان کی جانب سے ٹیکس ایئر2015 کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے گئے یا مقررہ مدت کے بعد جمع کروائے گئے ہیں ان سب کو انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 214 ڈی کے تحت انکم ٹیکس آڈٹ کیلیے منتخب کیا جائیگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹیکس ایئر کے گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ایف بی آر کی پریشانی بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ پہلے ہی یرامیٹرز کی بنیاد پر کی جانے والی قرعہ اندازی کے ذریعے آڈٹ کے لیے منتخب ہونے والے مجموعی طور پر 93 ہزار 277 ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کیے ہوئے ہیں اسکے بعد اب ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے اور دیر سے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی بنیاد پر صرف ٹیکس ایئر2015 میں مزید تین لاکھ چھ ہزار 380 لوگ آڈٹ کیلیے منتخب ہوئے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکس ایئر2015 کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کی مختلف شقوں کے تحت مجموعی طور پر تین لاکھ اکانوے ہزار579 لوگ آڈٹ کیلیے منتخب ہوئے جن میں سے صرف21 ہزار 145 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا ہے اور تین لاکھ 70ہزار 434ٹیکس دہندگان کا آڈٹ التوا کا شکار ہے۔
ٹیکس ایئر 2015 میں آڈٹ کیلیے منتخب ہونیوالے لوگوں میں سے تین لاکھ چھ ہزار 380 ٹیکس دہندگان کو سیکشن214 ڈی کے تحت آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف251 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا اور تین لاکھ چھ ہزار129 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی سیکشن 177کے تحت ایک ہزار727 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف532 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل کیا جس کا ہے اور باقی1ہزار 195 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔
اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 214 سی کے تحت 83ہزار 472ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف 20ہزار 362 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا ہے اور 63 ہزار 110 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔ ٹیکس ایئر 2016 میں مجموعی طور پر چار لاکھ 10ہزار485 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخط کیا گیا اور آڈٹ کیلیے منتخب ہونیوالے لوگوں میں سے 4 لاکھ 9 ہزار 577 ٹیکس دہندگان کو سیکشن214 ڈی کے تحت آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف406 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا اور4 لاکھ 9ہزار171 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی سیکشن 177کے تحت 908 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف143 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل کیا جسکا ہے اور باقی765 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔
ایف بی آر کی آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے آڈٹ کیسوں کا التوا بڑھنے کی وجہ سے آڈٹ کیس نمٹانے کیلیے دستیاب افرادی قوت کو ناکافی قرار دیدیا ہے اور ایف بی آر کی آڈٹ ڈپارٹمنٹ پریشان ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آڈٹ کیسے مکمل ہوپائے گا اور اس سے مقدمہ بازی بھی بڑھنے کا خطرہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو آڈٹ کیلیے منتخب کرکے نوٹس کیے گئے تھے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضٰی جاوید عباسی،وزیر خارجہ خواجہ آصف، سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد،وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز، اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال، پی ٹی آئی کے رہنما وپنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج دُرانی، شرجیل میمن، جھنگ سے رُکن قومی اسمبلی شیخ اکرم اور 115 سے زائد سیاستدان بھی شامل تھے اور ان بڑی شخصیات کا آڈٹ مکمل نہیں ہوسکا ہے اور انہیں جو نوٹس جاری کیے گئے تھے ان کے نوٹسز کے جواب بھی موصول نہیں ہوئے۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق صرف ایک سال کے دوران آڈٹ کے زیر التوا کیسوں کی شرح میں 33.7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت آڈٹ کے جتنے کیس زیر التوا ہیں اس سے پہلے کبھی التوا کا شکار نہیں تھے اور اس کی بنیادی وجہ ایف بی آر کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں متعارف کروایا جانے والا سیکشن214 ڈی ہے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فنانس ایکٹ2015 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت لاگو کیے جانیوالے سیکشن 