نقل مافیا
سندھ کے میٹرک اور انٹربورڈز میں نقل اور سفارش کی داستانیں عام ہیں۔
کراچی کے اہم ترین آرمی کالج کا سال اول اور دوئم انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ تہلکہ مچادینے والا ہے۔ میٹرک کے امتحان میں اے ون گریڈ لانے والے طلبا کی اکثریت فیل ہوگئی۔ ایسی ہی صورتحال دیگر بڑے کالجوں کی ہوئی۔ معاملہ انٹر بورڈ کے امتحانی کاپیوں کی چیکنگ تک گیا۔ ایک سینئر استاد نے بتایا کہ گزشتہ سال پولیس کی انسداد دہشت گردی کے اسکواڈ کی کارروائی سے بورڈ سے مافیا کا خاتمہ ہوا۔ تعلیمی شعبے کی خبریں دینے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ اساتذہ کو گھروں پر لے جانے کے لیے کاپیاں دی گئیں۔
ٹی وی چینل پر پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممتحن حضرات سرسری طور پر سوالات کا مطالعہ کرتے ہیں اور زیادہ توجہ کم وقت میں زیادہ کاپیوں کی جانچ پر دیتے ہیں۔ اس نظام کی بنا پر اہل طلبا مناسب نمبر حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ انٹربورڈ نے اس مسئلے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی۔ اس کمیٹی میں کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے ماہرین شامل کیے گئے ہیں۔
اس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ممتحن کی فہرستیں حاصل کی جائیں گی اور ممتحن کے ریکارڈ سے پتہ چلایا جائے گا کہ یہ حضرات کتنے عرصے سے امتحانی کاموں سے منسلک ہیں۔ پھر کمیٹی متاثرہ کالجوں کے پرنسپل صاحبان کے بیانات قلم بند کرے گی۔ کمیٹی کے اراکین متاثرہ طلبا کی مختصر تعداد سے ملاقات پر بھی غور کررہے ہیں۔ ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو صرف انٹر سائنس سال اول اور دوئم کی کاپیوں کی جانچ پڑتال تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ متاثرہ طلبا کی میٹرک کی کاپیوں کی بھی خصوصی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ تمام پہلوؤں سے جامع تحقیقات ممکن ہوسکے۔
سندھ کے میٹرک اور انٹر بورڈ بدعنوانی اور اقربا پروری کے حوالے سے بدنام ہیں، مگر معاملہ صرف انٹر بورڈ کا نہیں بلکہ سرکاری کالجوں میں تعلیم کا بھی ہے۔ سرکاری کالجوں میں وقت پر داخلے ہوتے ہی مرکزی داخلہ کمیٹی اپنی بساط کے مطابق میرٹ پر داخلے دیتی ہے۔ کراچی میں شہر کو مختلف زون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر طالب علم کا اس کی قیام گاہ کے پتہ کے مطابق داخلہ کیا جاتا ہے مگر سائنس میں اے ون نمبر لانے والے طلبا آدمجی کالج، ڈی جے سائنس کالج، سینٹ پیٹرک اور نیشنل کالج وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ طالبات پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج، خاتون پاکستان، گورنمنٹ کالج فریئر روڈ اور سرسید کالج وغیرہ کو ترجیح دیتی ہیں۔
ایک زمانے میں سینٹ جوزف کالج خواتین کے لیے شہر کا سب سے بہترین کالج سمجھا جاتا تھا مگر جب سے کالج کو نجی تحویل میں دیا گیا ہے یہ معیاری کالجوں کی فہرست میں شامل نہیں رہا۔ کالجوں میں اساتذہ کا باقاعدہ کلاسیں لینے کا معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ طلبا اور طالبات کو اساتذہ پہلے ہی ہفتے یہ بریفنگ دیتے ہیں کہ ان کے کوچنگ سینٹروں میں داخلہ لے لیں تو پھر انھیں روزانہ کالج آنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ اساتذہ اپنے کالجوں میں باقاعدگی سے حاضری لگاتے ہیں۔ اب تو ہر کالج میں بائیومیٹرک سسٹم نصب ہوچکا ہے، اساتذہ صبح اپنے انگوٹھوں کے عکس سے اپنی کالج میں موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں مگر پھر کالج میں جانے کے بجائے کوچنگ سینٹروں کا رخ کرلیتے ہیں۔ ان کوچنگ سینٹروں میں خوب رونق ہوتی ہے۔
