وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہوگا
کراچی مکمل طور پر بھتہ مافیا کے رحم و کرم پر ہے، ہر طرف بھتے کی پرچی کا راج ہے۔ پرچی کا حکم نہ ماننے کا مطلب موت ہے۔
صد شکر کہ پاکستان کی جیالی جمہوریت نے پانچ سال گرتے پڑتے، ہانپتے کانپتے، ہنستے بولتے، روتے گاتے پورے کر ہی لیے۔ منطق یہ کہتی ہے کہ اگر یہ حکومت نا اہل ہوتی تو پانچ سال پورے کیسے کرتی؟ جب پانچ سال پورے کر ہی لیے ہیں تو نا اہل کیسے ہوئی؟ منطق پہ مٹی پاؤ، حقیقت چیخ چیخ کر دہائی دے رہی ہے کہ نا اہل حکومت نے ہی پانچ سال پورے کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ ''ہم نے پانچ سال میں وہ کام کیا ہے جو 65 سال میں نہ ہو سکا'' حرف بہ حرف صحیح ہے۔
ایک سردار جی جو شہر سے ہو کر آئے تھے چوپال میں اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہہ رہے تھے ''میں ہوٹل کے کمرے میں سو رہا تھا، رات کے دو بجے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی، باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک حسین و جمیل لڑکی سولہ سنگھار کیے اکیلی کھڑی تھی۔ سجنو! اب تم ہی بتاؤ کبھی لدھیانہ میں ایسا ہوا ہے؟'' سجنوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا ''ناجی نا! لدھیانہ میں تو کبھی ایسا نہیں ہوا'' سردار جی نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا ''میں نے اس لڑکی سے دریافت کیا ''تم کو کس سے ملنا ہے؟'' لڑکی نے ہنس کر جواب دیا ''تم سے!'' اور زبردستی کمرے میں گھس آئی اور اندر سے کمرے کی کنڈی چڑھا دی۔
سجنو! اب تم ہی بتاؤ کبھی لدھیانہ میں ایسا ہوا؟'' سارے دیہاتی گالوں پر طمانچے مارتے ہوئے گویا ہوئے ''نا جی نا! لدھیانہ میں تو کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے''۔ اس کے بعد سردار جی لاٹھی ٹیک کر گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چادر ٹھیک کر کے کندھے پر ڈالی اور جانے لگے۔ سارے دیہاتی شور مچانے لگے ''سردار جی! آگے کیا ہوا یہ بھی تو بتاؤ!'' سردار جی نے رُکھائی سے جواب دیا ''کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا، وہی ہوا جو جب سے دنیا قائم ہوئی ہے ہوتا چلا آ رہا ہے''۔ اس کے بعد چلتے بنے۔ نمونتاً چند ایسے کارنامے ملاحظہ لیجیے جو 65 سال میں نہیں ہوئے مثلاً:
A۔ کراچی کی سڑکوں پر روزانہ درجن بھر افراد ''پرچی'' کی عدم تعمیل پر قتل ہو رہے ہیں۔ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ البتہ اگر کبھی کبھار 12 کے بجائے چھ افراد قتل ہوتے ہیں جو سنتا ہے اس کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوبارہ تصدیق کرتا ہے کہ کیا وہ صحیح سن رہا ہے؟
دوسری طرف جب مارکیٹوں میں اچانک تڑتڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے تو بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ بھاگنے والوں میں سب سے آگے عوام کے مسلح محافظ ہوتے ہیں اور سب سے پیچھے نہتے بزرگ، بچے اور عورتیں ہوتی ہیں۔ میرے عزیز منا بھائیو! تم ہی بتاؤ، پاکستان میں 65 سال کے درمیان کیا کبھی ایسا ہوا؟
B۔پرویز مشرف نے T.V پر اپنی وداعی تقریر میں اپنی حکومت اور آنے والی حکومت کا موازنہ کرنے کے لیے دو اہم نکات بیان کیے تھے۔ (1)۔ ان کے پورے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت 62-60 روپے کے درمیان رہی۔ (2)۔ وہ خزانہ میں اٹھارہ ارب ڈالر چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اس کے بعد پانچ سال کے دوران ایک لیٹر پٹرول کے ساتھ ساتھ ڈالر کی قیمت بھی سنچری کراس کر گئی۔ اب رہا زر مبادلہ کا سوال تو اہم بات یہ ہے کہ خزانہ باقی ہے، زر مبادلہ کا کیا ہے آج نہیں تو کل بھر ہی جائے گا۔ اللہ کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں۔
C۔ سانحہ عباس ٹاؤن سے حکومت کی بے حسی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعلقی کو عوام اور میڈیا نے بری طرح محسوس کیا۔ بقول افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان اس تشویشناک صورت حال اور اس کے بھیانک اثرات پر روشنی ڈال کر ایک سینئر اینکر پرسن نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب ایک اینکر ٹاؤن کے متاثرین کے تاثرات اور اپنے مشاہدات براہ راست نشر کر رہے تھے۔ ایک بچی اپنے تاثرات ریکارڈ پر لانے کے لیے بے چین تھی، جونہی اینکر نے اپنا مائیک اس کے آگے کیا اس نے چند الفاظ میں اپنی ناراضگی، نفرت، مایوسی، برہمی کا اظہار کر کے پیغام دیا کہ ''مشرف وانٹڈ'' اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا مجمع اس کی آواز میں آواز ملانے لگا۔
D۔ اگر دہشت گردی کا علاج مذمتی بیانات، ڈبل سواری پر پابندی، معقول معاوضہ (مرنے والے کو) تین روزہ سوگ اور چار روزہ دھرنا ہوتا، آج ملک میں قانون کی ایسی حکمرانی ہوتی، امن و امان کا ایسا بول بالا ہوتا کہ لوگ ملک کے اس سرے سے اس سرے تک سونا اچھالتے چلے جاتے لیکن کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ (کیونکہ وہ خود بھی سونا اچھالتا ہوا کہیں سے آ رہا ہوتا یا کہیں جا رہا ہوتا) لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کا ایک فرد بھی ایسا نہیں بچا جس کا پرس اور موبائل فون ایک سے زیادہ بار چھینا نہ گیا ہو۔ ایک خاندان بھی ایسا نہیں ہے جس کے گھر میں ایک مرتبہ ڈکیتی نہ ہوئی ہو۔
E۔ آج کراچی کی صنعت و تجارت مکمل طور پر بھتہ مافیا کے رحم و کرم پر ہے، ہر طرف بھتے کی پرچی کا راج ہے۔ پرچی کا حکم نہ ماننے کا مطلب موت ہے۔
کراچی ملک کا میٹرو پولیٹن شہر ہی نہیں بلکہ دنیا کا کاسمو پولیٹن شہر بھی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ چنانچہ اب اس شہر میں پرانے، فرسودہ، متروکہ، منقولہ کاروباری اصول کام نہیں آتے۔ اس وقت کراچی پر بھتہ مافیا کا راج ہے اور سیٹھوں پر بھتے کی ''پرچیوں'' کی حکومت!
اگر کراچی کے حالات بد سے بدترین کی طرف یوں ہی بگٹٹ گامزن رہے تو کراچی کے سیٹھوں کو لازمی اپنی حفاظت کے لیے ''بلٹ پروف'' اور کاروبار کی حفاظت کے لیے ''ٹینک شکن'' اقدامات کرنے پڑیں گے۔ تا کہ ''پرچی'' کے وار سے بچا جا سکے۔ رہائش کے لیے بالائی گزر گاہیں، آمد و رفت کے لیے زیر زمین راستے اور سواری کے لیے بکتر بند گاڑیاں مناسب رہیں گی۔ مارکیٹ کے اطراف فصیل ہر جگہ جگہ برج ہوں اور برجوں میں اینٹی ایئر کرافٹ توپیں، دکان کے آگے ریت کی بوریوں کی دیوار لازمی ہے۔ اس کے بعد اگر دکان میں بھتے کی پرچی ملی تو جو چور کی سزا وہ میری۔