ایم کیو ایم ایک منفرد سیاسی جماعت…
سانحہ عباس ٹاؤن میں ایم کیو ایم واحد جماعت تھی جہاں ان کے کارکنان اور اراکین پارلیمنٹ متاثرین کی مدد کے لیے پہنچے۔
پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس تقریباً تین سو سے زیادہ سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان میں پندرہ بیس سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں کی سطح پر فعال اور سرگرم ہیں، ان میں سے چند سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جن کی طلبا تنظیمیں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی کام کرتی ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو طلبا تنظیم کے بطن سے تخلیق ہوئی ہے یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی یونیورسٹی میں پہلے قائم ہوئی پھر اس کی شاخیں دیگر کالجز میں فعال ہوئیں۔
11 جون 1978ء کو الطاف حسین کی سربراہی میں اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی گئی جو جامعہ کراچی اور دیگر تعلیمی اداروں میں دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئی اور طلبا اے پی ایم ایس او میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ اس زمانے میں شاید سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا لیکن آج اگر اے پی ایم ایس او کی کامیابی کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ الطاف حسین اور ان کے ابتدائی ساتھیوں کی دور اندیشی اور اپنے مقصد سے بے پناہ اخلاص شامل تھا۔
اے پی ایم ایس او کو نہ تو کسی پروفیسر یا استاد کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ شہر کی کسی اہم سیاسی شخصیت کی مشاورت شامل تھی۔ یہ نوجوانوں کے ذہن کی اختراع تھی جنھیں ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا تھا، ان دوستوں میں الطاف حسین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، ان کی شخصیت میں کچھ ایسی کرشماتی صفات تھیں کہ بہت جلد ہزاروں طلبا و طالبات ان کے گرویدہ ہو گئے تھے، حالانکہ وہ نہ کسی دولتمند خاندان کے چشم و چراغ تھے اور نہ ہی اقتدار پہ فائز کسی شخصیت سے قرابت داری تھی۔
7 سال سے بھی کم عرصے میں اے پی ایم ایس او اس قدر مقبول اور فعال ہو گئی کہ اس نے 18 مارچ 1984ء کو مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی۔ ازاں بعد الطاف حسین نے اسے لسانی حد بندی سے نکال کر اس جماعت کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مہاجر کے لفظ کو متحدہ میں تبدیل کر دیا اور 26 جولائی 1997ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے نام پر سندھ سے باہر نکل کر دوسرے صوبوں میں کام شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
متحدہ قومی موومنٹ لمحہ موجود میں پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے، ایم کیو ایم کی عمر کم ہے لیکن اس کے دامن میں جدوجہد طویل اور قربانیاں بے شمار ہیں۔ اگر ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ایم کیو ایم ملک کی عام سیاسی جماعت نہیں کیونکہ ہمارے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے صرف روایتی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں لیکن ایم کیو ایم بالکل مختلف اور منفرد جماعت ہے۔ ایم کیو ایم جاگیردار اور وڈیرہ شاہی نظام کے خلاف اور موروثی سیاست کی نفی کرتی ہے۔
98 فیصد عوام کی امنگوں کے مطابق تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے مخلص اور ایماندار امیدواروں کو ایوانوں تک پہنچانا چاہتی ہے، اس اصول پر عمل کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ نے جاگیرداروں اور وڈیروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیے اور نہ ہی دولت کی بنا پر اپنی پارٹی کے ٹکٹ کسی کو فروخت کیے۔ ایم کیو ایم واحد سیاسی جماعت ہے جس کا قائد اور سربراہ ملک سے باہر رہ کر پارٹی کا نظم و نسق رابطہ کمیٹی کی مشاورت سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ پارٹی قائدین کی اولاد یا قریبی رشتے داروں کو پارٹی ٹکٹ دینے کی روایت کو ختم کرنے والی واحد جماعت ہے۔
الطاف حسین پاکستانی سیاسی جماعتوں میں واحد لیڈر اور پارٹی سربراہ ہیں جنہوں نے کبھی کسی بھی نشست کے لیے انتخاب لڑا اور نہ ہی مستقبل میں ذاتی طور پر اقتدار کے خواہشمند ہیں۔ الطاف حسین کا یہی کردار انھیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ممتاز اور معتبر بناتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے تحریر کیا کہ ایم کیو ایم صرف سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ سماجی اور فلاحی تنظیم بھی ہے، ایم کیو ایم صرف الیکشن جیتنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہے کہ ادب، ثقافت، کھیل، مذہبی تقاریب طلبا و طالبات کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں میں نہایت فعال نظر آتی ہے۔
