جرم ِ ضعیفی کی سزا
امریکا مسلمانوں کو تنہا کر کے مار رہا ہے اور ہم ہنسی خوشی مار کھاتے جا رہے ہیں۔
پیغمبروں کا شہر بیت المقدس حضرت داؤد علیہ السلام نے جس کی بنیاد رکھی اللہ نے اس شہر میں اپنے کئی نبی بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے۔ ایک ایسا شہر جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یکساں متبرک ہے، ہم مسلمانوں کے لیے تو اس کی اہمیت اس لیے بھی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ مسلمان آنحضور ﷺ کی ہجرت کے بعد ان کی معیت میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے، یوں ہم مسلمان اسے اپنا قبلہ اول کہتے ہیں، معراج شریف پر جب تشریف لے جانے کا وقت آیا تو یہی مقام آپ ؑ کی پہلی منزل بنا، لیکن اس مقدس شہر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کئی مرتبہ جنگیں لڑی گئیں اور آج بھی ہمارے فلسطینی بھائی اس مقدس سر زمین کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ان کا دنیا کی مسلح ترین فوج کے ساتھ لڑنے کا ہتھیار پتھروں کے مختلف سائز کے ٹکڑے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔
یہ وہی شہر ہے جس کو حضرت عمر ؓ کے دور میں اسلامی فوج نے فتح کیا تو شہر کے عیسائی حکمرانوں نے مسلمان سپہ سالار سے کہا کہ وہ شہر کی کنجیاں مسلمانوں کے خلیفہ کے حوالے کریں گے، فاتح سپہ سالار نے اپنے خلیفہ کو پیغام بھجوایا۔ اپنے وقت کے عادل حکمران اور اسلامی فلاحی ریاست کے بانی حضرت عمر فاروق ؓپیغام ملنے کے بعد اونٹنی پر سوا ر بیت المقدس روانہ ہو گئے۔ دوران سفر حالت یہ تھی کہ غلام نے اونٹنی کی مہار تھام رکھی تھی اور خلیفہ اس پر سوار تھے لیکن آقا نے غلام کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ ایک مخصوص فاصلے تک آقا اور غلام باری باری سواری کریں گے، اتفاق کی بات ہے کہ جب بیت المقدس میں داخلے کا وقت آیا تو غلام اونٹنی پر سوار تھا اور خلیفہ مہار تھامے اس کے ساتھ چل رہے تھے۔
غلام نے کوشش کی کہ خلیفہ اونٹنی پر سوا ر ہوجائیں لیکن خلیفہ نے کہا کہ سفر کے لیے جو طے ہوا تھا وہی فیصلہ اس وقت بھی لاگو ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ غلام سوار ہے اور آقا مہا ر تھامے ہوئے ہے۔ جب سواری بیت المقدس میں داخل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا کہ جو اونٹنی پر سوار ہے کیا وہی خلیفہ ہے ان کو بتایا گیا کہ غلام سوار ہے اور خلیفہ مہار تھامے ساتھ پیدل چل رہا ہے عدل و انصاف اور عاجزی کے انتہا درجے کے حامل یہ وہ حکمر ان تھے جن کی مثالیں آج کے حکمرانوں کو دیتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اسی مقدس مقام کے لیے کئی جنگی معرکے ہوئے جن میں کبھی مسلمان غالب ہوئے اور کبھی مغلوب رہے لیکن اس شہر کی حرمت پر کبھی فرق نہیں آنے دیا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے حکومت سنبھالی ہے اپنے متنارعہ اقدامات سے دنیا بھر میں بھونچال برپا کیا ہوا ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا۔ پہلے تو مسلمانوں کو امریکا سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں اور بعد میں وہ چند مسلمان ملکوں کے شہریوں سے امریکا میں داخلے پر پابندی فیصلے کو لاگو کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تو ابتدا ہے انتہا نہ جانے کیا ہو گی اور اگلی باری کس کی آئے گی لیکن اس مسلمان دشمنی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی ہم مسلمانوں کو شرم نہیں آ رہی اور ہم بھاگ بھاگ کر امریکا کی خوشامدیں کرتے نہیں تھکتے۔
