اب شہباز شریف نشانہ ہوں گے

جو میدان عمران خان کے لیے مکمل خالی دکھائی دیتا تھا وہ شہبازشریف کی اس منصب کے لیے نامزدگی سے اب خالی نہیں رہا۔

mnoorani08@gmail.com

یہ کہنا غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اور کامیابی میں جتنا کردار میاں نواز شریف کا ہے، تقریباً اتنا ہی شہباز شریف کا بھی ہے۔ شہباز شریف نے اگر اپنے صوبے پنجاب میں اتنے ترقیاتی کام نہ کیے ہوتے یا وہ بھی دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی طرح بس زبانی کلامی دعوے اور وعدے کرتے تو مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف شاید اس سطح پر نہ ہوتا کہ اس کے مخالف اس قدر خوفزدہ اور پریشاں دکھائی دے رہے ہوتے۔ ویسے بھی دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر حکمراں پارٹی خواہ کچھ بھی کرلے لیکن اس کے لیے اگلا الیکشن جیت جانا کوئی آسان نہیں ہوتا۔

حکمراں جماعت کے پاس عوام میں جانے کے لیے اپنی کارکردگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سبز باغ دکھانے یا محض بڑے بڑے دعوے کرنے سے وہ عوام کا دوبارہ اعتماد ہرگز حاصل نہیں کرسکتی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ گزشتہ انتخابات میں یہی ہوا۔ اسے خوش قسمتی سے حکمرانی کرنے کے لیے گرچہ پورے پانچ سال نصیب ہوئے لیکن وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ نہ کرسکی، بس اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مصالحت اور مفاہمت کی سیاست کرتی رہی۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے تو ضرور لیے لیکن ملک بھر میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہیں کرپائی۔

ہاں البتہ مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کے ریکارڈ ضرور بناتی رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نہ صرف 2013ء کا الیکشن ہار گئی، بلکہ اب 2018ء کا الیکشن بھی جیت جانا ایک ناممکن ٹاسک لگتا ہے۔ اسے سندھ کے عوام نے بھٹو شہید کے نام پر گرچہ ایک بار پھر حکمرانی کا موقع ضرور دیا لیکن وہ یہاں بھی اپنے روایتی طرز عمل سے باز نہ آئی۔ یہ جانتے بوجھتے اور کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کہ پنجاب اور کے پی کے مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں اس نے اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہ کیا۔ نہ کوئی بڑا منصوبہ بنایا اور نہ کوئی عام چھوٹا سا مسئلہ حل کیا۔ شہروں اور دیہاتوں کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید ابتر ہوتی گئی۔

موجودہ سیاسی منظرنامے میں جہاں ایک طرف حکمراں جماعت کے وزیراعظم ہی کو عدلیہ نے نااہل قرار دے دیا ہو اور دوسری بڑی سیاسی جماعت اپنی کرپشن کی وجہ سے عوام کی تائید و حمایت سے محروم ہوچکی ہو وہاں پاکستان تحریک انصاف کے لیے اگلا الیکشن جیت جانا یقیناً بہت آسان ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کے لیے اگر اب کوئی مشکل درپیش ہے تو وہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وہ پانچ سالہ کارکردگی ہی ہے جس کا مقابلہ کرنے میں اسے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

گرچہ پی ٹی آئی کو بلا کسی کوشش اور سعی کے مفت ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ اضافی منطق اور دلیل کا سہارا بھی حاصل ہے کہ چونکہ اسے وفاقی سطح پر ابھی تک ماضی میں ایک بار بھی آزمایا نہیں گیا، عوام کی ایک بڑا تعداد اسی حوالے سے اسے ایک بار ضرور موقع دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کے نامہ اعمال میں صرف اور صرف شہباز شریف کے کارنامے اور ترقیاتی منصوبے ہی ہیں۔