کالجوں کے سینئر اساتذہ ہی امتحانی پرچہ مرتب دیتے ہیں۔ یہ اساتذہ طالب علموں کو ان ابواب کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں جہاں سے سوالات تیار کیے گئے ہوں۔ پھر کوچنگ سینٹر میں دیگر کالجوں کے اساتذہ بھی پریکٹیکل کرانے آتے ہیں۔ یہ اساتذہ متعلقہ کالجوں میں بھی پریکٹیکل لینے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینے والے طلبا کے پریکٹیکل میں بھی اچھے نمبر آتے ہیں۔
آدمجی کا ایک سابق طالب علم کیمسٹری کے مضمون میں اپنے جرنل کی تصدیق کے لیے کالج گیا، مگر شعبے کے سربراہ کالج میں دستیاب نہیں تھے۔ طالب علم کے پاس وقت کم تھا لہٰذا اس نے نائب قاصد سے جب سر کی آمد کے بارے میں استفسار کیا تو نائب قاصد نے کہا کہ متعلقہ کوچنگ سینٹر فیس جمع کرائیں اور فیس کی رسید جرنل کے ساتھ منسلک کرکے سر کی خدمت میں حاضر ہوجائیں تو آپ کا کام ہوجائے گا اور واقعی سر نے انتہائی مختصر وقت میں اس جرنل میں تحریر مختلف پریکٹیکل کی ریڈنگ پر نظر ڈالی اور جنرل کی تصدیق کردی۔ ڈی جے کالج سے فارغ التحصیل ایک طالب علم نے بتایا کہ اردو کے استاد نے انھیں قیمتاً نوٹس دیے اور حلف لیا کہ کسی اور طالب علم کو یہ نوٹس فراہم نہیں کریں گے۔ ایک سینئر استاد جو اس ساری صورتحال سے مایوس ہیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات عام سی بات ہیں۔
ایک اور استاد نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ والدین بھی اس پورے معاملے میں ایک اہم کردار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پبلک ٹرانسپورٹ ختم ہوگئی ہے، بسوں کی تعداد کم ہے، سی این جی جس دن بند ہوتی ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہے، بسوں، منی بسوں اور کوچز کا کرایہ بہت زیادہ ہوگیا ہے، نچلے متوسط طبقے کے خاندان رکشہ، ٹیکسی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، شہر میں امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں، اسٹریٹ کرائم کا شکار نوجوان ہوتے ہیں۔ پھر پولیس اور رینجرز والے نوجوانوں خاص طور پر موٹر سائیکل والوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا اور والدین منتظر ہوتے ہیں کہ اساتذہ انھیں کالج آنے سے منع کریں اور ان کے گھر کے قریب کوچنگ سینٹر کا راستہ دکھائیں، جہاں پڑھائی بھی باقاعدگی سے ہوتی ہے اور اچھے نمبروں کی امید بھی برقرار رہتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کی بنا پر طلبا اور والدین کالجوں میں کلاسیں نہ ہونے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرتے۔
سندھ کے میٹرک اور انٹربورڈز میں نقل اور سفارش کی داستانیں عام ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ میرٹ پر آنے والے طلبا کی فہرست نیلام ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب متوسط طبقے کے طلبا اور اے اور او لیول اور دیگر آغا خان بورڈ سے منسلک تعلیمی اداروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اب سندھ اسمبلی نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الدین یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عاصم کو اپنا تعلیمی بورڈ قائم کرنے کی اجازت دیدی ہے تاکہ مایوس طلبا کو ایک اور تعلیمی بورڈ میسر آسکے۔
کالجوں کے اساتذہ میں تنظیم سازی کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ پروفیسر رشید پٹیل، پروفیسر انیتا غلام علی، پروفیسر ہارون رشید، پروفیسر انیس زیدی اور پروفیسر حمزہ واحد بشیر نے 60 کی دہائی میں ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن قائم کی تھی۔ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اسکولوں اور کالجوں کو سرکاری تحویل میں لینے، تعلیم کو سستا کرنے اور اسکولوں اور کالجوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تاریخی جدوجہد کی تھی۔
