مسجد اقصیٰ اور ہماری غفلت
ٹرمپ جانتے ہیں کہ اب کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں، نہ ہی موجودہ مسلم حکمران اس قابل ہیں کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔
قبلہ اول مسجد اقصیٰ، خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے بعد مسلمانوں کےلیے تیسری مقدس ترین جگہ ہے اور احادیث کے مطابق ان تینوں مساجد کےلیے سفر کرنا باعث برکت ہے۔ اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔
سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس کے علاوہ حضرت محمدﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرم سے یہاں تشریف لائے اور براق کے ذریعے یہاں سے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورۃ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم نے اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے، یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔'' ( اردو ترجمہ سورۃ الاسراء، آیت نمبر 6)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: ''میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'مسجد حرام' (بیت اللہ)، تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا 'مسجد اقصی،' میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس برس، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔'' (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3366؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 520)
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جمالیا۔
21 اگست 1969ء میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرق کی جانب عین قبلہ کی طرف بڑا حصہ منہدم ہوگیا، محراب میں موجود منبر بھی نذرآتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے بعد نصب کیا تھا۔ یقیناً آپ کو صلاح الدین ایوبی کا یہ کارنامہ ضرور یاد ہوگا کہ انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کےلیے تقریباً 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اپنے ساتھ منبر رکھتے تھے کہ بیت المقدس کی فتح ہونے پر یہ منبر مسجد میں نصب کریں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں دشمنان اسلام بیت المقدس کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش کرتے نظر آئے جس کی زندہ مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ اب کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں اور نہ ہی موجودہ مسلم حکمران اس قابل ہیں کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔ وہ کسی حد تک درست بھی ہیں کیونکہ انہیں جیسے ہی محسوس ہوا کہ عالمی سیاست پر امریکی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے، تو انہوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ دنیا کو اپنی نئی مہم جوئی کا شکار کرکے سیاسی و مذہبی میدانوں میں کھلبلی مچائی جائے تاکہ وہ عالمی سیاست پر اپنی گرفت کا اندازہ لگاسکیں کہ آیا عالمی سطح پر اب بھی امریکی گرفت ہے یا وہ اسے کھوچکے ہیں؛ اور یوں امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے سپرد کرنے کا اعلان کیا جس سے نہ صرف فلسطینی علاقوں پر صہیونی قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کو انتہائی مشکل بنادیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی شاطر انسان ہیں۔ ان کا پہلا ہدف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بنانا تھا اور یوں انہوں نے پہلے سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے جو ہمیشہ امریکی مذموم عزائم کے خلاف بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا تھا، ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملا کر انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ جب امریکہ کو اندازہ ہوگیا کہ کم و بیش تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی طرح مسائل کی دلدل میں پھنس چکے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور زہر اگلنے میں مصروف ہیں، اب ان سے کسی اتحاد کی امید نہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر کسی بڑے ردعمل کی توقع ہے، اور یہ لوگ اب مذمت و احتجاج کے علاوہ کسی پوزیشن میں نہیں رہے تو عین اسی وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی، اور امریکی طاقت سے باخبر کروایا۔
اللہ کرے ٹرمپ کا یہ فیصلہ اُس مسلم اتحاد کا ذریعہ بنے جس کا تقاضا یہ وقت کررہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوجائیں۔ جہاں یہ موقع ہمارے لیے کسی امتحان سے کم نہیں وہیں یہ ایک اچھا موقع بھی ہے کہ عالمی سطح پر اتحادِ امت کا پیغام دے کر ہم ثابت کردیں کہ ہماری ذاتی چپقلشیں اپنی جگہ، مگر ہم سب متحد ہیں؛ اور دنیا جان لے کہ اگر آئندہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی جانب کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کےلیے اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ ان مقدس مقامات کےلیے ہم مسلمان اپنی جان، مال اور سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس گھڑی اگر امت مسلمہ کی جانب سے اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا تو آئندہ امریکہ سمیت تمام سازشی عناصر محتاط ہوجائیں گے۔ بصورت دیگر بے ضمیری کی تصویر بنے بیٹھے رہیں گے تو مذمت اور احتجاج کے علاوہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس کے علاوہ حضرت محمدﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرم سے یہاں تشریف لائے اور براق کے ذریعے یہاں سے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورۃ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم نے اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے، یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔'' ( اردو ترجمہ سورۃ الاسراء، آیت نمبر 6)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: ''میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'مسجد حرام' (بیت اللہ)، تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا 'مسجد اقصی،' میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس برس، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔'' (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3366؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 520)
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جمالیا۔
21 اگست 1969ء میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرق کی جانب عین قبلہ کی طرف بڑا حصہ منہدم ہوگیا، محراب میں موجود منبر بھی نذرآتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے بعد نصب کیا تھا۔ یقیناً آپ کو صلاح الدین ایوبی کا یہ کارنامہ ضرور یاد ہوگا کہ انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کےلیے تقریباً 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اپنے ساتھ منبر رکھتے تھے کہ بیت المقدس کی فتح ہونے پر یہ منبر مسجد میں نصب کریں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں دشمنان اسلام بیت المقدس کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش کرتے نظر آئے جس کی زندہ مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ اب کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں اور نہ ہی موجودہ مسلم حکمران اس قابل ہیں کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔ وہ کسی حد تک درست بھی ہیں کیونکہ انہیں جیسے ہی محسوس ہوا کہ عالمی سیاست پر امریکی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے، تو انہوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ دنیا کو اپنی نئی مہم جوئی کا شکار کرکے سیاسی و مذہبی میدانوں میں کھلبلی مچائی جائے تاکہ وہ عالمی سیاست پر اپنی گرفت کا اندازہ لگاسکیں کہ آیا عالمی سطح پر اب بھی امریکی گرفت ہے یا وہ اسے کھوچکے ہیں؛ اور یوں امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے سپرد کرنے کا اعلان کیا جس سے نہ صرف فلسطینی علاقوں پر صہیونی قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کو انتہائی مشکل بنادیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی شاطر انسان ہیں۔ ان کا پہلا ہدف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بنانا تھا اور یوں انہوں نے پہلے سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے جو ہمیشہ امریکی مذموم عزائم کے خلاف بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا تھا، ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملا کر انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ جب امریکہ کو اندازہ ہوگیا کہ کم و بیش تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی طرح مسائل کی دلدل میں پھنس چکے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور زہر اگلنے میں مصروف ہیں، اب ان سے کسی اتحاد کی امید نہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر کسی بڑے ردعمل کی توقع ہے، اور یہ لوگ اب مذمت و احتجاج کے علاوہ کسی پوزیشن میں نہیں رہے تو عین اسی وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی، اور امریکی طاقت سے باخبر کروایا۔
اللہ کرے ٹرمپ کا یہ فیصلہ اُس مسلم اتحاد کا ذریعہ بنے جس کا تقاضا یہ وقت کررہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوجائیں۔ جہاں یہ موقع ہمارے لیے کسی امتحان سے کم نہیں وہیں یہ ایک اچھا موقع بھی ہے کہ عالمی سطح پر اتحادِ امت کا پیغام دے کر ہم ثابت کردیں کہ ہماری ذاتی چپقلشیں اپنی جگہ، مگر ہم سب متحد ہیں؛ اور دنیا جان لے کہ اگر آئندہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی جانب کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کےلیے اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ ان مقدس مقامات کےلیے ہم مسلمان اپنی جان، مال اور سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس گھڑی اگر امت مسلمہ کی جانب سے اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا تو آئندہ امریکہ سمیت تمام سازشی عناصر محتاط ہوجائیں گے۔ بصورت دیگر بے ضمیری کی تصویر بنے بیٹھے رہیں گے تو مذمت اور احتجاج کے علاوہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