بلوچستان اسمبلی عبدالواسع قائد حزب اختلاف نامزد اسپیکر نے 23 ارکان کو اپوزیشن نشستیں الاٹ کردیں

رات گئے رئیسانی کے حامیوں کی کامیابی، پی پی، ق لیگ، اور آزاد ارکان کے نامزد لیڈر طارق مگسی نے اکثریت کا دعویٰ کر دیا


Numainda Express March 18, 2013
18وزرا کے استعفے منظور، رئیسانی حامی گروپ نے بھی 25وزرا کے استعفے بھجوائے، کل اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دونگا، وزیر اعلیٰ فوٹو: فائل

اسپیکر بلوچستان اسمبلی مطیع اللہ آغا نے 23ارکان کی اکثریت سے مولانا عبدالواسع کو بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی مطیع اللہ آغا نے 23 اراکین کو اپوزیشن نشستیں الاٹ کر دیں جن میں جمعیت علماء اسلام (ف) ، بی این پی عوامی، اے این پی، مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی اور آزاد اراکین شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ ان اراکین نے گزشتہ رات وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی کو اپنے استعفے پیش کیے تھے اور اسپیکر نے انکے استعفے منظوری کیلیے گورنر بلوچستان کو بھیج دیے ۔

قبل ازیں بلوچستان میں سیاسی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب مخلوط کابینہ میں شامل 18 وزراء اور ایک مشیر نے استعفے گورنر ذوالفقار مگسی کو پیش کر دیے جنھیں منظور کر لیا گیا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ نواب رئیسانی کا حامی دوسرا گروپ بھی متحرک ہوگیا، گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے میر صادق عمرانی' اسفند یار کاکڑ' جان علی چنگیزی' امین عمرانی' غزالہ گولہ' آغا عرفان' عبدالرحمان جمالی جبکہ آزاد ارکان کے پارلیمانی لیڈر اسلم بزنجو ق لیگ کے امان اللہ نوتیزئی' حبیب الرحمان' کیپٹن (ر) عبدالخالق' مسعود لونی' رقیہ ہاشمی' بسنت لعل' پروین مگسی' حمل کلمتی' ظہور بلیدی اور صوبیہ کرن کی جانب سے استعفے پیش کیے۔

اس موقع پر سابق اسپیکر اسلم بھوتانی'جعفر مندوخیل' طارق مسوری بگٹی' یار محمد رند' بختیار خان ڈومکی نے بھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے اور اپوزیشن لیڈر طارق مگسی کی حمایت کا اعلان کیا، نجی ٹی وی کے مطابق بلوچستان حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق) کے 19 میں سے 16 اور پیپلز پارٹی کے 14 میں 8 ارکان کے ساتھ بی این پی عوامی، مسلم لیگ (ن) اور آزاد اراکین کی اکثریت نے اپوزیشن میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد اپوزیشن لیڈر طارق مگسی نے وزیر اعلٰی اسلم رئیسانی پر عددی برتری حاصل کرلی، گورنر سے ملاقات کے بعد اسلم بزنجو، صادق عمرانی اور جعفر مندوخیل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے20وزارتوں سے استعفے دیے ہیں، ہمارے پاس40 ارکان ہیں جو اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔

 

6

اپوزیشن اکثریت اورحکومت اقلیت میں تبدیل ہو گئی ہے، اسلم رئیسانی استعفیٰ دیدیں، ہم نے اتحاد بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں بنایا، انتخابات کیلیے مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرینگے، دوسری جانب وزیراعلیٰ نواب رئیسانی کا حامی دوسرا گروپ بھی متحرک ہوگیا، 25وزراء نے استعفیٰ دیدیے جنھیں اسپیکر نے گورنر بلوچستان کو بھجوا دیا، ان میں جے یو آئی، بی این پی عوامی، مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی اور بعض آزاد ارکان شامل ہیں، اس گروپ کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کیلیے مولانا واسع کا نام تجویز کیا گیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا آج کا اجلاس ملتوی کردیا گیا، توقع ہے کہ یہ اجلاس کل ہو گا جس میں اپوزیشن لیڈر کے لیے رائے شماری ہو گی۔ دوسری جانب وزرا کی اکثریت کے اپوزیشن میں چلے جانے کے بعد وزیراعلٰی نے اتوار کی شام طلب کیا جانے والا صوبائی کابینہ کا اجلاس منسوخ کردیا۔

اسلم رئیسانی نے کہا کہ نگراں سیٹ اپ کیلیے تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا عمل جاری ہے اور وہ کل بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھجوادیں گے۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر علی مدد جتک نے کہا ہے اپوزیشن میں جانے والے پیپلز پارٹی کے صادق عمرانی اور جان علی چنگیزی کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دیں گے۔ اگراپوزیشن نے 40 اراکین کی تعداد ظاہر کی تو انکے ساتھ بیٹھ جائیں گے، حکومت کو47اراکین کی حمایت حاصل ہے، ساتھیوں کی مشاورت کے بعد کابینہ کاجلد اجلاس بلائیں گے اور اسمبلی اجلاس بھی عنقریب بلایاجائے گا جبکہ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی کا کہنا ہے کہ انھوں نے یا ان کے ساتھیوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ مرکزی قیادت کی گائیڈ لائن پرعمل کرکے اپوزیشن میں گئے ہیں۔

علاوہ ازیں اسپیکر مطیع اللہ آغا نے طارق مگسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ مزید براں نگران وزیراعلیٰ کے لئے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کا نام مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آگیا۔ ادھر پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے میر صادق عمرانی اور جان علی چنگیزی کی جانب سے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کاسخت نوٹس لے لیا۔ فریال تالپور نے پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر سے رپورٹ طلب کرلی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