سامراج اور فرقہ واریت
مسلمانوں کا اتحادہی وہ واحد راستہ ہے جس سے بھوک وغربت سے نجات اور مفت طبی سہولتوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں۔
ملالہ نے کہا ہے کہ دنیا میں ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے اور امن قائم ہو جائے۔ یہ اس کی خواہش ہے لیکن اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ عالمی یوم خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے ریکارڈ کرائے گئے ویڈیو پیغام میں ملالہ کا کہنا تھا کہ جو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرتے انھیں حقوق نہیں ملتے۔ دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو اس کے لیے لڑنا پڑے گا۔
9 اکتوبر 2012ء کوملالہ پر گھات لگا کر حملہ کیاگیا تھا۔ اس حملے پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا۔ مذہبی جماعتیں اور ان کے لیڈرز بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بعض افراد نے اس حملے کے وقوع پذیر ہونے سے سرے سے انکار کر دیا حالانکہ شازیہ اور کائنات جو ملالہ کی ہم جماعت چشم دید گواہ تھیں، خود بھی حملے میں زخمی ہوئیں۔ اس ملک میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس کمسن بچی پر ایسے غلیظ الزامات لگائے جن کو دہرایا بھی نہیں جا سکتا... اور یہ ان کی پستی کی انتہا تھی۔
ملالہ یوسف زئی اس صوبے سے تعلق رکھتی ہے جہاں پر پچھلے 6 سال کے دوران شدت پسندوں نے 1300 سے زائد سرکاری اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا۔ ان میں آٹھ سو کے قریب تعلیمی ادارے خیبر پختونخوا اور پانچ سو فاٹا میں نشانہ بنائے گئے۔ اب ان حملوں کا دائرہ کار پشاور تک بھی پھیل چکا ہے جہاں کچھ عرصے میں پچاس کے قریب سرکاری اسکول تباہ کیے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق عارضی اسکولوں کو گائوں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی ہر میدان میں پسماندگی افسوسناک ہے۔ افغانستان ہو یا اس سے جڑا پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا ان دونوں کو سامراجی ''اسکیم گریٹ گیم'' کے تحت پسماندہ رکھا گیا۔ ویسے تو جنوبی پنجاب اندرون سندھ اور بلوچستان کا حال بھی کم برا نہیں۔ ان علاقوں کا حال ہزاروں سال پہلے قرون وسطیٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان علاقوں کو پس ماندہ رکھا گیا خاص طور پر تعلیم کے میدان میں۔ صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیوں کے تعلیم حاصل کریں گے تو شعور پیدا ہو گا۔ اچھے برے کی تمیز آئے گی۔ آزادی اور غلامی میں فرق محسوس ہو گا۔ دوست اور دشمن کی پہچان ہو گی۔ ان کو اپنے ان لیڈروں کی پہچان ہو گی جو دراصل سامراج کے ایجنٹ ہیں مگر انھوں نے اپنے آپ کو سیاسی اور مذہبی نقاب میں چھپایا ہوا ہے۔
سامراج کے نزدیک یہ بہت حساس علاقہ ہے جہاں اس کے تیل کے مفادات وابستہ ہیں جس کے ذریعے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ دھوکہ بازی کی انتہا دیکھیں کہ پوری سرد جنگ میں امریکا سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن جب گرم جنگ کا خاتمہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو امریکا تھا جس نے اس پروپیگنڈے کی آڑ میں پوری دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتے ہوئے مجاہدین کی لاکھوں کی تعداد میں قربانیوں کی مدد سے گرم پانیوں پر قبضہ کرتے ہوئے نہ صرف تیل کے تمام چشموں پر قبضہ کر لیا بلکہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک پائے جانے والے تمام ملکوں کو اپنا غلام بنا لیا۔
وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی بے وقت موت سے دنیا کے غریب اور مظلوم عوام تاریخ کے اس سنگین اور المناک موڑ پر تنہا کھڑے ہیں۔ اس وقت امریکی سامراج نے دنیا کو گلوبلائز کرنے کے بعد تمام دنیا میں اپنے مقامی حکمران ایجنٹوں کے ذریعے اپنا قبضہ مکمل کر لیا ہے۔ ہمارے خطے میں ایک طویل مدت تک اس نے بادشاہتوں اور آمریتوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ اب سامراج کے یہی ایجنٹ، جماعتوں، گروپوں، افراد اور اداروں کی شکل میں، جو ماضی میں آمریتوں کے چوکیدار تھے، سامراج کے بدلتے ہوئے مفادات کے تحت اب جمہوریت کے ٹھیکیدار بنتے ہوئے اتنی بلند آواز میں جمہوریت کے نعرے لگا رہے ہیں کہ کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