214ڈی کے تحت انکم ٹیکس آڈٹ کیلیے منتخب ہونے والے ٹیکس دہندگان کے بعدآڈٹ کا کام متاثر ہوا ہے کیونکہ اس سیکشن کے تحت ٹیکس دہندگان کی غیر معمولی و بے مثالی تعداد آڈٹ کیلیے منتخب ہوئی ہے جبکہ اس کے علاوہ پیرامیٹرک بنیادوں پر جنوری2017 میں پیرامیٹرز کی بنیاد پر کی جانے والی قرعہ اندازی کے ذریعے مجموعی طور پر 93 ہزار 277 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کرکے نوٹس جاری کر رکھے ہیں لیکن اس نئی آڈٹ پالیسی میں طے کیے جانے والے پیرامیٹرز میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ جن ٹیکس دہندگان کی جانب سے ٹیکس ایئر2015 کے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے گئے یا مقررہ مدت کے بعد جمع کروائے گئے ہیں ان سب کو انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 214 ڈی کے تحت انکم ٹیکس آڈٹ کیلیے منتخب کیا جائیگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹیکس ایئر کے گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ایف بی آر کی پریشانی بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ پہلے ہی یرامیٹرز کی بنیاد پر کی جانے والی قرعہ اندازی کے ذریعے آڈٹ کے لیے منتخب ہونے والے مجموعی طور پر 93 ہزار 277 ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کیے ہوئے ہیں اسکے بعد اب ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے اور دیر سے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی بنیاد پر صرف ٹیکس ایئر2015 میں مزید تین لاکھ چھ ہزار 380 لوگ آڈٹ کیلیے منتخب ہوئے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکس ایئر2015 کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کی مختلف شقوں کے تحت مجموعی طور پر تین لاکھ اکانوے ہزار579 لوگ آڈٹ کیلیے منتخب ہوئے جن میں سے صرف21 ہزار 145 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا ہے اور تین لاکھ 70ہزار 434ٹیکس دہندگان کا آڈٹ التوا کا شکار ہے۔
ٹیکس ایئر 2015 میں آڈٹ کیلیے منتخب ہونیوالے لوگوں میں سے تین لاکھ چھ ہزار 380 ٹیکس دہندگان کو سیکشن214 ڈی کے تحت آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف251 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا اور تین لاکھ چھ ہزار129 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی سیکشن 177کے تحت ایک ہزار727 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف532 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل کیا جس کا ہے اور باقی1ہزار 195 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔
اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی سیکشن 214 سی کے تحت 83ہزار 472ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف 20ہزار 362 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا ہے اور 63 ہزار 110 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔ ٹیکس ایئر 2016 میں مجموعی طور پر چار لاکھ 10ہزار485 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخط کیا گیا اور آڈٹ کیلیے منتخب ہونیوالے لوگوں میں سے 4 لاکھ 9 ہزار 577 ٹیکس دہندگان کو سیکشن214 ڈی کے تحت آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف406 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل ہوسکا اور4 لاکھ 9ہزار171 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کی سیکشن 177کے تحت 908 ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کیلیے منتخب کیا گیا جن میں سے صرف143 ٹیکس دہندگان کا آڈٹ مکمل کیا جسکا ہے اور باقی765 آڈٹ کے کیس التوا کا شکار ہیں۔
ایف بی آر کی آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے آڈٹ کیسوں کا التوا بڑھنے کی وجہ سے آڈٹ کیس نمٹانے کیلیے دستیاب افرادی قوت کو ناکافی قرار دیدیا ہے اور ایف بی آر کی آڈٹ ڈپارٹمنٹ پریشان ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آڈٹ کیسے مکمل ہوپائے گا اور اس سے مقدمہ بازی بھی بڑھنے کا خطرہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو آڈٹ کیلیے منتخب کرکے نوٹس کیے گئے تھے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضٰی جاوید عباسی،وزیر خارجہ خواجہ آصف، سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد،وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز، اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال، پی ٹی آئی کے رہنما وپنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج دُرانی، شرجیل میمن، جھنگ سے رُکن قومی اسمبلی شیخ اکرم اور 115 سے زائد سیاستدان بھی شامل تھے اور ان بڑی شخصیات کا آڈٹ مکمل نہیں ہوسکا ہے اور انہیں جو نوٹس جاری کیے گئے تھے ان کے نوٹسز کے جواب بھی موصول نہیں ہوئے۔