اگلے منتخب وزیراعظم کے لیے نواز شریف کے منظرنامے سے ہٹ جانے کے بعد جو میدان عمران خان کے لیے مکمل خالی دکھائی دیتا تھا وہ شہبازشریف کی اس منصب کے لیے نامزدگی سے اب خالی نہیں رہا، بلکہ اب یہ ان کے لیے شاید مزید کٹھن اور مشکل ہوگیا ہے۔ لہذا ان کی اب بھرپور کوشش یہی ہے کہ کسی طرح شہباز شریف کو بھی کسی طرح متوقع الیکشن لڑنے سے روکا جائے۔ حدیبیہ کیس کے کھل جانے سے اس ضمن میں جو امید بر آئی تھی عدلیہ کے ایک اور فیصلے سے وہ امید بھی اب خاک میں مل گئی ہے۔ اسی لیے وہ کسی نہ کسی طرح اسے دوبارہ کھلوانے کے لیے اپنی آخری کوشش کے طور پر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دینا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب وہ علامہ طاہرالقادری کو بھی ماڈل ٹاؤن کیس میں باقر نجفی کی رپورٹ کے حوالے سے سرگرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہیں کہ شاید اس طرح پینجاب میںہنگامہ اور فساد برپا کرکے اپنے ارادوں کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی اس رکاوٹ کو دور کیا جاسکے۔ نواز شریف کی جانب سے شہباز شریف کو اگلے وزیراعظم کی نامزدگی نے جہاں ایک طرف مسلم لیگ کے مخالفوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، وہاں خود اپنی پارٹی کو بھی ٹوٹنے سے بچالیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مخالف جو کل تک یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ نواز شریف کو خود اپنے بھائی پر اعتماد نہیں ہے۔

اسی لیے وہ انھیں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد نہیں کرنا چاہتے۔ اس حوالے سے وہ دونوں بھائیوں میں نفرت اور چپقلش پیدا کرکے اور شہباز شریف کو اشتعال دلاکر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے، اب اسی شہباز شریف کو اپنی ہرزہ سرائی اور تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کرپشن اور مالی بدعنوانی کے مبینہ الزامات ثابت کرنے کے لیے انھیں ثبوتوں کی ضرورت ہوسکتی ہے، لیکن ماڈل ٹاؤن کیس کو بنیاد بناکر اور دھرنوں کے ماہر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ذریعے انارکی اور فساد برپا کرنے کے لیے انھیں صرف کنٹینر پر ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، جو وہ بلاتامل اور باآسانی کرسکتے ہیں۔

شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات تو وہ اپنی تقریروں میں لگاتے رہے ہیں لیکن اب تک ایک پیسے کی بھی بدعنوانی ثابت نہیں کرپائے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میٹرو بس منصوبے پر ہونے والی لاگت پر وہ بے شمار سوالات اٹھاتے رہے لیکن خود اپنے صوبے میں بننے والی میٹرو بس سروس کی لاگت کو وہ قابو میں نہ رکھ سکے۔ اسی طرح جس چینی کمپنی کی جانب سے بدعنوانی کے الزامات کو لے کر وہ شہباز شریف کو بدنام کرتے رہے آج اسی کمپنی کو اس کے اپنے ملک نے بلیک لسٹ کردیا ہے۔ پاناما کیس میں (سپریم کورٹ کے 20 اپریل والے فیصلے کے بعد) انھوں نے چپ رہنے کے لیے شہباز شریف پر دس ارب رشوت پیش کرنے کا جو الزام لگایا تھا اسے وہ خود نہ صرف ابھی تک ثابت نہ کرسکے بلکہ شہباز شریف کی جانب سے جواباً ہرجانے کے مقدمہ میں حاضری سے بھی مسلسل راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اس ملک کا اگلا وزیراعظم بننے کی راہ میں خان صاحب کو اگر کوئی سب سے بڑی مشکل حائل ہے تو وہ صرف شہباز شریف ہی ہیں، جن کی اعلیٰ کارکردگی کی تاب وہ تو کیا کوئی اور بھی نہیں لاسکتا۔ یہ شہباز شریف ہی کے کارناموں کا صلہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) آج تک سب سے بڑی مقبول و معروف جماعت کے طور پر قائم ودائم ہے اور اسی بنا پر اسے توڑنے کی تمام تر کوششیں اب تک رائیگاں گئی ہیں۔

وہ نہ صر ف پی ٹی آئی کے ارمانوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کا روپ دھارے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حسرتوں کو بھی ناکام بنائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ ان دونوں جماعتوں کی تنقید کا واحد نشانہ اور ہدف بنے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ شہباز شریف کے ہوتے ہوئے انھیں صوبہ پنجاب میں کامیابی ہرگز نہیں مل سکتی۔ سیاسی طور پر وہ ان کا مقابلہ کسی صورت نہیں کرسکتے ہیں، اسی لیے وہ انھیں ہر حال میں نواز شریف کی طرح کم از کم اگلے انتخابات تک کے لیے عدلیہ سے نااہل کروانا چاہتے ہیں، بصورت دیگر شورش برپا کرکے سارا نظام ہی اتھل پتھل کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ طاہرالقادری کی جانب سے دی گئی 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن ان کے انھی درپردہ عزائم کا پتہ دیتی ہے۔
Load Next Story