جمہوریت کے یہ ٹھیکیدار جن کا ماضی کسی سے چھپا نہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کو عنقریب ایک بہت بڑا دھوکہ دینے جا رہے ہیں۔ نہ فوجی آمریتوں نے پاکستانی عوام کو کچھ دیا نہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کچھ دے سکے گی۔ پاکستان اور اس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت عراق، شام، افغانستان، پاکستان میں دہشت گردی کی ڈوریاں پس پردہ رہ کر امریکا ہلا رہا ہے اور اس میں مددگار دہشت گرد ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح مجاہدین کو امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کرتے ہوئے آج سے تیس سال پہلے استعمال کیا۔ بعینہ اسی طرح آج پھر فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے سامراجی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ دہشت گردی ختم ہونے والی نہیں بلکہ مستقبل میں اس کے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ یہ سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔
جس دن دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا، اس دن سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مل کر ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے بجائے اپنے حقیقی دشمن امریکی سامراج اور اس کے مقامی حکمران ایجنٹوں کے اصل چہروں کو پہچانیں، دہشت گردی کی جنگ ہو یا فرقہ وارانہ دہشت گردی، یہ شروع ہی اس لیے کرائی گئی تھی کہ سامراج دشمن تحریکوں کو کمزور کرتے ہوئے' اپنی بقا کے خطرے سے دو چار سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جا سکے۔
اس صورت حال میں مسلمانوں کا اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر عمل کرنے سے اس خطے کے لوگ بھوک غربت سے نجات، روزگار، مفت تعلیم، مفت طبی سہولتیں اور مفت رہائش کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ اپنے قدرتی وسائل اور ذرایع پیداوار پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے جن پر اس وقت امریکی سامراج نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اس سامراجی سازش کو اب بھی نہ سمجھا تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہم سے بھی بدتر ہو گا... رہے نام اللہ کا۔
... ملالہ یوسف زئی اس سال مئی کے آخر اور جون کے شروع میں خاص طور پر اپنی صحت کے حوالے سے ''نیگیٹو فیز'' سے باہر نکل جائے گی۔
... -19-18 اور 22 تا 26-25 مارچ موسم پھر تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔
9 اکتوبر 2012ء کوملالہ پر گھات لگا کر حملہ کیاگیا تھا۔ اس حملے پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا۔ مذہبی جماعتیں اور ان کے لیڈرز بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بعض افراد نے اس حملے کے وقوع پذیر ہونے سے سرے سے انکار کر دیا حالانکہ شازیہ اور کائنات جو ملالہ کی ہم جماعت چشم دید گواہ تھیں، خود بھی حملے میں زخمی ہوئیں۔ اس ملک میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس کمسن بچی پر ایسے غلیظ الزامات لگائے جن کو دہرایا بھی نہیں جا سکتا... اور یہ ان کی پستی کی انتہا تھی۔
ملالہ یوسف زئی اس صوبے سے تعلق رکھتی ہے جہاں پر پچھلے 6 سال کے دوران شدت پسندوں نے 1300 سے زائد سرکاری اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا۔ ان میں آٹھ سو کے قریب تعلیمی ادارے خیبر پختونخوا اور پانچ سو فاٹا میں نشانہ بنائے گئے۔ اب ان حملوں کا دائرہ کار پشاور تک بھی پھیل چکا ہے جہاں کچھ عرصے میں پچاس کے قریب سرکاری اسکول تباہ کیے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق عارضی اسکولوں کو گائوں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی ہر میدان میں پسماندگی افسوسناک ہے۔ افغانستان ہو یا اس سے جڑا پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا ان دونوں کو سامراجی ''اسکیم گریٹ گیم'' کے تحت پسماندہ رکھا گیا۔ ویسے تو جنوبی پنجاب اندرون سندھ اور بلوچستان کا حال بھی کم برا نہیں۔ ان علاقوں کا حال ہزاروں سال پہلے قرون وسطیٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان علاقوں کو پس ماندہ رکھا گیا خاص طور پر تعلیم کے میدان میں۔ صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیوں کے تعلیم حاصل کریں گے تو شعور پیدا ہو گا۔ اچھے برے کی تمیز آئے گی۔ آزادی اور غلامی میں فرق محسوس ہو گا۔ دوست اور دشمن کی پہچان ہو گی۔ ان کو اپنے ان لیڈروں کی پہچان ہو گی جو دراصل سامراج کے ایجنٹ ہیں مگر انھوں نے اپنے آپ کو سیاسی اور مذہبی نقاب میں چھپایا ہوا ہے۔