80 کی دہائی کے آخری عشرے میں پروفیسر ریاض احسن، پروفیسر سبط حسن زیدی، الیاس سومرو وغیرہ نے سندھ کالج لیکچرار پروفیسرز ایسوسی ایشن قائم کی۔ اس ایسوسی ایشن نے اساتذہ کے بنیادی حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں اساتذہ کو ترقیاں اور دیگر مراعات ملیں۔ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن اور پھر ایس سی ایل اے کے رہنما اپنے فرائض پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، یہ رہنما باقاعدگی سے کلاسیں لیتے تھے اور اس زمانے میں غیر حاضر استاد کا تصور نہیں تھا۔ مگر ان رہنماؤں کے اداروں اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اساتذہ کی تنظیمیں مافیا میں تبدیل ہوگئیں۔
اس مافیا نے غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کو تحفظ فراہم کرنا شروع کیا۔ پروفیسر سبط حسن زیدی جو ایس پی ایل اے کے رہنما تھے، غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کرنے پر ملازمت سے محروم ہوگئے مگر اب انتظامیہ کسی استاد کے خلاف کارروائی پر غور کرتی ہے تو احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ کالج کی تدریس سے منسلک ایک سینئر استاد نے بتایا کہ گزشتہ سال پولیس کی انسداد دہشت گردی کے یونٹ نے کارروائی کی اور ان اساتذہ اور بورڈ کے عملے کی فہرست جاری کی جو نقل مافیا سے منسلک تھے تو اساتذہ کے ایک گروہ نے ہڑتال کرکے اس رپورٹ پر عملدرآمد سے روکنے کی کوشش کی۔ محکمہ تعلیم کے افسران اس صورتحال میں اپنی سرپرستی کے کردار کی بنا پر خاصے بدنام ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کوچنگ سینٹروں پر قدغن پر توجہ دینی چاہیے۔ اہم کالجوں کے اساتذہ کا تین سال بعد دیگر کالجوں میں تبادلہ لازمی ہونا چاہیے تاکہ اہل اساتذہ کی صلاحیتوں سے پسماندہ کالجوں کے طلبا فائدہ اٹھائیں اور مافیا کو مضبوط ہونے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح سندھ کے تعلیمی بورڈ کی بڑے پیمانے پر تطہیر ہونی چاہیے۔ اس طرح کے انقلابی اقدامات سے ضروری ہے کہ والدین کو اعتماد میں لیا جائے۔ وزیر تعلیم اپنے گھر اور دفتر سے نکل کر طلبا اور اساتذہ سے رابطہ قائم کریں، ان کی شکایات سنیں اور میرٹ پر فیصلے کریں۔ اگر ایک دفعہ یہ انقلابی اقدامات اٹھالیے تو پھر سڑکوں اور ذرایع ابلاغ پر تو خوب شور مچے گا مگر حکومت ثابت قدم رہی تو تعلیمی نظام بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔
ٹی وی چینل پر پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممتحن حضرات سرسری طور پر سوالات کا مطالعہ کرتے ہیں اور زیادہ توجہ کم وقت میں زیادہ کاپیوں کی جانچ پر دیتے ہیں۔ اس نظام کی بنا پر اہل طلبا مناسب نمبر حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ انٹربورڈ نے اس مسئلے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی۔ اس کمیٹی میں کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے ماہرین شامل کیے گئے ہیں۔
اس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ممتحن کی فہرستیں حاصل کی جائیں گی اور ممتحن کے ریکارڈ سے پتہ چلایا جائے گا کہ یہ حضرات کتنے عرصے سے امتحانی کاموں سے منسلک ہیں۔ پھر کمیٹی متاثرہ کالجوں کے پرنسپل صاحبان کے بیانات قلم بند کرے گی۔ کمیٹی کے اراکین متاثرہ طلبا کی مختصر تعداد سے ملاقات پر بھی غور کررہے ہیں۔ ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو صرف انٹر سائنس سال اول اور دوئم کی کاپیوں کی جانچ پڑتال تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ متاثرہ طلبا کی میٹرک کی کاپیوں کی بھی خصوصی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ تمام پہلوؤں سے جامع تحقیقات ممکن ہوسکے۔
