قائداعظم کا پاکستان
یہ بیان قائداعظم کے پاکستان کے اغوا کے مقدمے میں بطور گواہ نمبر ایک کے درج کروا رہے ہیں
اس بار قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ اور وطن عزیز کے قیام کے ستر برس مکمل ہونے کی رعایت سے کراچی آرٹس کونسل کی دسویں عالمی اردو کانفرنس میں ایک دن کا خصوصی اضافہ کر دیا گیا تھا یوں اس کا مجموعی دورانیہ پانچ دنوں پر محیط ہو گیا۔ اب اگر اس میں بیرون کراچی یا دیگر ممالک سے شرکت کرنے والے مندوبین کے آنے جانے کا صرف ایک ایک دن بھی شامل کر لیا جائے تو بات پورے ہفتے پر جا پڑتی ہے جو دنیاوی معاملات کی مصروفیات اور اس بھاگ دوڑ کے ہنگامہ میں ادب' تہذیب یا تاریخ جیسے موضوعات کے لیے نکالنا اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے کہ اب یہ مقامات فکر و نظر ہماری عمومی اور معاشرتی ترجیحات میں بہت نچلے درجوں پر جا چکے ہیں۔
لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں سامعین کی تعداد' جوش و خروش اور دلچسپی کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ صبح دس بجے سے رات گیارہ بجے تک اس خاصے بڑے ہال میں خالی کرسی خال خال ہی نظر آتی تھی اور باہر لگائی گئی کرسیوں اور ٹی وی اسکرینوں کی مدد سے براہ راست ان اجلاسوں کی کارروائی دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد بھی اتنی تھی کہ کبھی کبھی تو اطلاعات کے مطابق مرکزی دروازہ تک بند کرنا پڑ جاتا تھا اور کم و بیش یہی صورت حال مندوبین اور دیگر مقررین کی تھی کہ عام رواج سے ہٹ کر وہ اپنے اپنے متعلقہ اجلاسوں کے علاوہ بھی تقریباً سارا وقت ہال کے اندر ہی پائے گئے۔
اسی طرح شاذ ہی ایسا ہوا کہ جو نام شایع شدہ پروگرام میں درج کیے گئے تھے ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو اس پر مستزاد آرٹس کونسل کی انتظامی ٹیم اور وہ نوجوان والنٹیئر تھے جو بہت محنت اور سلیقے سے ہمہ وقت ہر کام کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور یوں خود میں نے اس بار (صرف دو مواقعے سے قطع نظر) ان پانچ دنوں میں صرف اتنا ہی کراچی دیکھا جو ایئرپورٹ' ہوٹل بیچ لگژری اور آرٹس کونسل کے درمیان پڑتا تھا۔
آمد کی پہلی رات عرفان جاوید جو اس کانفرنس میں شرکت اور کچھ احباب سے ملاقات کے لیے خاص طور پر کوئٹہ سے ڈرائیو کر کے آئے تھے بے حد محبت بھرے اصرار کے ساتھ ڈنر پر لے گئے' جہاں برادرم شکیل عادل زادہ سمیت ان کے چند ادیب اور ادب دوست احباب سے ملاقات رہی' اگلے دن صبح عزیز دوست محمد اشرف شاہین کے ساتھ کچھ وقت گزارا کہ جو ٹانگ کے فریکچر کے باعث پلاسٹر میں لپٹا اپنے زخموں کے بھرنے کا انتظار کر رہا تھا: اس تک لے جانے کی ذمے داری عزیزی مطاہر احمد نے اصرار کر کے اپنے ذمے لے لی اور خیابان راحت کی سولہ نمبر گلی کو تلاش کرنے میں اسی طرح کامیاب ہوا جیسے کولمبس ہندوستان کی تلاش کرتے کرتے امریکا پہنچا تھا۔
25دسمبر کی سہ پہر کے خصوصی سیشن کا عنوان ''قائداعظم کا پاکستان'' رکھا گیا تھا جس کی نظامت ڈاکٹر ہما بقائی نے بہت خوب صورت انداز میں کی اور ایک ایسے پروگرام کو آخر تک سنبھالے رکھا جس میں مائیک پر آنے والا ہر مقرر موضوع کو ایک سے ایک نیا موڑ دے رہا تھا۔
