فیس بک کی گواہی

فیئس بک پر پسندیدگی کے یہ ’’کلکس‘‘ آپ کو، آپ کی تمام تر شخصیت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دینے والے ثابت ہو سکتے ہیں۔


Shaikh Jabir March 18, 2013
[email protected]

بزرگوں سے سنا تھا کہ روز محشر انسان کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ کسے خبر تھی کہ لاکھوں افراد کی پسند ''فیس بک'' اس دنیا میں ہی خود ان کے خلاف گواہ بن جائے گی، ایک مستند گواہ۔

فیس بک سوشل نیٹ ورکس میں سب سے آگے ہے۔ فیس بک کے دیوانے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ستمبر 2012ء تک فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے متجاوز تھی۔ اس کی نصف سے زائد تعداد اپنے موبائل فون کے ذریعے فیس بک سے کنیکٹ ہوتے ہیں۔ فیس بک نے 2009ء میں ایک نیا فیچر متعارف کروایا تھا۔ یہ ''لائک'' کا بٹن ہے۔ اسے دبا کر فیس بک استعمال کرنے والے کسی بھی چیز کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔

کسی تصویر، ویڈیو، البم، مضمون، غرض کسی بھی چیز پر جتنے زیادہ ''لائک'' کلک ہوتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ مقبول مانی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1.13 ٹریلین لائک کیے جا چکے ہیں۔ فیس بک پر 140.3 بلین ''فرینڈز'' کنکشن ہیں۔ فیس بک پر 219 بلین سے زائد تصاویر ''اپ لوڈ'' کی جا چکی ہیں۔ 17 بلین سے زائد مقامات نشان زد کیے گئے ہیں۔ موسیقی کے دلدادہ افراد فیس بک کی ایپلی کیشنز سے 62.6 ملین گانے 22 ارب مرتبہ سن چکے ہیں۔ فیس بک کیا ہے دور جدید کی الف لیلہ ہے۔

فیس بک استعمال کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ یہ استعمال خود ان کے خلاف گواہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں کیمبرج یونیورسٹی اور مائیکرو سافٹ کے اشتراک سے ایک تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق فیس بک پر کیے گئے ''لائک'' کے کلک سے کسی بھی فرد کی جنس، نسل، عمر، ذہانت، مذہب اور دیگر نجی معلومات کا درست اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

تحقیق کاروں نے ایک ایسا حسابی قاعدہ تیار کیا ہے جو فیس بک پر کیے گئے ''لائکس'' کو استعمال کرتا ہے اور کسی بھی فرد کا درست ترین خاکہ تیار کرتا ہے۔ یہ حسابی قاعدے نہایت صحت سے کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مرد و زن کی تقسیم جانچنے کے لیے 88 فی صد تک کامیاب رہے ہیں۔ رنگ و نسل کے اعتبار سے افراد کو ممیز کرنے کے لیے 95 فی صد تک کامیابی۔ یہ قاعدہ فرد کے جنسی رجحانات سے لے کر اس کے والدین کی زندگی، یہاں تک کہ ان کی علیحدگی تک کے تخمینے خطرناک حد تک درستی سے لگاتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام تر معلومات کیوں؟ اور کس کے لیے؟ ہم نے جیل خانہ جات پر کالم لکھتے ہوئے ''ہیپناٹزم'' کا ذکر کیا تھا۔ دراصل کچھ مقتدر ہستیوں نے ''گلوبلائزیشن'' اور ''گلوبل ولیج'' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دنیا کو ایک بہت بڑے ''ہیپنا ٹیکون'' یا نگران خانے میں تبدیل کر دیا۔ آپ فون پر یا موبائل پر جو بھی گفتگو کر رہے ہیں، آپ جہاں بھی جو حرکت کر رہے ہیں، آپ زیر نگرانی ہیں۔ آپ کے انٹرنیٹ کا استعمال آپ کی ای میلز وغیرہ سب کچھ۔ مصنوعی سیارے، کیمرے کی آنکھ اور جدید آلات ہر وقت، ہر ہر فرد کو اپنے حصار میں، اپنی نگرانی میں لیے ہوئے ہیں۔