سندھ کے میٹرک اور انٹر بورڈ بدعنوانی اور اقربا پروری کے حوالے سے بدنام ہیں، مگر معاملہ صرف انٹر بورڈ کا نہیں بلکہ سرکاری کالجوں میں تعلیم کا بھی ہے۔ سرکاری کالجوں میں وقت پر داخلے ہوتے ہی مرکزی داخلہ کمیٹی اپنی بساط کے مطابق میرٹ پر داخلے دیتی ہے۔ کراچی میں شہر کو مختلف زون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر طالب علم کا اس کی قیام گاہ کے پتہ کے مطابق داخلہ کیا جاتا ہے مگر سائنس میں اے ون نمبر لانے والے طلبا آدمجی کالج، ڈی جے سائنس کالج، سینٹ پیٹرک اور نیشنل کالج وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ طالبات پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج، خاتون پاکستان، گورنمنٹ کالج فریئر روڈ اور سرسید کالج وغیرہ کو ترجیح دیتی ہیں۔
ایک زمانے میں سینٹ جوزف کالج خواتین کے لیے شہر کا سب سے بہترین کالج سمجھا جاتا تھا مگر جب سے کالج کو نجی تحویل میں دیا گیا ہے یہ معیاری کالجوں کی فہرست میں شامل نہیں رہا۔ کالجوں میں اساتذہ کا باقاعدہ کلاسیں لینے کا معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ طلبا اور طالبات کو اساتذہ پہلے ہی ہفتے یہ بریفنگ دیتے ہیں کہ ان کے کوچنگ سینٹروں میں داخلہ لے لیں تو پھر انھیں روزانہ کالج آنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ اساتذہ اپنے کالجوں میں باقاعدگی سے حاضری لگاتے ہیں۔ اب تو ہر کالج میں بائیومیٹرک سسٹم نصب ہوچکا ہے، اساتذہ صبح اپنے انگوٹھوں کے عکس سے اپنی کالج میں موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں مگر پھر کالج میں جانے کے بجائے کوچنگ سینٹروں کا رخ کرلیتے ہیں۔ ان کوچنگ سینٹروں میں خوب رونق ہوتی ہے۔
کالجوں کے سینئر اساتذہ ہی امتحانی پرچہ مرتب دیتے ہیں۔ یہ اساتذہ طالب علموں کو ان ابواب کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں جہاں سے سوالات تیار کیے گئے ہوں۔ پھر کوچنگ سینٹر میں دیگر کالجوں کے اساتذہ بھی پریکٹیکل کرانے آتے ہیں۔ یہ اساتذہ متعلقہ کالجوں میں بھی پریکٹیکل لینے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینے والے طلبا کے پریکٹیکل میں بھی اچھے نمبر آتے ہیں۔
آدمجی کا ایک سابق طالب علم کیمسٹری کے مضمون میں اپنے جرنل کی تصدیق کے لیے کالج گیا، مگر شعبے کے سربراہ کالج میں دستیاب نہیں تھے۔ طالب علم کے پاس وقت کم تھا لہٰذا اس نے نائب قاصد سے جب سر کی آمد کے بارے میں استفسار کیا تو نائب قاصد نے کہا کہ متعلقہ کوچنگ سینٹر فیس جمع کرائیں اور فیس کی رسید جرنل کے ساتھ منسلک کرکے سر کی خدمت میں حاضر ہوجائیں تو آپ کا کام ہوجائے گا اور واقعی سر نے انتہائی مختصر وقت میں اس جرنل میں تحریر مختلف پریکٹیکل کی ریڈنگ پر نظر ڈالی اور جنرل کی تصدیق کردی۔ ڈی جے کالج سے فارغ التحصیل ایک طالب علم نے بتایا کہ اردو کے استاد نے انھیں قیمتاً نوٹس دیے اور حلف لیا کہ کسی اور طالب علم کو یہ نوٹس فراہم نہیں کریں گے۔ ایک سینئر استاد جو اس ساری صورتحال سے مایوس ہیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات عام سی بات ہیں۔
ایک اور استاد نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ والدین بھی اس پورے معاملے میں ایک اہم کردار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پبلک ٹرانسپورٹ ختم ہوگئی ہے، بسوں کی تعداد کم ہے، سی این جی جس دن بند ہوتی ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہے، بسوں، منی بسوں اور کوچز کا کرایہ بہت زیادہ ہوگیا ہے، نچلے متوسط طبقے کے خاندان رکشہ، ٹیکسی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، شہر میں امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں، اسٹریٹ کرائم کا شکار نوجوان ہوتے ہیں۔ پھر پولیس اور رینجرز والے نوجوانوں خاص طور پر موٹر سائیکل والوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا اور والدین منتظر ہوتے ہیں کہ اساتذہ انھیں کالج آنے سے منع کریں اور ان کے گھر کے قریب کوچنگ سینٹر کا راستہ دکھائیں، جہاں پڑھائی بھی باقاعدگی سے ہوتی ہے اور اچھے نمبروں کی امید بھی برقرار رہتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کی بنا پر طلبا اور والدین کالجوں میں کلاسیں نہ ہونے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرتے۔