عرب دنیا کے امیر حکمران اپنی بے انتہا دولت کے ذخائر امریکا میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور شاید اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام نے کافروں کے ساتھ لین دین و تجارت سے منع کر رکھا ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں جب امریکا ان حکمرانوں کی دولت پر قبضہ کر لے گا اور ان کو امریکا میں داخل بھی نہیں ہونے دیا جائے گا اور ان کی امریکی سرمایہ کاری، بڑی کمپنیاں اور عمارتیں جوان کی ملکیت ہیں سب کچھ وہیں رہ جائے اگر وہ یہی سرمایہ کاری مسلمان ممالک میں کر لیں تو مسلمان ملکوں کو عالمی ساہوکاروں کے قرضوں سے نجات مل جائے۔ امریکا کی جانب سے مسلمانوں پر تازہ حملہ یروشلم میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا اعلان ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے متبرک اس شہر کو متنارعہ بنانا اور اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ یروشلم اسرائیل کے قبضہ میں اور اس کا دارلحکومت ہے۔
ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کر رہے ہیں اور یہ بھی ان کا انتخابی وعدہ تھا۔ یروشلم کا شہر دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی یکساں مقدس ہے اس شہر کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایسے بین الاقوامی شہر کا درجہ دے دینا چاہیے جس میں کسی بھی حکومت کا عمل دخل نہ ہو کیونکہ یہ منفرد اہمیت کا حامل شہر دنیا کے بڑے مذاہب کے پیروکاروں کے مقدس ترین شہر کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ کسی کے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے نہیں بسایا گیا تھا بلکہ اس مقدس شہر میں جتنے مقدس مقامات اور ہستیاں مدفون ہیں ان کی بے حرمتی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے برداشت نہیں کریں گے خواہ امریکا کچھ بھی کر لے اس متنارعہ اعلان کو دنیا کے تمام ممالک نے رد کر دیا اور صرف امریکا کا اپنا اکیلا ووٹ ہی اس کی حمایت میں کاسٹ ہوا۔
ٹرمپ کے اس بے ہودہ اعلان کے بعد مسلمان ملکوں میں شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے پاکستان سے لے کر ترکی تک اس کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تو مشرقی بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کر دیا ہے جواب الجواب کی صورتحال بن رہی ہے۔ ہٹ دھرم ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے جاری ہیں لیکن ہم مسلمانوں کی یہ بد قسمتی ہے کہ ہم ایک چھتری تلے متحد نہیں ہو سکے۔ پاکستان نے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مسلمان ممالک کی سربراہی کانفرنس کر کے ان کو متحد کرنے کی ایک کوشش کی ان کے بعد ضیاء الحق نے اسلامی دنیا میں پاکستان کو ایک سربراہ کے طور پر متعارف کرایا لیکن عرب جن کا یہ اولین مسئلہ تھا انھوں نے اس پر توجہ نہ دی۔
تاج برطانیہ نے آج سے سو سال پہلے ایک ڈکلریشن کے ذریعے اسرائیل کا شوشہ چھوڑا تھا، حقیقت میں اس وقت کی سپر پاور نے اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی اور اب سو سال بعد موجودہ سپر پاور امریکا اس صیہونی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم مسلمان نہ تو اس وقت اس کا مقابلہ کر سکے تھے اور نہ ہی آج اس قابل ہیں کہ ان عالمی طاقتوں کے بھیانک منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔ شاعر مشرق نے شاید اسی کو ذہن میں رکھ کر یہ کہا تھا کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے اَزل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
صورتحال یہ ہے کہ امریکا مسلمانوں کو تنہا کر کے مار رہا ہے اور ہم ہنسی خوشی مار کھاتے جا رہے ہیں، بلبلا رہے ہیں واویلہ کر رہے ہیں اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہماری بے کسی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک!