ایم کیوایم …کیوں اور کیسے

ایم کیو ایم نے برسوں سے محروم مہاجروں کے غریب مگر پڑھے لکھے نوجوانوں کو بلدیات کے ایوانوں میں بھیجا۔

جس ملک یا جس جغرافیہ میں وہاں بسنے والے طبقہ ہائے آبادی کے ساتھ مساوی سلوک نہ کیا جائے، کسی قوم یا طبقہ آبادی کو ہر چیز کا حقدار اور کسی قوم کو اس کے حقوق سے محروم کر دیا جائے تو مسلسل روا رکھا جانے والا غیر مساویانہ اور امتیازی سلوک اس قوم میں احساس محرومی کو جنم دیتا ہے اور جس بنیاد پر کسی قوم یا طبقہ آبادی کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے وہی بنیاد اس قوم یا طبقہ آبادی کی شناخت بن جایا کرتی ہے۔

ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے آباد تھے جنھوں نے تحریک پاکستان میں اس لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کیونکہ انھیں بتایا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں جب کہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندوستان سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو ہندؤوں کا غلام بن کر رہنا ہو گا، لہٰذا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ہونا چاہیے، جہاں برصغیر کے تمام مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے اس مقصد کی خاطر تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کی اصل جدوجہد ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں ہی میں چلی۔

موجودہ پاکستان کے علاقوں میں تحریک پاکستان برائے نام تھی بلکہ پنجاب میں تو قیام پاکستان کی مخالف یونینسٹ پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ صوبہ سرحد میں کانگریس کا زور تھا، بلوچستان آزاد ریاست تھی جب کہ سندھ میں مسلم لیگ برائے نام تھی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کی مسلم اقلیتی ریاستوں یوپی، سی پی اور بہار سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مسلمانوں کی اکثریت سندھ کے شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، لاڑکانہ وغیرہ میں آ کر آباد ہوئی۔ قیام پاکستا ن کے بعد سے ہی ہجرت کر کے سندھ یا پنجاب آنے والوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں اس کے باعث بڑی تعداد میں مسلمان کچھ عرصے بعد ہی مایوس ہو کر ہندوستان واپس چلے گئے۔ 1951ء میں ہندوستان سے مزید مسلمانوں کے پاکستان میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔

اگرچہ ہمارے بزرگ تو ان تاریخی حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن یقیناً ہماری نوجوان نسل ان حقائق سے ناواقف ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں نے ہی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی، لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور ان کے دست راست اور ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں قتل کے بعد مہاجروں کو سول سروسز سے جبراً بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں ملک کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے زمانے میں شدت آئی جو ان کے جانشین جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی جاری رہی۔

1972ء میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم بنے تو ان کے دور میں مہاجروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا سلسلہ رکنے کے بجائے اور بڑھ گیا۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا گیا جس کے تحت دیہی سندھ کے لوگوں کو زندگی کے میدان میں آگے لانے کے نام پر شہری سندھ میں آباد مہاجروں پر سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے، سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات میں باقاعدہ یہ لکھا جاتا تھا کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر سے ملازمتوں کے خواہشمند افراد درخواستیں دینے کی زحمت نہ کریں۔ 1974ء میں سازش کے تحت کرائے گئے لسانی فسادات کے دوران لاڑکانہ، خیر پور اور اندرون سندھ کے کئی شہروں سے مہاجروں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا۔


1977ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ملک میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء نافذ ہونے سے ملک کے حالات تو یکسر بدل گئے مگر مہاجروں کے ساتھ روا رکھا جانے والا متعصبانہ سلوک اور ان کے حالات نہ بدلے۔ برسوں سے کی جانے والی نا انصافیوں، زیادتیوں اور امتیازی سلوک نے مہاجروں میں احساس محرومی کو جنم دیا، ان میں یہ احساس شدت سے پیدا ہونے لگا کہ آخر ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ آخر ہم کون ہیں؟ کیا ہمارا پاکستان پر کوئی حق نہیں؟ مہاجر احساس محرومی کی آگ میں جل رہے تھے، ان کے اندر ایک لاوا پک رہا تھا لیکن اس لاوے کو باہر نکالنے والا کوئی نہ تھا، ان کے احساس کو زبان دینے والا کوئی نہ تھا، ان کے لیے بولنے والا کوئی نہ تھا۔

