ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اسموگ کے تدارک کیلیے سائنسی تحقیقی منصوبے پر کام شروع کر دیا
وفاقی ایچ ای سی نے ملک بھر کی جامعات میں پروفیسرز سے منصوبے پر کام کرنے کیلیے ’’ریسرچ پروپوزلز‘‘ طلب کر لیے۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے ملک کے مختلف شہروں کی فضا میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی دھند (اسموگ) اور دھوئیں کے پھیلنے کے معاملے کی وجوہ تلاش کرنے اور اس کے سدباب کے لیے سائنسی ریسرچ پر مشتمل منصوبے کا آغاز کر دیا ہے جب کہ اس منصوبے کو''winter smog solution''(سردیوں میں دھند کا حل) کا نام دیا ہے۔
وفاقی ایچ ای سی نے ملک بھر کی جامعات میں تدریسی شعبوں سے وابستہ متعلقہ پروفیسرز سے منصوبے پر کام کرنے کیلیے ''ریسرچ پروپوزلز'' طلب کر لیے ہیں، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کے محکمہ انوائرمینٹل پروٹیکشن کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ملک کے مختلف حصوں اور خصوصاً پنجاب کے کچھ علاقوں میں خلا میں دھند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حد نگاہ ختم ہو گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی جبکہ صبح کے وقت گھروں سے باہر آنے والوں کو سانس کی تکلیف کی شکایات بھی بڑھ رہی تھی۔
ماہرین کی رائے تھی کہ اگر اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ ملکی زراعت اور مویشی کو بھی متاثر کر سکتا ہے جس سے براہ راست معیشت متاثر ہوگی۔ ماہرین کی جانب سے اس سلسلے میں مختلف وجوہ بیان کی جا رہی تھیں جن میں پڑوسی ملک بھارت سے کوئلے کے پاور پلانٹ سے دھوئیں کے اخراج جبکہ کچھ اسے مشرق وسطیٰ سے مٹی کے طوفان کی منتقلی قرار دے رہے تھے۔
ادھر ایچ ای سی کی جانب سے اس سلسلے میں متعلقہ شعبے کے اساتذہ سے مانگے گئے ریسرچ پرپوزلزکے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ریسرچ کے آغاز کے لیے ان کی جانب سے آنے والی سفارشات ''اسموگ'' کے اثرات اور اس کی تخفیف کے لیے منصوبہ بندی پر مشتمل ہو جبکہ سفارشات میں مسئلے کا ٹیکنالوجیکل حل شامل ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ایچ ای سی کی جانب سے دھند کے خاتمے یا اس مسئلے کے حل کے لیے منتخب کیے گئے ریسرچ پروپوزل کو باقاعدہ ریسرچ گرانٹ بھی مہیا کی جائے گی۔
چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر مختار احمد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ سردیوں کے حالیہ موسم کے آغاز میں ہی ملک کے مختلف علاقوں میں رات گئے سے صبح تک جس طرح دھند کا سامنا تھا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایچ ای سی نے ایک ریسرچ بیس اسٹڈی کا فیصلہ کیا ہے، ایچ ای سی کے پاس اس حوالے سے باقاعدہ فنڈز موجود ہیں تاہم محققین سے ریسرچ پروپوزلز مانگے گئے ہیں اورمنتخب پروپوزل کے بعد تحقیق کے آغاز میں پاکستان میں اسموگ کی وجوہ، ماحول پر اس کے طبی و دیگر اثرات اور اس کے تدارک پر زور دیا جائے گا تاکہ جلد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی پر عمل کیا جا سکے۔
وفاقی ایچ ای سی نے ملک بھر کی جامعات میں تدریسی شعبوں سے وابستہ متعلقہ پروفیسرز سے منصوبے پر کام کرنے کیلیے ''ریسرچ پروپوزلز'' طلب کر لیے ہیں، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کے محکمہ انوائرمینٹل پروٹیکشن کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ملک کے مختلف حصوں اور خصوصاً پنجاب کے کچھ علاقوں میں خلا میں دھند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حد نگاہ ختم ہو گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی جبکہ صبح کے وقت گھروں سے باہر آنے والوں کو سانس کی تکلیف کی شکایات بھی بڑھ رہی تھی۔
ماہرین کی رائے تھی کہ اگر اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ ملکی زراعت اور مویشی کو بھی متاثر کر سکتا ہے جس سے براہ راست معیشت متاثر ہوگی۔ ماہرین کی جانب سے اس سلسلے میں مختلف وجوہ بیان کی جا رہی تھیں جن میں پڑوسی ملک بھارت سے کوئلے کے پاور پلانٹ سے دھوئیں کے اخراج جبکہ کچھ اسے مشرق وسطیٰ سے مٹی کے طوفان کی منتقلی قرار دے رہے تھے۔
ادھر ایچ ای سی کی جانب سے اس سلسلے میں متعلقہ شعبے کے اساتذہ سے مانگے گئے ریسرچ پرپوزلزکے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ریسرچ کے آغاز کے لیے ان کی جانب سے آنے والی سفارشات ''اسموگ'' کے اثرات اور اس کی تخفیف کے لیے منصوبہ بندی پر مشتمل ہو جبکہ سفارشات میں مسئلے کا ٹیکنالوجیکل حل شامل ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ایچ ای سی کی جانب سے دھند کے خاتمے یا اس مسئلے کے حل کے لیے منتخب کیے گئے ریسرچ پروپوزل کو باقاعدہ ریسرچ گرانٹ بھی مہیا کی جائے گی۔
چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر مختار احمد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ سردیوں کے حالیہ موسم کے آغاز میں ہی ملک کے مختلف علاقوں میں رات گئے سے صبح تک جس طرح دھند کا سامنا تھا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایچ ای سی نے ایک ریسرچ بیس اسٹڈی کا فیصلہ کیا ہے، ایچ ای سی کے پاس اس حوالے سے باقاعدہ فنڈز موجود ہیں تاہم محققین سے ریسرچ پروپوزلز مانگے گئے ہیں اورمنتخب پروپوزل کے بعد تحقیق کے آغاز میں پاکستان میں اسموگ کی وجوہ، ماحول پر اس کے طبی و دیگر اثرات اور اس کے تدارک پر زور دیا جائے گا تاکہ جلد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی پر عمل کیا جا سکے۔