ایم کیو ایم نہایت باقاعدگی سے ہر ہفتہ ایک ادبی تقریب کا انعقاد کرتی ہے، عالمی مشاعرہ کے انعقاد کے علاوہ کل پاکستان مشاعروں، کتابوں کی تقریب اجرا اور کتب میلوں کا باقاعدگی کے ساتھ انعقاد کرتی ہے۔ محفل موسیقی، محفل نعت و محفل سماع ایم کیو ایم کی علیحدہ شناخت بناتی ہے۔ کھیلوں کے مقابلے منعقد کرانا بھی ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ مذکورہ تقریبات میں ایم کیو ایم کے وفاقی و صوبائی وزرا، اراکین رابطہ کمیٹی اور اراکین پارلیمنٹ عام کارکنوں کے ساتھ مہمانوں کی پذیرائی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے پاکستان کی سیاست میں وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے بڑے مثبت اقدامات اختیار کیے ہیں۔ عید میلادالنبیﷺ کے جلوس ہوں یا یومِ عاشورہ اور چہلم امام حسین کے جلوس ایم کیو ایم کے رہنما عام لوگوں کے ساتھ ان اہم مذہبی اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں بلکہ انتظامات میں مصروف ہوتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کوئی سانحہ ہو، خودکش دھماکا یا کوئی قدرتی آفت ہو، ایم کیو ایم کے اراکین سب سے پہلے جائے وقوع پر پہنچتے ہیں اور ان کے کارکنان ہر مشکل گھڑی میں مصیبت زدہ لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اقتدار میں حکومت کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی عوامی مفاد میں حکومت سے شدید احتجاج کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آنے والا زلزلہ یا سیلاب، شدید بارشیں ہوں یا قدرتی آفت ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جس کے رہنما اور کارکنان سب سے پہلے متاثرین کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری پر ان کے نامزد صوبائی وزیر رئوف صدیقی نے صرف اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ کوشش کے باوجود حکومت سے متاثرین کی مدد کے لیے خاطر خواہ فیصلہ نہیں کرا سکے۔
عباس ٹاؤن کے سانحے میں ایم کیو ایم ہی وہ واحد جماعت تھی جہاں ان کے کارکنان اور اراکین پارلیمنٹ متاثرین کی مدد کے لیے پہنچے۔ تین سال پہلے جب چہلم کے جلوس میں دھماکا ہوا اور شر پسند عناصر نے جوتن داس مارکیٹ میں آگ لگائی اور اس کے قریب کی دکانیں توڑ کر قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے تو یہ صرف ایم کیو ایم ہی تھی جس نے عوام کی مدد کی اور مارکیٹ کی ازسر نو تعمیر کرا کر دکانداروں کے کاروبار کو دوبارہ فعال کرنے میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ایم کیو ایم یوں تو تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ مجبوری میں شریک اقتدار رہی لیکن جب بلدیاتی نظام کے تحت ایم کیو ایم کو کراچی اور حیدرآباد کی سٹی گورنمنٹ میں مکمل اختیارات حاصل ہوئے تو کراچی کے ناظم مصطفیٰ کمال نے شہر کا اس طرح نظام سنبھالا کہ پاکستان کے عوام ہی حیران نہیں ہوئے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتیں نے کراچی کی ترقی کو تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا اور بین الاقوامی سطح پر مصطفیٰ کمال کی خدمات کو تسلیم کیا۔
گزشتہ 5 سال میں ایم کیو ایم کو عوامی مفادات کے مقاصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دینا پڑیں۔ سندھ کی شہری آبادی مہنگائی، بے روزگاری، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور آئے دن دہشتگردی کے واقعات سے بے حد پریشان، خوفزدہ اور ذہنی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہے۔ آرام، سکون اور تفریح کے مواقع بہت محدود اور کم ہو گئے ہیں، سب جانتے ہیں کہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کو سکون فراہم کرتی ہیں، شاعری اور ہماری مشرقی موسیقی ذہن کو سکون اور دلوں میں نرمی پیدا کرتی ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ایم کیو ایم اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف علاقوں میں مشاعرے اور میوزیکل پروگرام منعقد کرے تا کہ عوام گھروں سے نکلیں اور ایک دوسرے کے قریب آئیں اور اپنی کچھ شامیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سکون سے گزارنے کے مواقع میسر آئیں۔