ایسے میں کراچی یونیورسٹی کے بی فارمیسی کے ایک طالبعلم الطاف حسین نے جو خود بھی احساس محرومی کی اسی آگ میں جل رہا تھا، نے 11 جون 1978ء کو مہاجر طلبا کی پہلی باقاعدہ تنظیم ''آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' قائم کی۔ تین سال میں اس کی مقبولیت مہاجر طلبا میں بہت بڑھنے لگی۔ تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہوئے تو الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے کراچی کے علاقوں میں اپنے پیغام کو پھیلانا شروع کر دیا۔ دائرہ بڑھنے لگا تو 18 مارچ 1984ء کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بطن سے ''مہاجر قومی موومنٹ'' نے جنم لیا۔ یہ مہاجروں کی پہلی باقاعدہ عوامی تنظیم تھی۔

اس تنظیم کا بننا تھا کہ برسوں سے اندر ہی اندر پکنے والا احساس محرومی کا لاوا پھٹ پڑا، برسوں سے خاموش مہاجروں کے اندر پلنے والے جذبات کو زبان مل گئی، خاموشی کے بند ٹوٹ گئے، ایک سیلاب تھا جو ایم کیو ایم میں شامل ہونے لگا۔ کراچی سے حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، ٹنڈو الہ یار اور دیگر شہروں میں بھی تیزی سے ایم کیو ایم مقبول ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال ہماری اسٹیبلشمنٹ کو کیسے پسند آ سکتی تھی، چنانچہ ایم کیو ایم کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف تو اس کے خلاف پروپیگنڈے کرائے گئے تو دوسری جانب اسے ختم کرنے کے لیے مہاجروں کو سندھیوں اور دیگر لسانی قومیتوں سے متصادم کرانے کے لیے باقاعدہ سازش کے تحت فسادات کرائے گئے تا کہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ایم کیو ایم مہاجروں کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ یہ دیگر قومیتوں کے خلاف وجود میں آئی ہے۔

ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو تین مرتبہ گرفتار کیا گیا، ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کو شہید اور گرفتار کیا گیا۔ مظالم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، لیکن تمام مظالم اور قتل عام کے واقعات بھی مہاجرو ں کو خوفزدہ نہ کر سکے۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں تاریخی کامیابی حاصل کی، شہری علاقوں کے مہاجر عوام نے ایم کیو ایم کو اپنا بھرپور مینڈیٹ دیا۔

ایم کیو ایم نے برسوں سے محروم مہاجروں کے غریب مگر پڑھے لکھے نوجوانوں کو بلدیات کے ایوانوں میں بھیجا۔ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں بھی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہاجروں کے صحیح اور حقیقی نمایندے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں پہنچے۔ مہاجروں کی اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے 19 جون 1992ء کو اس کے خلاف تاریخ کا بدترین فوجی آپریشن شروع کیا گیا، جس کے دوران ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان اور ہمدرد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی، عمر بھر کے لیے معذور اور جلاوطن ہوئے، لیکن یہ مظالم بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والی اس تحریک کو ختم نہ کر سکے۔

آج ایم کیو ایم کا 29 واں یوم تاسیس ہے اور اگر ایم کیو ایم کی اس جدوجہد پر روشنی ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کو چلانے والی اور ملک کی اصل با اختیار اسٹیبلشمنٹ اور حکمراں اشرافیہ نے مہاجروں سے جنم لینے والی اس تحریک کو آج تک دل سے قبول نہیں کیا۔ جب ایم کیو ایم صرف مہاجر قومی موومنٹ تھی تو ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور تمام ہی ارباب اختیار کی جانب سے یہ کہا جاتا تھا کہ ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ لسانیت کے دائرے سے نکل کر قومی دھارے میں شامل ہو لیکن جب ایم کیو ایم نے 1997ء میں اپنی تحریک کا دائرہ بڑھا کر مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کر دیا اور اپنے قافلے میں تمام نسلی و لسانی اکائیوں، قومیتوں، برادریوں، مسلکوں اور مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا لیکن یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ اس کے باجود اس کے مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا گیا۔ آخر میں یہ نکتہ ضرور سبھی کو سمجھ لینا چاہیے کہ کسی طبقہ آبادی کو ظلم و جبر کا نشانہ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جا سکتا، اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔
Load Next Story