سامراج کے نزدیک یہ بہت حساس علاقہ ہے جہاں اس کے تیل کے مفادات وابستہ ہیں جس کے ذریعے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ دھوکہ بازی کی انتہا دیکھیں کہ پوری سرد جنگ میں امریکا سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن جب گرم جنگ کا خاتمہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہ تو امریکا تھا جس نے اس پروپیگنڈے کی آڑ میں پوری دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتے ہوئے مجاہدین کی لاکھوں کی تعداد میں قربانیوں کی مدد سے گرم پانیوں پر قبضہ کرتے ہوئے نہ صرف تیل کے تمام چشموں پر قبضہ کر لیا بلکہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک پائے جانے والے تمام ملکوں کو اپنا غلام بنا لیا۔
وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی بے وقت موت سے دنیا کے غریب اور مظلوم عوام تاریخ کے اس سنگین اور المناک موڑ پر تنہا کھڑے ہیں۔ اس وقت امریکی سامراج نے دنیا کو گلوبلائز کرنے کے بعد تمام دنیا میں اپنے مقامی حکمران ایجنٹوں کے ذریعے اپنا قبضہ مکمل کر لیا ہے۔ ہمارے خطے میں ایک طویل مدت تک اس نے بادشاہتوں اور آمریتوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ اب سامراج کے یہی ایجنٹ، جماعتوں، گروپوں، افراد اور اداروں کی شکل میں، جو ماضی میں آمریتوں کے چوکیدار تھے، سامراج کے بدلتے ہوئے مفادات کے تحت اب جمہوریت کے ٹھیکیدار بنتے ہوئے اتنی بلند آواز میں جمہوریت کے نعرے لگا رہے ہیں کہ کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
جمہوریت کے یہ ٹھیکیدار جن کا ماضی کسی سے چھپا نہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کو عنقریب ایک بہت بڑا دھوکہ دینے جا رہے ہیں۔ نہ فوجی آمریتوں نے پاکستانی عوام کو کچھ دیا نہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کچھ دے سکے گی۔ پاکستان اور اس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت عراق، شام، افغانستان، پاکستان میں دہشت گردی کی ڈوریاں پس پردہ رہ کر امریکا ہلا رہا ہے اور اس میں مددگار دہشت گرد ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح مجاہدین کو امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کرتے ہوئے آج سے تیس سال پہلے استعمال کیا۔ بعینہ اسی طرح آج پھر فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے سامراجی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ دہشت گردی ختم ہونے والی نہیں بلکہ مستقبل میں اس کے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ یہ سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔
جس دن دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا، اس دن سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹوں کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مل کر ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے بجائے اپنے حقیقی دشمن امریکی سامراج اور اس کے مقامی حکمران ایجنٹوں کے اصل چہروں کو پہچانیں، دہشت گردی کی جنگ ہو یا فرقہ وارانہ دہشت گردی، یہ شروع ہی اس لیے کرائی گئی تھی کہ سامراج دشمن تحریکوں کو کمزور کرتے ہوئے' اپنی بقا کے خطرے سے دو چار سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جا سکے۔
اس صورت حال میں مسلمانوں کا اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر عمل کرنے سے اس خطے کے لوگ بھوک غربت سے نجات، روزگار، مفت تعلیم، مفت طبی سہولتیں اور مفت رہائش کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ اپنے قدرتی وسائل اور ذرایع پیداوار پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے جن پر اس وقت امریکی سامراج نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اس سامراجی سازش کو اب بھی نہ سمجھا تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہم سے بھی بدتر ہو گا... رہے نام اللہ کا۔
... ملالہ یوسف زئی اس سال مئی کے آخر اور جون کے شروع میں خاص طور پر اپنی صحت کے حوالے سے ''نیگیٹو فیز'' سے باہر نکل جائے گی۔
... -19-18 اور 22 تا 26-25 مارچ موسم پھر تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا۔