سندھ کے میٹرک اور انٹربورڈز میں نقل اور سفارش کی داستانیں عام ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ میرٹ پر آنے والے طلبا کی فہرست نیلام ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب متوسط طبقے کے طلبا اور اے اور او لیول اور دیگر آغا خان بورڈ سے منسلک تعلیمی اداروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اب سندھ اسمبلی نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الدین یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عاصم کو اپنا تعلیمی بورڈ قائم کرنے کی اجازت دیدی ہے تاکہ مایوس طلبا کو ایک اور تعلیمی بورڈ میسر آسکے۔
کالجوں کے اساتذہ میں تنظیم سازی کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ پروفیسر رشید پٹیل، پروفیسر انیتا غلام علی، پروفیسر ہارون رشید، پروفیسر انیس زیدی اور پروفیسر حمزہ واحد بشیر نے 60 کی دہائی میں ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن قائم کی تھی۔ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اسکولوں اور کالجوں کو سرکاری تحویل میں لینے، تعلیم کو سستا کرنے اور اسکولوں اور کالجوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تاریخی جدوجہد کی تھی۔
80 کی دہائی کے آخری عشرے میں پروفیسر ریاض احسن، پروفیسر سبط حسن زیدی، الیاس سومرو وغیرہ نے سندھ کالج لیکچرار پروفیسرز ایسوسی ایشن قائم کی۔ اس ایسوسی ایشن نے اساتذہ کے بنیادی حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں اساتذہ کو ترقیاں اور دیگر مراعات ملیں۔ ویسٹ پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن اور پھر ایس سی ایل اے کے رہنما اپنے فرائض پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، یہ رہنما باقاعدگی سے کلاسیں لیتے تھے اور اس زمانے میں غیر حاضر استاد کا تصور نہیں تھا۔ مگر ان رہنماؤں کے اداروں اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اساتذہ کی تنظیمیں مافیا میں تبدیل ہوگئیں۔
اس مافیا نے غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کو تحفظ فراہم کرنا شروع کیا۔ پروفیسر سبط حسن زیدی جو ایس پی ایل اے کے رہنما تھے، غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کرنے پر ملازمت سے محروم ہوگئے مگر اب انتظامیہ کسی استاد کے خلاف کارروائی پر غور کرتی ہے تو احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ کالج کی تدریس سے منسلک ایک سینئر استاد نے بتایا کہ گزشتہ سال پولیس کی انسداد دہشت گردی کے یونٹ نے کارروائی کی اور ان اساتذہ اور بورڈ کے عملے کی فہرست جاری کی جو نقل مافیا سے منسلک تھے تو اساتذہ کے ایک گروہ نے ہڑتال کرکے اس رپورٹ پر عملدرآمد سے روکنے کی کوشش کی۔ محکمہ تعلیم کے افسران اس صورتحال میں اپنی سرپرستی کے کردار کی بنا پر خاصے بدنام ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کوچنگ سینٹروں پر قدغن پر توجہ دینی چاہیے۔ اہم کالجوں کے اساتذہ کا تین سال بعد دیگر کالجوں میں تبادلہ لازمی ہونا چاہیے تاکہ اہل اساتذہ کی صلاحیتوں سے پسماندہ کالجوں کے طلبا فائدہ اٹھائیں اور مافیا کو مضبوط ہونے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح سندھ کے تعلیمی بورڈ کی بڑے پیمانے پر تطہیر ہونی چاہیے۔ اس طرح کے انقلابی اقدامات سے ضروری ہے کہ والدین کو اعتماد میں لیا جائے۔ وزیر تعلیم اپنے گھر اور دفتر سے نکل کر طلبا اور اساتذہ سے رابطہ قائم کریں، ان کی شکایات سنیں اور میرٹ پر فیصلے کریں۔ اگر ایک دفعہ یہ انقلابی اقدامات اٹھالیے تو پھر سڑکوں اور ذرایع ابلاغ پر تو خوب شور مچے گا مگر حکومت ثابت قدم رہی تو تعلیمی نظام بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