گنا سستا چینی مہنگی
صوبہ سندھ میں 2012ء میں بھرتی کیے جانے والے اساتذہ 6 سال سے تنخواہ سے محروم ہیں
گنے کے بحران اور پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی، چنانچہ اس کشمکش میں سندھ میں تقریباً ایک ماہ اور پنجاب میں تقریباً پندرہ دن کی تاخیر سے کرشنگ سیزن 2017-18ء کا آغاز ہوا۔ رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے اضلاع میں گزشتہ سال وسطی پنجاب سے تین شوگر ملز منتقل کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ایکڑ پر زیادہ گنا کاشت کیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر ان ملز کی منتقلی غیر قانونی قرار پائی اور ملز کو بند کرنے کا حکم جاری ہوگیا۔
لیکن کسی نے عدالت عظمیٰ کی توجہ اس طرف مبذول نہ کرائی کہ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ پر کاشت کیا گیا یہ گنا جنوبی پنجاب کی موجودہ شوگر ملز کی کرشنگ کی گنجائش سے زیادہ ہے، جس سے گنے کے بحران میں شدت آئی ہے۔ پاکستان کسان فاؤنڈیشن نے کہا کہ چینی کی برآمدات پر سبسڈیز کے باوجود حکومتی نوٹیفکیشن کے برعکس کم قیمت پر گنا خریدا جارہا ہے، جس سے کاشتکار وں میں تشویش پائی جارہی ہے۔ انجمن کاشتکاران پنجاب نے کہا کہ کرشنگ سیزن میں تاخیر کے باعث چھوٹے کاشکار گندم کی کاشت بھی نہیں کرسکے۔ یہ تقریباً تیرہ ماہ کی فصل ہے، جس پر اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کپاس اور دھان کے کاشت کاروں کو سبسڈیز دی، لیکن گنے کے کاشتکاروں کو اس سے محروم رکھا گیا، اس سے ان کا استحصال ہوا۔
ادھر 5 ماہ سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ یہ ہیلتھ ورکرز اپنی زندگی سے کھیل کر پولیو کے قطرے پلاتی ہیں اور گھر گھر جا کر ویکسی نیشن کرتی ہیں۔ اس مہنگائی میں ان کی تنخواہ پہلے 16 ہزار روپے تھی، اب 22 ہزار روپے کردی گئی ہے، لیکن پانچ پانچ مہینوں سے انھیں تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ ان حالات سے تنگ آکر گزشتہ دنوں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے سندھ سیکریٹریٹ کے باہر شدید احتجاج کیا، انھوں نے تمام راستے بند کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سے مسلسل کام لیا جارہا ہے لیکن تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں، تنخواہیں نہ ملنے پر ان کے گھروں میں فاقے ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو احتجاج کا دائرہ بڑھا دیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے لیڈی ہیلتھ ورکرز نے وزیراعلیٰ سندھ ہاؤس پر شدید احتجاج کیا، جس کے بعد سیکریٹری صحت فضل اﷲ پیچوہو کی جانب سے تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانی پر احتجاج ملتوی کردیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سڑکوں پر آئے بغیر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ ان کی ایک رہنما نے کہا کہ ہمارا کام بہت مشکل ہے، کام کی زیادتی کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوجاتی ہے، یقین دہانی کے باوجود تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے دوران ملک بھر میں ان کے کئی ساتھیوں کو جان سے مار دیا گیا ہے، اس لیے ہمیں جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ادھر زیریں سندھ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مہینوں سے تنخواہیں نہ ملنے پر انسداد پولیو مہم کا بائیکاٹ کردیا۔ ٹنڈو الہیار میں تنخواہیں نہ ملنے پر ہیلتھ ورکرز نے دھرنا دیا۔ بعد ازاں ڈی ایچ او اور فو کل پرسن پولیو و دیگر دھرنے کے مقام پر پہنچ گئے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے انھیں بتایا کہ ہمیں پانچ ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں، ہمارے گھروں میں فاقے ہورہے ہیں۔ ڈی ایچ او کی یقین دہانی پر ورکرز نے دھرنا ختم کیا۔
ماتلی کی سو سے زیادہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو بھی پانچ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر ماتلی اسپتال سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔ ان ہی مظاہروں کے دوران ایک ہیلتھ ورکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ صوبہ سندھ میں 2012ء میں بھرتی کیے جانے والے اساتذہ 6 سال سے تنخواہ سے محروم ہیں۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے سندھ حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ تنخواہوں کی عدم فراہمی پر سرکاری اسکولوں کے خواتین و مرد اساتذہ نے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے سندھ اسمبلی بلڈنگ کی جانب مارچ کیا۔ اساتذہ نعرے لگاتے ہوئے آرٹس کونسل چوک کے قریب پہنچے، وہاں موجود پو لیس اہلکاروں نے اساتذہ پر بہیمانہ لاٹھی چارج شروع کردیا۔ مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی گئی۔
ہنگامہ آرائی کے باعث آرٹس کونسل چوک، میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے خواتین اساتذہ پر بھی وحشیانہ تشدد اور لاٹھی چارج کرنے سے مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے، انھوں نے پیپلز پارٹی کے جھنڈوں کو پیروں تلے روندا اور بعد ازاں نذر آتش کردیا۔ اساتذہ نے گو زرداری گو، اور گو بلاول گو اور حکومت سندھ کے خلاف نعرے لگائے۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ 2012ء میں ہماری بھرتیاں ہوئیں اوراب تک تنخواہیں نہیں ملیں، ہم سے الیکشن کی ڈیوٹیاں بھی لی گئیں، جب ووٹ مانگنے کا وقت آتا ہے تو حکمران اتنے اچھے بن جاتے ہیں جیسے ان سے اچھا کوئی خیرخواہ نہیں ہے، مطلب نکل جانے کے بعد وہ آنکھیں بدل لیتے ہیں۔ پولیس نے 15 خواتین سمیت 20 اساتذہ کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کردیا۔
یہ تو رہیں گنے کے کاشتکاروں، مزدوروں، لیڈی ہیلتھ ورکروں اور اساتذہ کی جدوجہد، مگر ان مسائل کا مکمل حل اشتمالی یا کمیونسٹ یا امداد باہمی کے معاشرے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ دن آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں عدالتوں میں روز بڑے بڑے فیصلے آتے ہیں، ٹاک شوز ہوتے ہیں، تقاریر اور جلسے ہوتے ہیں، مگر عوام کے ان مسائل پر کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ مگر اب وہ دن دور نہیں، جب تاج اچھالے جائیں گے، تخت گرائے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا۔