آمد روانگی اور پاکستانی جمہوریت

یوں لگتا ہے جیسے کوئی غیر مرئی طاقت اس ملک کو اپنے انداز میں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا واحد مقصد طاقت کا حصول ہے۔


محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ڈور ہلانے والے ہاتھ کوئی اور ہیں۔ تصویر: انٹرنیٹ

اگر آپ کو ایئرپورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا تو آپ نے ایک بات دیکھی ہوگی کہ ایئرپورٹ پر عموماً دو مختلف راستے بنے ہوتے ہیں، ایک راستے کو آمد یعنی آرائیول اور دوسرے کو روانگی یعنی ڈیپارچر کہا جاتا ہے۔ یہ وہ راستے ہوتے ہیں جن کو استعمال کرکے مسافر اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔

آج کل پاکستان کی سیاست میں آپ کو بالکل ایسے ہی دو راستے نظر آئیں گے۔ محسوس یوں ہو رہا ہے جیسے کوئی غیر مرئی طاقت ان دونوں راستوں کو استعمال کرکے اس ملک کو اپنے انداز میں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں آمد کبھی دھرنے کے ذریعے، کبھی کنٹینر کے ذریعے، کبھی ٹیلی فونک خطاب کے ذریعے اور کبھی سیاست میں مذہب کو استعمال کرکے کی جاتی ہے۔ مگر جو بات انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ کہ آپ کی آمد کسی بھی ذریعے سے ہو یا آپ کی آمد کروائی جائے، مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ آمد کے بعد جس منزل کی جانب روانہ ہونا ہے وہ طاقت کاحصول ہے؛ چاہے وہ جمہوریت کے ذریعے ہو یا مارشل لاء کے ذریعے۔

آج کل جس طبقے، جس سوچ اور جس ذہن کی آمد پاکستانی سیاست میں نظر آرہی ہے وہ ہے درگاہوں کی سیاست، خانقاہوں، درباروں اور پیروں مریدوں کی سیاست۔ ایک عام معصوم شخص کےذہن کو استعمال کرکے اسے اتنا ماؤف کردینا کہ وہ یہ سوچنے سمجھنے سے عاری ہو جائے کہ وہ جو کر رہا ہے یا اس سے کروایا جا رہا ہے وہ اس کے بس میں نہیں؛ چاہے وہ اسلام کے نام پر گالی دے یا اسلام کے نام پر بلیک میل ہوکر اپنی کرسی سے مستعفی ہوجائے۔ ایک ایسا ذہن بھی اس ملک میں پروان چڑھ رہا ہے جو لوگوں کو طالبان اور داعش کی طرح مارنے یا استعمال کرنے سے پہلے اس شخص سے اس بات کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، اور اس کےلیے وہ بہت زور دے کر کہتے ہیں کہ ''پہلے پہلا کلمہ پڑھو اور ا س بات کا اقرار کرو کہ تم پکے اور سچے مسلمان ہوں۔'' پاکستانی سیاست میں اس ذہن کی آمد بہت خطرناک ہے۔

اگر اس ملک میں لوگوں کے ذہن ایسے ہوگئے تو پھر ایک دن آئے گا کہ حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جو بھی حکومت برسرِاقتدار آئے گی اس کو روانگی کےلیے پھر کسی ایمرجنسی ایگزٹ کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اور اگر کسی دن کسی حکومت کو ایمرجنسی ایگزٹ کا استعمال کرنا پڑا تو پھر اس کو روانگی کی قیمت جلاوطنی کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ ہمیں لوگوں کے ذہنوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اس روش کو بھی بدلنا ضروری ہے کہ جس میں ہم سامنے والے کی بات اور اس کے وجود کو برداشت کرسکیں۔ ہماری اسلامی اقدار بھی اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتیں کہ ہم زبردستی فیصلہ کریں کہ کس کو آنا ہے اور کس کو جانا ہے۔

دوسری جانب ہمارے سیاستدان لوگوں کے ووٹ لے کر ایوان میں بہت دھوم دھام سے آتے ہیں، پھر ان کی روانگی کا اعلان واک آؤٹ کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی بات سنی جائے تو بہت اچھا، اور اگر کسی وجہ سے نہ سنی جائے تو پھر ایوان میں جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے اس سے بہتر ہے کہ آپ اگلی منزل کی جانب روانہ ہوجائیں۔

اس طرح کی آمد اور روانگی کو روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستانی سیاست آج کل جن مشکلات سے دوچار ہے ان مشکلات سے نجات کا طریقہ یہی ہے کہ تمام ادارے اور وہ تمام لوگ جو اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو استعمال کرکے اس ملک کی سیاست کا دھارا تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کو بھی ایک بار پھر اپنی سوچ کے زاویے کو بدلنا ہوگا۔ کیونکہ آمد اور روانگی سے زیادہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ ہے پاکستان کی معیشت۔ اور اس معیشت کو اگر بار بار لینڈنگ یا ٹیک آف کی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا براہِ راست اثر ایک عام اور غریب پاکستانی کی جیب پر پڑے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں