گنج گراں مایہ پانے کے راز
خواتین اس لیےگنجی نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی عقل کو بڑی احتیاط سے اپنے سر کے اندر رکھتی ہیں اور استعمال بالکل نہیں کرتیں .
ایک گنجے کو دیکھ کر ہمیں اکثر بہت رشک آتا تھا۔ انتہائی گول مٹول سے چاند کے گرد بالوں کا ایک ایسا خوب صورت ہالہ جسے کسی نے باقاعدہ پیمانے اور پرکار کی مدد سے بنایا ہو،خوبصورتی بھی ایسی کہ دل بار بار دیکھنے کو چاہتا ہے لیکن رشک کی وجہ صرف اس چندا ماموں کی خوب صورتی نہیں تھی، بلکہ لوگوں سے سن کر ہمارا بنایا ہوا یہ عقیدہ تھا کہ گنجے لوگ مال دار ہوتے ہیں یا مال دار لوگ گنجے ہوتے ہیں۔اس وجہ سے گنجوں کو دیکھ کر اکثرہمارے منہ میں پانی بھی آ جاتا ہے۔
مارے غصے، رشک اور حسد کے ہمیں اپنے گھنے بالوں والے سر پر بڑا غصہ آیا اور اس کا دانہ پانی یعنی تیل شیمپو وغیرہ بند کر دیا۔ شاید لاشعور تحت شعور یا کسی اور شعور میں یہ خواہش بھی رہی ہو کہ یہ فضول قسم کے بال جلدی جھڑ جائیں اور ہم بھی ایک عدد گنج گراں مایہ کے مالک بن جائیںاور پھر دولت کی دیوی ہم پر بھی مہربان ہو جائے اور ہمیں مالا مال کر دے لیکن ہمارے بال بڑے ڈھیٹ نکلے، مجال ہے جو کوئی ایک بھی اپنی جگہ سے ہل کر دیا ہو، بہت سے دو نمبر شیمپو اور تیل استعمال کیے لیکن نتیجہ وہی رہا کہ ایک بال بھی نہ گرا۔
پھر ہم نے سوچا کہ کسی استرہ بدست کی مدد حاصل کر لیں لیکن اندر سے جو چیز برآمد ہوئی، وہ کسی بھی اینگل سے گنج گراں مایہ کہلانے کے لائق نہیں تھی، اس میں تکونی مستطیلی اور مربعاتی زاویے تو بہت تھے لیکن وہ خوب صورت گولائی اور چمک بالکل نہیں تھی جو ہم دوسروں کی کھوپڑیوں میں دیکھتے تھے، یوں کہئے بعض لوگوں کے منہ کی طرح یہ کھوپڑی بھی دکھانے لائق نہیں تھی۔ سوچا اندر تو ویسے بھی کوئی کام کی چیز نہیں تھی، اب باہر سے بھی کچھ نہ رہے تو ایسی کھوپڑی لیے پھرنے بلکہ ڈھونے سے فائدہ کیا۔ بقول پیر و مرشد
آشفتگی کے ہاتھ سے ہے سر و بال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
لیکن ہم صحرا میں نہ تھے، دیواریں بہت تھیں لیکن ان کم بختوں پر گنج مٹانے کے نسخے تو بہت تھے، گنج بنانے کا کوئی بھی نسخہ نہیں تھا،ہمارے اس عقیدے کو پختہ کرنے میں فارسی والوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا کیوں کہ وہ ''خزانے'' کو گنج کہا کرتے ہیں اور یار لوگوں نے شاید انھی معنوں میں گنجے سر کو بھی دولت سے منسلک کیا ہوا ہے اور اس کا نام بھی ''گنج گراں مایہ'' مشہور کیا ہے، عقیدہ تو عقیدہ ہوتا ہے جم جائے تو پھر نکل کر نہیں دیتا، سو ہم بھی گنجوں کو بصد حسرت ویاس دیکھا کرتے تھے اور من ہی من میں للچاتے تھے۔
آسماں کتنے ستارے ہیں تیری محفل میں
اپنی قسمت کا مگر کوئی بھی ''چندا'' نہ ہوا
پھر ایک اچانک انکشاف نے ہمارے عقیدے کو جڑوں سے ہلا ڈالا۔ ایک بیوی گزیدہ اور ''زوجہ زدہ'' دانشور نے بتایا کہ گنجا سر دراصل ذہانت کی نشانی ہے جس زمین کے اندر کوئی دولت ہوتی ہے اس پر گھاس پھوس کم کم اگتی ہے اور اگر اگتی بھی ہے تو بہت جلد جل جاتی ہے، ثبوت کے طور پر اس نے بتایا کہ خواتین کبھی گنجی نہیں ہوتیں، یہ سن کر تو ہماری رہی سہی امید بھی جواں مرگ ہو گئی کیوں کہ ذہانت کے لحاظ سے ہماری کھوپڑی بھی کچھ کم تہی دست نہیں تھی بلکہ ایک اور فارسی مقولے نے تو رہا سہا کام بھی تمام کر دیا ۔۔۔ کہ
خانہ خالی را دیو می گیرد