یہ سارا اجلاس بابائے قوم کی ذات' شخصیت' عظمت' وژن اور کردار کی پختگی کے ذکر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خواب' ضرورت' حقیقت اور تمنا کے رنگوں سے بھرا ہوا تھا اور سب سے اچھی اور متاثر کن بات یہ تھی کہ تجزیے کے رخ اور لہجے کی کاٹ کا مقصد بھی خیر' محبت اور اجتماعی ترقی کا حصول اور فروغ تھا جو فی زمانہ ہمارے معاشرے اور عمومی رویوں میں زوال پذیر نظر آتا ہے۔ مل کر بیٹھنا' بات کرنا اور نظریاتی اختلافات کو مروت' انصاف' ایمانداری' تعمیر اور اصلاح کے نقطہ نظر سے دیکھنا سمجھنا اور مل کر ان کا حل نکالنا ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس قوم اور ملک دونوں کو ایک ساتھ ڈھونڈ سکتے ہیں جو بقول شخصے کب سے ایک دوسرے کی تلاش میں ہیں۔
جعفر احمد صاحب کے مضمون کا عنوان بھی بے حد چونکا دینے والا تھا جو انھوں نے ایک ایف آئی آر کے انداز میں قلم بند کیا تھا اور وہ کچھ یوں تھا ''قائداعظم کے پاکستان کا اغوا'' انھوں نے اپنی اس مقدمہ نما رپورٹ میں حقائق کے تجزیے کے ساتھ ساتھ جس دل سوزی' تڑپ اور درد مندی سے قائداعظم کے پاکستان کے تصور اور اس کے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی تصویر کشی کی وہ دل اور دماغ دونوں کو بیک وقت جھنجھوڑنے والی تھی جس کا ایک ثبوت وہ بہت دیر تک بجنے والی تالیاں بھی تھیں جن کی بازگشت اس سیشن کے دوران اور اس کے بعد بھی فضا میں دیر تک موجود رہی۔
ان کے بعد جاوید جبار نے اپنے مخصوص خوبصورت عالمانہ اور انگریزی آمیز خطاب میں بڑے دلچسپ انداز میں اس رپورٹ کی عدالتی زبان میں ایک ''ضمنی'' درج کرائی جس میں تائید کے ساتھ ساتھ ایک عینی گواہ کے طور پر کئی ایسے پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی کیا جن میں پاکستانی قوم اور معاشرے کے اس تعمیری اور اجتماعی رویوں کا بھی بھرپور ذکر تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ قائداعظم کے پاکستان کے اغوا کی کوششیں تو کی جا رہی ہیں مگر ابھی تک ہمارے لوگوں نے اس عمل کو نہ صرف مکمل ہونے سے روکا ہوا ہے بلکہ ان شاء اللہ آیندہ بھی وہ ایسا نہ صرف یہ کہ ہونے نہیں دیں گے بلکہ اب تک کے مال مسروقہ کو برآمد کراکے متعلقہ مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دلوائیں گے۔ حارث خلیق نے بھی بہت خوب صورت اور برموقع تاریخی حوالوں کے ساتھ اس مقدمے کو آگے بڑھایا اور اپنی گفتگو کا اختتام اس جملے پر کیا کہ وہ یہ بیان قائداعظم کے پاکستان کے اغوا کے مقدمے میں بطور گواہ نمبر ایک کے درج کروا رہے ہیں۔
یہاں اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر ہما بقائی نے اپنی نظامت کے دوران قائداعظم کی اپنی اور ان کے بارے میں لکھی گئی دوسرے اکابرین کی تحریروں اور بیانات کے جو اقتباسات پیش کیے وہ بہت محنت' تحقیق اور سلیقے سے جمع اور منتخب کیے گئے تھے اور ان کا استعمال بھی انھوں نے بہت برمحل اور بامعنی انداز میں کیا۔ ہمارے دوست غازی صلاح الدین تحریر اور تقریر دونوں میدانوں کے دھنی ہیں ان کا تجزیہ بھی طنز اور درد مندی دونوں کا رنگ لیے ہوئے تھا اور ان کا اٹھایا ہوا یہ سوال بہت غور طلب تھا کہ قائداعظم جس صوبائی خود مختاری' جمہوریت' انسانی حقوق اور معاشی' مذہبی اور نظریاتی آزادی پر مبنی جس پارلیمانی نظام کی بالادستی کے حامل پاکستان کی بات کر رہے تھے کیا اب اس کی تشکیل نو دھرنوں کے ذریعے اپنی طاقت منوانے والے وہ چند نام نہاد مذہبی ٹھیکے دار کیا کریں گے جنہوں نے حکومت اور معاشرے دونوں کو آگے لگا رکھا ہے اور جن کو آج تک پوری قوم نے کبھی بھی سیاسی رہنماؤں کے طور پر ووٹ نہیں دیا؟
سینیٹ کے اسپیکر رضا ربانی اس سیشن کے آخری مقرر تھے جو بلاشبہ ایک بہت باصلاحیت' باشعور' تجربہ کار اور وژن رکھنے والے ایسے انسان ہیں جن کی ذہانت' صلاحیت اور کمٹ منٹ کی داد ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی کھلے دل سے دیتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بھی وہ عملی سیاست کے میدان میں برسرعمل ان گنتی کے چند منتخب لوگوں میں سے ہیں جو اس عزت کے صحیح معنوں میں حق دار ہیں جو کسی لیڈر کو ملنی چاہیے۔
انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے مگر مستحکم انداز میں ''قائداعظم کا پاکستان'' کے وسائل' مسائل اور مستقبل کی بات کی اور بڑے اچھے انداز میں اس بات کو آگے بڑھایا کہ قائداعظم کا پاکستان ان کے عظیم وژن کا صرف ایک خاکہ تھا جس کو تکمیل دینے اور رنگ بھرنے میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اس کی کامیابی اور ترقی ہم سب کی مشترکہ اور سانجھی ہے اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اس کی ذمے داری بھی ہم سب پر ایک جیسی عائد ہوتی ہے۔مل کر اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنے سے ہی وہ پاکستان مکمل ہو گا جو ایک زندہ حقیقت ہے جو قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور جسے دنیا کی کوئی طاقت بقول قائد undo نہیں کر سکتی۔
لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں سامعین کی تعداد' جوش و خروش اور دلچسپی کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ صبح دس بجے سے رات گیارہ بجے تک اس خاصے بڑے ہال میں خالی کرسی خال خال ہی نظر آتی تھی اور باہر لگائی گئی کرسیوں اور ٹی وی اسکرینوں کی مدد سے براہ راست ان اجلاسوں کی کارروائی دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد بھی اتنی تھی کہ کبھی کبھی تو اطلاعات کے مطابق مرکزی دروازہ تک بند کرنا پڑ جاتا تھا اور کم و بیش یہی صورت حال مندوبین اور دیگر مقررین کی تھی کہ عام رواج سے ہٹ کر وہ اپنے اپنے متعلقہ اجلاسوں کے علاوہ بھی تقریباً سارا وقت ہال کے اندر ہی پائے گئے۔
اسی طرح شاذ ہی ایسا ہوا کہ جو نام شایع شدہ پروگرام میں درج کیے گئے تھے ان میں سے کوئی غیر حاضر ہو اس پر مستزاد آرٹس کونسل کی انتظامی ٹیم اور وہ نوجوان والنٹیئر تھے جو بہت محنت اور سلیقے سے ہمہ وقت ہر کام کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور یوں خود میں نے اس بار (صرف دو مواقعے سے قطع نظر) ان پانچ دنوں میں صرف اتنا ہی کراچی دیکھا جو ایئرپورٹ' ہوٹل بیچ لگژری اور آرٹس کونسل کے درمیان پڑتا تھا۔
آمد کی پہلی رات عرفان جاوید جو اس کانفرنس میں شرکت اور کچھ احباب سے ملاقات کے لیے خاص طور پر کوئٹہ سے ڈرائیو کر کے آئے تھے بے حد محبت بھرے اصرار کے ساتھ ڈنر پر لے گئے' جہاں برادرم شکیل عادل زادہ سمیت ان کے چند ادیب اور ادب دوست احباب سے ملاقات رہی' اگلے دن صبح عزیز دوست محمد اشرف شاہین کے ساتھ کچھ وقت گزارا کہ جو ٹانگ کے فریکچر کے باعث پلاسٹر میں لپٹا اپنے زخموں کے بھرنے کا انتظار کر رہا تھا: اس تک لے جانے کی ذمے داری عزیزی مطاہر احمد نے اصرار کر کے اپنے ذمے لے لی اور خیابان راحت کی سولہ نمبر گلی کو تلاش کرنے میں اسی طرح کامیاب ہوا جیسے کولمبس ہندوستان کی تلاش کرتے کرتے امریکا پہنچا تھا۔
25دسمبر کی سہ پہر کے خصوصی سیشن کا عنوان ''قائداعظم کا پاکستان'' رکھا گیا تھا جس کی نظامت ڈاکٹر ہما بقائی نے بہت خوب صورت انداز میں کی اور ایک ایسے پروگرام کو آخر تک سنبھالے رکھا جس میں مائیک پر آنے والا ہر مقرر موضوع کو ایک سے ایک نیا موڑ دے رہا تھا۔
یہ سارا اجلاس بابائے قوم کی ذات' شخصیت' عظمت' وژن اور کردار کی پختگی کے ذکر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خواب' ضرورت' حقیقت اور تمنا کے رنگوں سے بھرا ہوا تھا اور سب سے اچھی اور متاثر کن بات یہ تھی کہ تجزیے کے رخ اور لہجے کی کاٹ کا مقصد بھی خیر' محبت اور اجتماعی ترقی کا حصول اور فروغ تھا جو فی زمانہ ہمارے معاشرے اور عمومی رویوں میں زوال پذیر نظر آتا ہے۔ مل کر بیٹھنا' بات کرنا اور نظریاتی اختلافات کو مروت' انصاف' ایمانداری' تعمیر اور اصلاح کے نقطہ نظر سے دیکھنا سمجھنا اور مل کر ان کا حل نکالنا ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس قوم اور ملک دونوں کو ایک ساتھ ڈھونڈ سکتے ہیں جو بقول شخصے کب سے ایک دوسرے کی تلاش میں ہیں۔
جعفر احمد صاحب کے مضمون کا عنوان بھی بے حد چونکا دینے والا تھا جو انھوں نے ایک ایف آئی آر کے انداز میں قلم بند کیا تھا اور وہ کچھ یوں تھا ''قائداعظم کے پاکستان کا اغوا'' انھوں نے اپنی اس مقدمہ نما رپورٹ میں حقائق کے تجزیے کے ساتھ ساتھ جس دل سوزی' تڑپ اور درد مندی سے قائداعظم کے پاکستان کے تصور اور اس کے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی تصویر کشی کی وہ دل اور دماغ دونوں کو بیک وقت جھنجھوڑنے والی تھی جس کا ایک ثبوت وہ بہت دیر تک بجنے والی تالیاں بھی تھیں جن کی بازگشت اس سیشن کے دوران اور اس کے بعد بھی فضا میں دیر تک موجود رہی۔
ان کے بعد جاوید جبار نے اپنے مخصوص خوبصورت عالمانہ اور انگریزی آمیز خطاب میں بڑے دلچسپ انداز میں اس رپورٹ کی عدالتی زبان میں ایک ''ضمنی'' درج کرائی جس میں تائید کے ساتھ ساتھ ایک عینی گواہ کے طور پر کئی ایسے پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی کیا جن میں پاکستانی قوم اور معاشرے کے اس تعمیری اور اجتماعی رویوں کا بھی بھرپور ذکر تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ قائداعظم کے پاکستان کے اغوا کی کوششیں تو کی جا رہی ہیں مگر ابھی تک ہمارے لوگوں نے اس عمل کو نہ صرف مکمل ہونے سے روکا ہوا ہے بلکہ ان شاء اللہ آیندہ بھی وہ ایسا نہ صرف یہ کہ ہونے نہیں دیں گے بلکہ اب تک کے مال مسروقہ کو برآمد کراکے متعلقہ مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دلوائیں گے۔ حارث خلیق نے بھی بہت خوب صورت اور برموقع تاریخی حوالوں کے ساتھ اس مقدمے کو آگے بڑھایا اور اپنی گفتگو کا اختتام اس جملے پر کیا کہ وہ یہ بیان قائداعظم کے پاکستان کے اغوا کے مقدمے میں بطور گواہ نمبر ایک کے درج کروا رہے ہیں۔
یہاں اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر ہما بقائی نے اپنی نظامت کے دوران قائداعظم کی اپنی اور ان کے بارے میں لکھی گئی دوسرے اکابرین کی تحریروں اور بیانات کے جو اقتباسات پیش کیے وہ بہت محنت' تحقیق اور سلیقے سے جمع اور منتخب کیے گئے تھے اور ان کا استعمال بھی انھوں نے بہت برمحل اور بامعنی انداز میں کیا۔ ہمارے دوست غازی صلاح الدین تحریر اور تقریر دونوں میدانوں کے دھنی ہیں ان کا تجزیہ بھی طنز اور درد مندی دونوں کا رنگ لیے ہوئے تھا اور ان کا اٹھایا ہوا یہ سوال بہت غور طلب تھا کہ قائداعظم جس صوبائی خود مختاری' جمہوریت' انسانی حقوق اور معاشی' مذہبی اور نظریاتی آزادی پر مبنی جس پارلیمانی نظام کی بالادستی کے حامل پاکستان کی بات کر رہے تھے کیا اب اس کی تشکیل نو دھرنوں کے ذریعے اپنی طاقت منوانے والے وہ چند نام نہاد مذہبی ٹھیکے دار کیا کریں گے جنہوں نے حکومت اور معاشرے دونوں کو آگے لگا رکھا ہے اور جن کو آج تک پوری قوم نے کبھی بھی سیاسی رہنماؤں کے طور پر ووٹ نہیں دیا؟
سینیٹ کے اسپیکر رضا ربانی اس سیشن کے آخری مقرر تھے جو بلاشبہ ایک بہت باصلاحیت' باشعور' تجربہ کار اور وژن رکھنے والے ایسے انسان ہیں جن کی ذہانت' صلاحیت اور کمٹ منٹ کی داد ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی کھلے دل سے دیتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں بھی وہ عملی سیاست کے میدان میں برسرعمل ان گنتی کے چند منتخب لوگوں میں سے ہیں جو اس عزت کے صحیح معنوں میں حق دار ہیں جو کسی لیڈر کو ملنی چاہیے۔
انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے مگر مستحکم انداز میں ''قائداعظم کا پاکستان'' کے وسائل' مسائل اور مستقبل کی بات کی اور بڑے اچھے انداز میں اس بات کو آگے بڑھایا کہ قائداعظم کا پاکستان ان کے عظیم وژن کا صرف ایک خاکہ تھا جس کو تکمیل دینے اور رنگ بھرنے میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اس کی کامیابی اور ترقی ہم سب کی مشترکہ اور سانجھی ہے اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اس کی ذمے داری بھی ہم سب پر ایک جیسی عائد ہوتی ہے۔مل کر اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنے سے ہی وہ پاکستان مکمل ہو گا جو ایک زندہ حقیقت ہے جو قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور جسے دنیا کی کوئی طاقت بقول قائد undo نہیں کر سکتی۔