مانی شنکر آئیر کی زبان اور مشکلات
مسئلہ کشمیر اور دوسرے اختلافات کو جنگ کے بجائے بات چیت سے حل کیا جائے،مانی شنکر آئیر
پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کی بحالی اور قیام امن کی کوشش کرنے والا ہر شخص مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ تقسیم سے قبل لاہور میں پیدا ہونے والے کانگریس کے سرکردہ رہنما مانی شنکرآئیر آج کل ا یسی ہی مشکلات کا تازہ شکار ہیں اوران کا ستارہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف دیے جانے والے ایک بیان کے بعد مسلسل گردش میں ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لیے کام کرنے والے افراد پر خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے، ملک دشمنی اور جاسوسی جیسے الزامات کا دور توکافی پیچھے رہ گیا مگر خطے میں آنے والی تازہ تبدیلیوں کے بعد کچھ سیاست دان، سفارت کار، سماجی کارکن ادیب، شاعر اور ریٹائرڈ فوجی آفیسر دونوں ملکوں کے درمیان دوستی، قربت اور امن وامان کی بحالی کے لیے اپنی سی کوشش کرتے ہیں تو اب بھی کوئی نہ کوئی ایسا ہنگامہ ضرورکھڑا ہوتا ہے جسے ٹھنڈا ہوتے ہوتے کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔
مانی شنکر آئیر کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ معروضی حالات کی روشنی میں دلائل کے ساتھ پچھلے طویل عرصے سے پاک بھارت دوستی کی وکالت کر رہے ہیں اور امن و امان کی ترویج کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کی دعوت پر متعدد بار پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کا اعلان ہوا تو امریکا کے بعد جس ملک کو سب سے زیادہ مایوسی ہوئی وہ بھارت ہی تھا۔
اس منصوبے سے پڑوسی ممالک کے تعلقات پر فوری معاشی اثرات کی بحث چھڑی تو امریکا اور بھارت کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوئے مگر پاک بھارت تعلقات کو پہلے سے زیادہ نقصان پہنچا۔ علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے بعد جہاں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے بعد انسانی جانوں کے نقصان میں اضافہ ہوا وہاں بھارت نے پاکستانی شہریوں کے ویزے بھی محدود کر دیے جس سے سماجی اور سیاسی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے اور مذہبی مقامات کی زیارت کرنے والوں کے ساتھ ان مریضوں کو بھی مایوسی ہوئی جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے مغربی ممالک کے بجائے پڑوسی ملک کارخ کرتے تھے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود جس طرح ہمارے ملک کے باسیوں کوتو ہم پرستی ، جرائم، غربت اور لالچ کی بلاؤں نے گھیر رکھا ہے بالکل اسی طرح پچھلے ہزاروں برسوں سے ذات پات کا جن تمام تربرائیوں کے ساتھ بھارتی سماج کے ساتھ بھی چپکا ہوا ہے جس سے جان چھڑانے کے لیے وہاں کے اقلیتی نمایندے، سیکیولر حلقے اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دان برسوں سے بر سر پیکار ہیں ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی موجودہ حکومت کے قیام کے بعد یہ جن سنگھ پریوار کی آشیر باد سے بھارتی سیاست اور سماج کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکا ہے ۔
مانی شنکر آئیر کا شمار بھارت کے ان اہم سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر اور دوسرے اختلافات کو جنگ کے بجائے بات چیت سے حل کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لیے سرگرم اس شخص کے خلاف جب تنقید کرنے اور اپنی الیکشن مہم کو آگے بڑھانے کا کوئی معقول طریقہ نہ سوجھا تو بھارتیہ جنتا پارٹی ذات پات کا ہتھیار اٹھا کر سیاسی میدان میں کود پڑی۔
بھارت کے سیاسی حلقوں میں یہ ہلچل اس وقت مچی جب بھارتی آئین کے خالق اور اقلیتی برادری کے راہ نما ڈاکٹر امبیدکر کی یاد میں تعمیر ہونے والی عمارت کی تقریب کے دوران نریندر مودی کے کسی بیان کے جواب میں مانی شنکر آئیر نے کہا ''مجھ کو لگتا ہے یہ بہت نیچ قسم کا آدمی ہے۔ اس میں کوئی سبھیتا (تہذیب) نہیں اس موقعے پر ایسی گندی راج نیتی (سیاست) کی کیا ضرورت ہے۔'' الیکشن کے دوران دونوں ممالک کے سیاست دانوں کے پاس بس ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے کہ سادہ دل عوام کو اپنے مخالفین سے متنفر کرنے کے لیے ان پر دوسرے ملک کی سہولت کا الزام لگا دیا جائے۔
بھارتی وزیر اعظم کو بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران جب کوئی اور بات نہ سوجھی تو انھوں نے مانی شکر آئیر پر نہ صرف یہ الزام عائد کیا کہ انھوں نے مجھے ''نیچ'' کا خطاب دیا ہے بلکہ دو قدم مزیدآگے بڑھتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے پاکستانی دورے میں یہ بھی کہا کہ ''مودی کو راستے سے ہٹائیں اور پھر دیکھیں کہ پاک بھارت کے درمیان امن و امان کی صورت حال میں کیا تبدیلی آتی ہے۔''
مانی شنکر آئیر کو اپنے بیان کے بعد پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا گیا اور راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی پر گندی زبان استعمال کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مودی کو مخاطب کرتے ہوئے مانی شنکر آئیر نے جو زبان استعمال کی ہے میں اس کی بھی حمایت نہیں کرتا۔ حالات بتاتے ہیں کہ مانی شنکر آئیر نے جو کچھ کہا وہ ہندی زبان سے سے ناواقفی کا شاخسانہ تھا۔ ان کے بقول انھیں ہندی نہیں آتی اور انھوں انگریزی کے لفظ Lowکا ترجمہ نیچ کیا ہے۔اگر ان کا مطلب نیچ ذات ہوتا تو وہ اس کے لیےLow cast کے الفاظ استعمال کرتے۔
جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اس زمانے میں بھی مانی شنکر آئیر نے ان کے بارے میں ایک جملہ کہا تھا کہ واجپائی لائق انسان مگر نالائق وزیر اعظم ہیں جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ منی شنکر آئیر کا کہناہے کہ انھوں نے اردو کے بہت سارے الفاظ پاکستان سے سیکھے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ بچپن میں یا پاکستان میں اپنی آمد و رفت کے دوران انھوں نے جو الفاظ سیکھے تھے ان میں بہت سارے متروک ہو چکے ہیں اور بہت سارے نئے الفاظ ہماری زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ بھارتی سیاست دانوں کی طرح ہمارے سیاست دانوں نے بھی اپنی زبان کا دامن ایسے الفاظ سے بھر دیا ہے جن کا ترجمہ چاہے دنیا کی کسی بھی زبان میں کرلیں آپ کے ہاتھ سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں آئے گا۔