پولیٹکل انجینئرنگ سے نقصان ہو گا
80ء کی دہائی میں ضیا کی حکومت نے ایک چھوٹی سی مہاجر طلبہ تنظیم کو طاقتور سیاسی جماعت بننے میں مدد دی
ROME:
پولیٹکل انجینئرنگ ایک تازہ اصطلاح ہے۔ اس کی واضح ترین مثال ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے درمیان محض چند گھنٹے تک برقرار رہنے والا عقد ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ اس شادی کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے بعض کھلاڑیوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک ٹیلیویژن چینل پر اپنے حالیہ انٹرویو میں الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اگلی حکومت بنائے۔ مجھے چند روز قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران بتایا گیا کہ نادیدہ حکومت کے ارکان کی طرف سے بعض سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بلوں پر کس طرح ووٹ دیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حمایت ترک کر دیں۔
بد قسمتی سے پولیٹکل انجینئرنگ صرف پاکستان تک ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس بھی تواتر کے ساتھ اسے استعمال کرتی ہیں۔وہ اس احمقانہ کہاوت پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ''مقصد طریقوں کاجواز ہوتا ہے'' ۔انھیں اس بات کا بہت کم ادراک ہے کہ جو طریقے اپنی پسند کا ''مقصد'' حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں اور آگے چل کر وہ ایک اور ہولناک مقصد کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
امریکا، سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین (اب روس)کا ویت نام بنانے کے لیے جہاد کو استعمال کیا۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ ایسا کرکے وہ دہشتگرد اور انتہا پسند قوتوں کو کھلی چھٹی دے رہے ہیں اور آج یہ ممالک اس موقعے پرستانہ پالیسی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں، مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔
مگر یوں لگتا ہے کہ نام نہاد انٹیلی جنس ایجنسیاں کبھی کچھ نہیں سیکھتیں۔کیا انھوں نے لیبیا اور شام میںاسلامی دہشتگردی کے جن کو جگا کر وہی غلطی نہیںدہرائی؟
بھارت میں اندرا گاندھی کی حکومت نے خالصتان تحریک کے توڑ کے لیے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا تخلیق کیا۔ یہ عسکریت پسند لیڈر اپنے ہی خالق کے سامنے کھڑا ہوگیا، اس نے گولڈن ٹیمپل پر قبضہ کر لیا اور اندرا گاندھی کی حکومت کو آپریشن بلیو اسٹار شروع کرنے پر مجبورکر دیا۔ یہ غلط ''طریقہ'' استعمال کرنے پر انھیں اپنی جان گنوانا پڑی اور ایک مشتعل سکھ گارڈ نے انھیں قتل کر دیا۔ ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے گڑبڑکی خاطرکشمیر کے انتخابات میں پولیٹکل انجینئرنگ کی کوشش کی جس سے وادی میں تحریک آزادی کو نئی زندگی ملی اور سری لنکا کی تامل تحریک میں حکومت کی مداخلت کی وجہ سے انھیں اپنی جان گنوانا پڑی۔
اپنے ملک کی بات کریں تو اسٹیبلشمنٹ نے متعدد بار پولیٹکل انجینئرنگ کی کوشش کی ۔60ء اور80ء کی دہائیوں میں ہم نے بہت قریب سے دیکھا کہ فوجی آمروں کے خلاف جمہوری تحریک کو کمزور کرنے کے خیال سے سندھ کی سندھی اور اردو بولنے والی آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس طرح کام کیا۔ ملک نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ ان سے صوبے میں رہنے والی دو برادریوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوئی۔80ء کی دہائی میں جنرل ضیا کی حکومت نے ایک چھوٹی سی مہاجر طلبہ تنظیم کو ایک طاقتور فسطائی سیاسی جماعت بننے میں مدد دی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، جس نے ملک کی آدھی زندگی میں اس پر براہ راست حکمرانی کی، اپنی در پردہ سرگرمیوں کے ذریعے اس پر بالواسطہ حکمرانی بھی کرتی رہی ہے۔ انھوں نے جمہوری عمل کی افزائش کو روکا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
حکمراں جنتا نے1970ء کے انتخابات میںیہ سوچتے ہوئے ایک معلق پارلیمنٹ لانے کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش کی کہ اس طرح جنرل یحیٰی خان خود کو صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ الیکشن کے غیر متوقع نتائج کے بعد جس میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کر لی تھی، ان کی حکومت اور بھٹو نے مستقبل کے آئین کے خد وخال پر قانون ساز اسمبلی سے باہر بات چیت کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا پڑی۔
بھٹو پر 1977ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی36 نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگا جس کے باعث انھیں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی ایک بڑی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر مکار جنرل ضیا نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، ملک میں مارشل لا لگا دیا اور11 سال حکومت کی۔ جنرل ضیا کو بھی سیاسی مدد کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے 1985ء میں ایک غیر جماعتی انتخابات کے لیے انجینئرنگ کی۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آیندہ وزیر اعظم ان کا فرماں بردار ہو، انھوں نے اپنی پسند سے محمد خان جونیجو کو اس منصب کے لیے چنا۔ مگر اس کے باوجود اس وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے جنرل ضیا کی سوچ سے انحراف کیا اور افغانستان کے ساتھ جنیوا سمجھوتے پر دستخط کیے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی آمر کی سیاسی انجینئرنگ ناکام رہی اور انھیں1988ء میں جونیجو حکومت اور پارلیمنٹ کو برطرف کرنا پڑا۔ نتیجتاً جنرل ضیا، جنھوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اپنے ہی حلقے کی حمایت سے محروم ہوگئے اور انھیں قتل کر دیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے1988ء میں دائیں بازوکا ایک سیاسی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا کر اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے انجینئرنگ کی مگر اسے جزوی کامیابی ہی حاصل ہوسکی۔ ان کی یہ خواہش کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو حکومت بنانے سے روک دیا جائے، پوری نہ ہو سکی کیونکہ انتخابات میں وہ ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ پی پی پی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، مگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حکومت کو18 ماہ سے زیادہ برداشت نہ کیا اور آئین کے بدنام آرٹیکل58(2b) کو استعمال کرتے ہوئے اسے ختم کردیا۔
اسٹیبلشمنٹ کو پولیٹکل انجینئرنگ کی واحد بڑی کامیابی1990ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں آئی جے آئی کامیاب ہوئی اور وہ حکومت بنانے کے قابل ہوگئے۔
اسلام آباد میں یہ باتیں سنی جا رہی ہیں کہ آج کے سیاسی منظر نامے میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں پی ایم ایل(ن) کومارچ کے وسط میں ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میںاکثریت حاصل نہیں کرنے دے گی۔جب یہ سوال کیا جائے کہ مارشل لا لگائے بغیر یہ کیسے ممکن ہو گا تو نواز شریف کے مخالفین ایک ایسی عدالتی بغاوت کی پیش گوئی سے نہیں ہچکچاتے جس میں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔مگر پر امید لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کپتان کی ٹیم کو کچھ آگے بڑھائے گی۔
پولیٹکل انجینئرنگ ایک تازہ اصطلاح ہے۔ اس کی واضح ترین مثال ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے درمیان محض چند گھنٹے تک برقرار رہنے والا عقد ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ اس شادی کا اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے بعض کھلاڑیوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک ٹیلیویژن چینل پر اپنے حالیہ انٹرویو میں الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اگلی حکومت بنائے۔ مجھے چند روز قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران بتایا گیا کہ نادیدہ حکومت کے ارکان کی طرف سے بعض سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بلوں پر کس طرح ووٹ دیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حمایت ترک کر دیں۔
بد قسمتی سے پولیٹکل انجینئرنگ صرف پاکستان تک ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس بھی تواتر کے ساتھ اسے استعمال کرتی ہیں۔وہ اس احمقانہ کہاوت پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ''مقصد طریقوں کاجواز ہوتا ہے'' ۔انھیں اس بات کا بہت کم ادراک ہے کہ جو طریقے اپنی پسند کا ''مقصد'' حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں اور آگے چل کر وہ ایک اور ہولناک مقصد کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
امریکا، سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین (اب روس)کا ویت نام بنانے کے لیے جہاد کو استعمال کیا۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ ایسا کرکے وہ دہشتگرد اور انتہا پسند قوتوں کو کھلی چھٹی دے رہے ہیں اور آج یہ ممالک اس موقعے پرستانہ پالیسی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں، مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔
مگر یوں لگتا ہے کہ نام نہاد انٹیلی جنس ایجنسیاں کبھی کچھ نہیں سیکھتیں۔کیا انھوں نے لیبیا اور شام میںاسلامی دہشتگردی کے جن کو جگا کر وہی غلطی نہیںدہرائی؟
بھارت میں اندرا گاندھی کی حکومت نے خالصتان تحریک کے توڑ کے لیے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا تخلیق کیا۔ یہ عسکریت پسند لیڈر اپنے ہی خالق کے سامنے کھڑا ہوگیا، اس نے گولڈن ٹیمپل پر قبضہ کر لیا اور اندرا گاندھی کی حکومت کو آپریشن بلیو اسٹار شروع کرنے پر مجبورکر دیا۔ یہ غلط ''طریقہ'' استعمال کرنے پر انھیں اپنی جان گنوانا پڑی اور ایک مشتعل سکھ گارڈ نے انھیں قتل کر دیا۔ ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے گڑبڑکی خاطرکشمیر کے انتخابات میں پولیٹکل انجینئرنگ کی کوشش کی جس سے وادی میں تحریک آزادی کو نئی زندگی ملی اور سری لنکا کی تامل تحریک میں حکومت کی مداخلت کی وجہ سے انھیں اپنی جان گنوانا پڑی۔
اپنے ملک کی بات کریں تو اسٹیبلشمنٹ نے متعدد بار پولیٹکل انجینئرنگ کی کوشش کی ۔60ء اور80ء کی دہائیوں میں ہم نے بہت قریب سے دیکھا کہ فوجی آمروں کے خلاف جمہوری تحریک کو کمزور کرنے کے خیال سے سندھ کی سندھی اور اردو بولنے والی آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس طرح کام کیا۔ ملک نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ ان سے صوبے میں رہنے والی دو برادریوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوئی۔80ء کی دہائی میں جنرل ضیا کی حکومت نے ایک چھوٹی سی مہاجر طلبہ تنظیم کو ایک طاقتور فسطائی سیاسی جماعت بننے میں مدد دی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، جس نے ملک کی آدھی زندگی میں اس پر براہ راست حکمرانی کی، اپنی در پردہ سرگرمیوں کے ذریعے اس پر بالواسطہ حکمرانی بھی کرتی رہی ہے۔ انھوں نے جمہوری عمل کی افزائش کو روکا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
حکمراں جنتا نے1970ء کے انتخابات میںیہ سوچتے ہوئے ایک معلق پارلیمنٹ لانے کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش کی کہ اس طرح جنرل یحیٰی خان خود کو صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ الیکشن کے غیر متوقع نتائج کے بعد جس میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کر لی تھی، ان کی حکومت اور بھٹو نے مستقبل کے آئین کے خد وخال پر قانون ساز اسمبلی سے باہر بات چیت کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا پڑی۔
بھٹو پر 1977ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی36 نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگا جس کے باعث انھیں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی ایک بڑی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر مکار جنرل ضیا نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، ملک میں مارشل لا لگا دیا اور11 سال حکومت کی۔ جنرل ضیا کو بھی سیاسی مدد کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے 1985ء میں ایک غیر جماعتی انتخابات کے لیے انجینئرنگ کی۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آیندہ وزیر اعظم ان کا فرماں بردار ہو، انھوں نے اپنی پسند سے محمد خان جونیجو کو اس منصب کے لیے چنا۔ مگر اس کے باوجود اس وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے جنرل ضیا کی سوچ سے انحراف کیا اور افغانستان کے ساتھ جنیوا سمجھوتے پر دستخط کیے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی آمر کی سیاسی انجینئرنگ ناکام رہی اور انھیں1988ء میں جونیجو حکومت اور پارلیمنٹ کو برطرف کرنا پڑا۔ نتیجتاً جنرل ضیا، جنھوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اپنے ہی حلقے کی حمایت سے محروم ہوگئے اور انھیں قتل کر دیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے1988ء میں دائیں بازوکا ایک سیاسی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا کر اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے انجینئرنگ کی مگر اسے جزوی کامیابی ہی حاصل ہوسکی۔ ان کی یہ خواہش کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو حکومت بنانے سے روک دیا جائے، پوری نہ ہو سکی کیونکہ انتخابات میں وہ ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ پی پی پی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، مگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حکومت کو18 ماہ سے زیادہ برداشت نہ کیا اور آئین کے بدنام آرٹیکل58(2b) کو استعمال کرتے ہوئے اسے ختم کردیا۔
اسٹیبلشمنٹ کو پولیٹکل انجینئرنگ کی واحد بڑی کامیابی1990ء کے انتخابات میں حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں آئی جے آئی کامیاب ہوئی اور وہ حکومت بنانے کے قابل ہوگئے۔
اسلام آباد میں یہ باتیں سنی جا رہی ہیں کہ آج کے سیاسی منظر نامے میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں پی ایم ایل(ن) کومارچ کے وسط میں ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میںاکثریت حاصل نہیں کرنے دے گی۔جب یہ سوال کیا جائے کہ مارشل لا لگائے بغیر یہ کیسے ممکن ہو گا تو نواز شریف کے مخالفین ایک ایسی عدالتی بغاوت کی پیش گوئی سے نہیں ہچکچاتے جس میں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔مگر پر امید لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کپتان کی ٹیم کو کچھ آگے بڑھائے گی۔