خالی مکان میں بھوت پریت اور دیو بس جاتے ہیں کیوں کہ ہم نے بھی اپنی کھوپڑی کے اندر کچھ عجیب و غریب قسم کی مخلوقات کو محسوس کیا تھا جو اکثر ہمیں ڈرایا کرتی تھیں، لیکن یہ عقیدہ بھی کچھ زیادہ دنوں تک ٹک نہیں پایا کیوں کہ ہم نے ایسے ایسے گنجوں کو بھی دیکھا جو عقل سے زیادہ بھینس کے طرف دار تھے خصوصاً سرکاری افسروں اور امیروں میں تو ایسی ایسی کھوپڑیاں دیکھیں جن میں عقل جیسی کسی چیز کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا لیکن مال دار بہت تھے۔ گویا ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے عقیدے کی طرف رجوع کرنا پڑا کہ گنج دراصل دولت ہی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور واقعی سر کا گنج ہی گنج گراں مایہ ہوتا ہے، اس پر جب پیر و مرشد نے بھی گواہی دی کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھو کہ لیئم
تو نے وہ ''گنج ہائے گراں مایہ'' کیا کیے
تب ماننا ہی پڑا کہ اندر کی ذہانت ہی سے باہر کا سبزہ جل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ پھر ہمیں گنجا ہونے کی ''اچھا'' ہوئی اور ایسی ہوئی کہ ہوتی چلی گئی، کوشش پھر شروع کر دی، وہی تیل کنگھی کا بائیکاٹ ۔۔۔ لیکن بال اتنے ڈھیٹ تھے کہ گویا قبضہ مافیا بن گئے تھے، کھوپڑی کو خالی کر ہی نہیں کر رہے تھے، جی جل گیا لیکن بال نہیں جلے۔
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا
یہ خدا کا فضل و کرم ہے کہ ایک تو ہم پاکستان میں رہتے ہیں جہاں مفت اور بے طلب مشورے دینے والوں کی کبھی قلت پیدا نہیں ہوتی،پھر مزید فضل الٰہی سے ہم مسلمان بھی ہیں اور مسلمانوں کے اندر رہتے ہیں اور مسلمان اور کچھ نہ کریں مفت مشورے دینے کا نیک کام ضرور کرتے ہیں، اس پر تہرا فضل و کرم خدا یہ ہوا کہ پختونوں کے اندر رہتے ہیں اور پختون مشورہ دینے میں اتنے سخی داتا ہیں کہ کوئی مانگے نہ مانگے مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اگر کوئی اپنے گھر بھی جارہا ہو تو یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ بھائی اپنے گھر جاؤ۔
مسجد میں نماز پڑھی جانے کے بعد نمازیوں کو پکڑ کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ نماز پڑھنے کا مشورہ، کسی بچے کو اسکول جاتے وقت اسکول جانے کا مشورہ، حتیٰ کہ کسی قتل کرنے والے کو قتل کرنے اور قتل ہونے والے کو قتل ہونے تک کے مشورے بھی دیے جا تے ہیں،چنانچہ جب ہم بسلسلہ گنج گرا ںما یہ مشورہ کے طالب ہوئے تو اتنے مشورے مل گئے کہ رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی، دماغ میں ان مشوروں کو اسٹاک کیا تو حیرت انگیز طور پر بال جھڑنے لگے کیوں کہ ان میں زیادہ تر مشہور ہے کسی مخصوص صابن یا شیمپو استعمال کرنے کے تھے لیکن جب ''چڑیاں'' سارا کھیت چگھ گئیں تو نیا انکشاف ہو چکا تھا، خواتین کے سروں پر گنج نہ ہونے اور مردوں کے گنج مایہ کی وجہ ہماری سمجھ میں آگئی تھی۔
اصل میں خواتین اس لیے گنجی نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی عقل کو بڑی احتیاط سے اپنے سر کے اندر رکھتی ہیں اور استعمال بالکل نہیں کرتیں اور کوشش کرتی ہیں کہ مردوں ہی کی کھوپڑیوں کو استعمال میں لائیں۔ اوپر سے گنج کے ساتھ دولت کا شوشہ بھی پھیل گیا،چنانچہ جن جن خواتین کے حضرات گنجے نہیں ہوتے، ان کو چپل کی نوک پر رکھ دیتی ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد ایک اچھاخاصا آئیڈیل ''گنج گراں مایہ'' حاصل ہو جاتا ہے۔