نظریہ کی ترجمان ‘ ایم کیو ایم…
ایم کیو ایم کی کامیابی کی اصل کنجی اس کے فقیدالمثال نظم و ضبط، نظریے اور سوچ سے پختہ وابستگی کی بنیاد پر ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نظریاتی سیاست کے دعویدار بہت ملتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں اگر دیکھا جائے تو سیاسی مقاصد اور وقتی ضرورت کے لیے نظریے سے انحراف کی مثالیں بھی بہت ملتی ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اترتی ہیں تو سیاسی و انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کہ سیاسی جماعتوں کا قیام اور ارتقائی مراحل سے گزرنا جان جوکھوں کا کام ہے، اس کے لیے قربانیوں اور تحمل و برداشت کی ان مٹ تاریخ رقم کرنا پڑتی ہے۔
تب جا کر ایک سیاسی جماعت مضبوط اور مستحکم مقام حاصل کرتی ہے اور اس مقام کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اس سیاسی جماعت کا خمیر عوام سے اٹھا ہو اور اس کی قیادت بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہو، جس کی وہ نمایندگی کرنے کی دعویدار ہے۔ اس کسوٹی پر اگر پاکستان کی تاریخ میں کوئی سیاسی جماعت پوری اترتی ہے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ کیونکہ جس نظریے کی بنیاد پر اس تحریک کا آغاز ہوا تھا، وہ علمی مباحث کے عمل سے گزر کر عملی ارتقا کے مراحل بھی طے کر چکی ہے۔ باالفاظ دیگر اگر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریک کی بنیاد کے موقعے پر یہ فرمایا تھا کہ ہم پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کر سکتے، تاوقتیکہ حقوق سے محروم عوام متحد ہو کر اپنے اندر سے قیادت نہ نکال لیں۔
اسی فکر اور سوچ کو لے کر ایم کیو ایم نے اپنے دائرہ کار کو ملک گیر سطح پر منظم کیا اور کم و بیش تمام صوبوں میں ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ تنظیم سازی کے بعد مکمل ہو چکا ہے۔ آج ایک جماعت، ضلعی صدر کے انتخاب کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے متوسط طبقے کے شخص کو جماعتی عہدیدار بنا کر کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کا مشاہدہ کریں تو انھیں سیکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ تنظیمی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی و اراکین سینیٹ، وزرا، مشیر اور ضلعی حکومتوں کے ناظمین اور کونسلرز، سب کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے۔
یہی اس نظریے کی سچائی ہے جو بنیادی طور پر غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے پیش کیا گیا تھا، جس کے پیش نظر ایک منصفانہ نظام کے ذریعے حقوق سے محروم عوام کو ان کے حقوق دلانا اور ان کو آزادی کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھانا تھا۔ آج اسی سیاسی جماعت کے قیام کے 29 برس مکمل ہو رہے ہیں اور اگر ہم ان گزرے دنوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس کو قرطاس کے چند ٹکڑوں پر سمیٹنا ممکن نہیں۔
اس تحریک نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا کہ جب اس تحریک کے کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ قیادت اور کارکنان کا قتل عام کیا گیا۔ اس کے باوجود 1987ء سے لے کر تا دم تحریر جتنے بھی انتخابی معرکے ہوئے، ایم کیو ایم نے انفرادی حیثیت میں اس میں حصہ لیا اور کامیابی کی بے مثال تاریخ رقم کی۔ جب جب حق پرستوں کو آزادی کے ساتھ عوام کی خدمت کا موقع دیا گیا تو انھوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جنھیں ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
گزشتہ 5 سال میں حق پرستوں کو عوام کی خدمت کے مواقع میسر نہ آئے، لیکن اس کے باوجود اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ اور مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے اراکین نے اپنے ترجیحی فنڈ سے سیکڑوں کلومیٹر سڑکوں کی از سر نو تعمیر و استرکاری کے منصوبے مکمل کیے۔ نکاسی و فراہمی آب کے درجنوں منصوبے بھی پایہ تکمیل کو پہنچے، اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اسکولوں میں اضافی سہولیات فراہم کیں اور تفریحی پارکس تعمیر کیے۔
یہی وہ سبب ہے جس کے باعث ایم کیو ایم پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے گزشتہ ربع صدی میں اپنے عوامی مینڈیٹ کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ بھی نوٹ کیا گیا۔ قائد تحریک الطاف حسین کے نظریے کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم زندگی کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایم کیو ایم نوجوانوں، خواتین، بزرگوں، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور اقلیتوں سمیت سب کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اپنی انتھک جدوجہد کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔
آج ملک جس دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باعث تباہی کا شکار ہے یہ وہ خطرہ ہے جس کے بارے میں قائد تحریک الطاف حسین مسلسل باور کراتے رہے لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی اور آج ملک کا معاشرتی و اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر آ پہنچا ہے۔ آج ان عناصر کے لیے یہ امر باعث خفت ہے جو چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ ابھی بھی وقت باقی ہے اگر ہم پالیسوں میں اصلاحات لا کر اس کی سمت درست کر لیں، بصورت دیگر وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ مثل مشہور ہے اقوام کی لمحوں کی غلطی کی سزا صدیوں پر محیط ہوتی ہے، اگر آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنا ہے تو الطاف حسین جیسی قیادت کی دور اندیشی سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔
ایم کیو ایم کی اس کامیابی کی اصل کنجی اس کے فقیدالمثال نظم و ضبط، نظریے اور سوچ سے پختہ وابستگی کی بنیاد پر ہے۔ آج 29 واں یوم تاسیس کارکنان تحریک اس یقین کے ساتھ منا رہے ہیں کہ وہ نظریے کی ترویج اور تحریک کی فکر کو پھیلانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر دیں گے اور اپنے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے گزارتے ہوئے اس امر کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے کہ ہم ہر دن اور بالخصوص یوم تاسیس پر اپنا احتساب کریں گے اور اس بات کا تعین کریں گے کہ ہم نظریے کی بقا اور اپنے قائد الطاف حسین کی دی ہوئی سوچ کو پھیلانے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں۔ قائد تحریک الطاف حسین اور عوام کو ایم کیو ایم کا 29 واں یوم تاسیس مبارک ہو۔