آزادی اور نجی زندگی (پرائیویسی) کے تمام تر تصورات اور دعوے باطل ہیں۔ آئزک برلن کہتا ہے، آزادی کیا ہے؟ آزادی آپ کے مقتدر کا حلقہ اثر ہے۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ آزادی کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ فرد کی آزادی چھین لیا جانا ممکن ہو۔ سب سے زیادہ اس طرح کی معلومات کی کھوج خفیہ اداروں کو ہوا کرتی ہے۔ خفیہ اداروں اور عسکری ذرایع کے علاوہ یہ اشتہاری اداروں اور مارکیٹنگ کے افراد کی خصوصی دلچسپی کے اعداد و شمار ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کی خبریں عام ہونے سے فیس بک کا استعمال کم ہو سکتا ہے یا فیس بک پر اشیاء کی پسندیدگی کے اظہار کے لیے ''لائیک'' کرنے کے رجحان میں کمی آ سکتی ہے۔ لیکن بعض نفسیاتی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک ڈیجیٹل دور کا ایک طرح کا نشہ بھی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ نشے کے عادی افراد ہر اس نشے کی مضرتیں آشکار ہونے کے باوجود اس قسم کے نشے کا ترک آسان اور بسا اوقات ممکن ہی نہیں ہوتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی اور مائیکرو سافٹ کے اشتراک سے کی گئی اس تحقیق میں شامل ''ڈیوڈ اسٹل ویل'' کا کہنا ہے کہ فیس بک پر ''لائیک'' کا بٹن دبانا اور پسندیدگی کا اظہار کرنا عام سی بات ہے۔ لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ لیکن کسی کو اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ برسوں بعد پسندیدگی کے یہ ''کلکس'' آپ کو، آپ کی تمام تر شخصیت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دینے والے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ''اسٹل ویل'' ایک ''سائیکو میٹرک'' تحقیق کار ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ ابھی ہم نے صرف ''فیس بک'' اور اس کا بھی صرف ایک ڈیٹا استعمال کیا ہے، لیکن کسی شخصیت کا کھوج لگانے یا شخصیت کے رجحانات، میلان اور افتاد طبع سے واقفیت کے لیے کوئی بھی ''ڈیجیٹل ڈیٹا'' یعنی آپ کی ''ویب سرچنگ، ویب سرفنگ، ای میلز'' یہاں تک کہ آپ کے موبائل فون کے استعمال کے ذریعے بھی اسی قسم کی معلومات اور نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے۔

یہ تحقیق عین اس وقت سامنے آئی ہے جب مغرب میں نجی زندگی (پرائیویسی) کے حوالے سے مباحث زوروں پر چل رہے ہیں۔ لوگوں کو خیال ہو رہا ہے کہ ان کی پرائیویسی نہ صرف یہ کہ شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے بلکہ ختم ہی ہو گئی ہے۔ وہ فکر مند ہیں کہ اس گلوبل ولیج میں ان کی نجی زندگی، ان کے خانگی، ذاتی اور جذباتی معاملات، ان کے خیالات ایک تماشہ تو نہیں بن گئے؟ کہیں وہ ایک ایسی چیز تو نہیں بن گئے جو وہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ ان کے خیالات، ان کے احساسات کوئی کاروباری مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کر رہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انھیں سہولیات اور تفریح مہیا کرنے کے نام پر ان کا استحصال، استعمال اور ان کو آشکار کیا جا رہا ہو؟ انھیں پتہ بھی نہ ہو اور ان کے دام لگ رہے ہوں، کوئی ان کو، ان کی پسندیدگی کو کہیں فروخت کر کے دام کھرے کر رہا ہو؟ یہ کیسی ڈیجیٹل دنیا ہے؟ یہ کیسی ترقی ہے؟

تحقیق میں شامل ''مائیکل کیناسکی'' کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اپنی نجی معلومات کا افشا پسند نہیں۔ ''میں جدید ٹیکنالوجی کا بڑا مداح ہوں، لیکن یہ پسند میری نجی زندگی کے لیے شدید خطرہ ثابت ہو رہی ہے۔''

2010ء کے ایک سروے میں ''امریکن اکیڈمی آف میٹریمونل لائرز'' نے کہا کہ طلاق کے 5 میں سے 4 کیسز میں طلاق کے لیے شہادت سوشل نیٹ ورکس سے جمع کی جاتی ہے۔ برطانوی فرم ''ڈائیورس آن لائن'' کا سروے بتاتا ہے کہ طلاق کے ایک تہائی سے زائد کیسز میں لفظ ''فیس بک'' استعمال ہوا۔80 فی صد امریکی ''ڈائیورس اٹارنیز'' کا خیال ہے کہ سوشل نیٹ ورکس طلاق کے کیسز میں اہم عوامل ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کیسا سوشل نیٹ ورک ہے جو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کر رہا ہے، طلاق عام کروا رہا ہے؟

لبرل حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے طریقوں سے کسی کے بھی سیاسی نظریات یہاں تک کہ جنسی رجحانات کے بارے میں درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف یہ کہ آزادی بلکہ خود زندگی کے منافی ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں