صنم بخاری نے سنسربورڈ کوانڈسٹری کے بحران کا ذمہ دارقراردیدیا
مفاد پرستوں نے جیبیں بھرنے کیلیے نان پروفیشنل پروڈیوسروں کوموقع دے کر فلمسازی کے شعبے کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیا
DES MOINES, UNITED STATES:
نارویجن ماڈل واداکارہ صنم بخاری نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے گزشتہ دو دہائیوں کی بات کریں تو فلم کا شعبہ شدید بحران میں تھا اوراس کی بربادی کا ذمے دارجہاں یہاں کام کرنے والے پروڈیوسروں، ہدایتکاروں، فنکاروں اوراسٹوڈیو مالکان کو ٹہرایا جاتا ہے وہیں اس کا بھاری ذمے دار مرکزی فلم سنسربورڈ کوبھی ٹہرایا جائے توغلط نہ ہوگا۔
اگرغیر معیاری فلموں کو سنسرسرٖٹیفیکٹ جاری نہ کیے جاتے توآج پاکستان فلم انڈسٹری شدید بحران سے دوچارنہ ہوتی۔ نگارخانے اورسینما گھرویران نہ ہوتے، لوگ سستی ترین تفریح سے محروم نہ ہوتے، فلمی ستاروں کی عزت ہوتی اورلوگ ان کواچھے لفظوں میں یاد کرتے۔ مگرمفاد پرستوں نے اپنی جیبیں بھرنے کیلیے ایسے نان پروفیشنل پروڈیوسروں کویہاں کام کرنے کا موقع دیا کہ انھوں نے پیسے کے بلبوتے پراپنی من مانیاں کیں اوراس کے نتائج سے بے خبرڈائریکٹر، رائٹروں نے ان کی مانتے ہوئے فلمسازی کے شعبے کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیا۔
ان خیالات کا اظہارانھوں نے''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ صنم بخاری نے کہا کہ غنڈوں، بدمعاشوں اور ذات برادریوں کی پروموشن کرتی فلمیں بننے سے جہاں فلمی میوزک کی جگہ ایسے گیتوں کو ملنے لگی، جن کوشائقین کی اکثریت سننا اوردیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کے علاوہ فلموں کی کہانیاں، کاسٹنگ اورلوکیشنز سمیت تکنیکی شعبے پربھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
جس کے نتیجہ میں فلم انڈسٹری کی تباہی ہونے لگی۔ بہت سے لوگ اس سے دورہوئے اوربہت سے ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ فلم انڈسٹری تنہا ہوتے ہی مزید ایسے نان پروفیشنل لوگوں نے اس تخلیقی شعبے کاسہارا لیا اوربیہودہ فلمیں پروڈیوس کیں کہ ان کو دیکھنا تودور کی بات ان کا نام سن کرتعجب ہونے لگتا۔ ایسے میں موجودہ دورمیں ایک مرتبہ پھرپاکستان فلم انڈسٹری میں جان دکھائی دینے لگی ہیں۔ ایسے میں ملک بھرمیں سنسربورڈز کواپنا کردارنبھانے کی ضرورت ہے۔ اگرآج بھی انھوں نے غیرمعیاری فلموں کونمائش کی اجازت دینے کا سلسلہ بند نہ کیا توپھرانٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچنا ناممکن ہوجائے گا۔
نارویجن ماڈل واداکارہ صنم بخاری نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے گزشتہ دو دہائیوں کی بات کریں تو فلم کا شعبہ شدید بحران میں تھا اوراس کی بربادی کا ذمے دارجہاں یہاں کام کرنے والے پروڈیوسروں، ہدایتکاروں، فنکاروں اوراسٹوڈیو مالکان کو ٹہرایا جاتا ہے وہیں اس کا بھاری ذمے دار مرکزی فلم سنسربورڈ کوبھی ٹہرایا جائے توغلط نہ ہوگا۔
اگرغیر معیاری فلموں کو سنسرسرٖٹیفیکٹ جاری نہ کیے جاتے توآج پاکستان فلم انڈسٹری شدید بحران سے دوچارنہ ہوتی۔ نگارخانے اورسینما گھرویران نہ ہوتے، لوگ سستی ترین تفریح سے محروم نہ ہوتے، فلمی ستاروں کی عزت ہوتی اورلوگ ان کواچھے لفظوں میں یاد کرتے۔ مگرمفاد پرستوں نے اپنی جیبیں بھرنے کیلیے ایسے نان پروفیشنل پروڈیوسروں کویہاں کام کرنے کا موقع دیا کہ انھوں نے پیسے کے بلبوتے پراپنی من مانیاں کیں اوراس کے نتائج سے بے خبرڈائریکٹر، رائٹروں نے ان کی مانتے ہوئے فلمسازی کے شعبے کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیا۔
ان خیالات کا اظہارانھوں نے''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ صنم بخاری نے کہا کہ غنڈوں، بدمعاشوں اور ذات برادریوں کی پروموشن کرتی فلمیں بننے سے جہاں فلمی میوزک کی جگہ ایسے گیتوں کو ملنے لگی، جن کوشائقین کی اکثریت سننا اوردیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کے علاوہ فلموں کی کہانیاں، کاسٹنگ اورلوکیشنز سمیت تکنیکی شعبے پربھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
جس کے نتیجہ میں فلم انڈسٹری کی تباہی ہونے لگی۔ بہت سے لوگ اس سے دورہوئے اوربہت سے ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ فلم انڈسٹری تنہا ہوتے ہی مزید ایسے نان پروفیشنل لوگوں نے اس تخلیقی شعبے کاسہارا لیا اوربیہودہ فلمیں پروڈیوس کیں کہ ان کو دیکھنا تودور کی بات ان کا نام سن کرتعجب ہونے لگتا۔ ایسے میں موجودہ دورمیں ایک مرتبہ پھرپاکستان فلم انڈسٹری میں جان دکھائی دینے لگی ہیں۔ ایسے میں ملک بھرمیں سنسربورڈز کواپنا کردارنبھانے کی ضرورت ہے۔ اگرآج بھی انھوں نے غیرمعیاری فلموں کونمائش کی اجازت دینے کا سلسلہ بند نہ کیا توپھرانٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچنا ناممکن ہوجائے گا۔