نیلے پانی پر سفید کفن

علاقائی اعتبار سے ہمارا چالاک پڑوسی انڈیا اپنا جال بچھانے کی کوشش کر رہا ہے


انیس منصوری December 28, 2017
[email protected]

اللہ ُ اکبر، اللہ ُ اکبرکی گونج تیزہوتی جارہی تھی۔ دسمبر کی یہ صبح خاص تھی۔ سخت سردی اور سمندر کے درمیان جزیرے پر موجود ہونے کے باوجود، منظر خون کو گرما رہا تھا اور جیسے جیسے سپاہی میدان میں داخل ہو رہے تھے فضا اللہ ُ اکبر کے نعرے سے بھرتی جارہی تھی۔ زمین ایک ساتھ لگنے والے قدموں سے ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔

وہاں موجود لوگ اس جادوئی کیفیت کو اپنے اندر محسوس کر رہے تھے۔ سورج نکل چکا تھا لیکن مجھے یہ محسوس ہورہا تھا کہ آج ان نوجوانوں کے جذبوں کی حرارت کے سامنے وہ ماند پڑچکا ہے۔ سفیدکفن پہنے،اپنے وطن سے وفا داری کا حلف لینے والے یہ نوجوان ہمارے محافظ ہیں۔جنھوں نے میرے سامنے، اپنے والدین کے سامنے، اپنے استاد کے سامنے اور پوری قوم کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ اپنی جان دے سکتے ہیں لیکن اپنے وطن پر آنچ تک نہیں آنے دیں گے۔ یہ پاکستان نیوی کے وہ سپاہی تھے جو نیلے پانی کی سمت سے آنے والی ہر بری نظر کا مقابلہ کرتے ہیں۔

پاکستان نیول اکیڈمی کے میدان میں ہمارے لیے یہ فخر کی بات تھی کہ اس تاریخی موقعے پر ہم پہلی صف کے شاہد تھے۔ میرے دائیں جانب کچھ ممالک کے سفیر تھے اوران کے برابرکی قطار میں چیف آف نیول اسٹاف، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ موجود تھے، جب کہ میرے بائیں جانب FPCC کے عہدیداران تھے۔ میرے ذہن میں کئی سوالات تھے، لیکن پاکستان نیوی کے جوانوں کی صلاحیتوں نے میرے سارے سوالات کو مفلوج کر دیا تھا۔ وزیرا عظم تشریف لا چکے تھے۔ میرے بائیں جانب ان کی موجودگی میں میرے سوالات پھر ابھرنے لگے۔

پاکستان کی ایک ہزارکلومیٹر سے زیادہ پھیلی ہوئی ساحلی پٹی ہے۔ نیلے پانی کا یہ وہ حصہ ہے جس پر اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہیں۔ تاریخ کے اورق میں رومن حکومتوں کے زمانے سے اس پانی کے راستے کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ پانی کے سفر کی ان چند جگہوں میں شامل ہیں جہاں زمین ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بحیرہ عرب۔ جوپاکستان، ایران، انڈیا، عرب ممالک، صومالیہ، اومان اور یمن جیسے اہم ممالک کو چھوتا ہے۔ بدلتے ہوئے موسم میں اس سمندرکی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

علاقائی اعتبار سے ہمارا چالاک پڑوسی انڈیا اپنا جال بچھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہیں خطے کے دوسرے ممالک بھی اس میں ایک دوسرے کے خلاف آستینں اونچی کیے ہوئے ہیں۔ خطے میں یمن، ایران، سعودیہ، صومالیہ کے معاملات اہم ہیں۔ عالمی طاقتوں میں چین کا پاکستان کے ساتھ تعلق اور CPEC کے تحت گوادر کا بننا، پاکستان نیوی کے کردار کو بڑھاتا جارہا ہے۔ میرے سب سے اہم سوال بدلتے ہوئے حالات میں نیوی کا کردار تھا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وزیر اعظم نے اپنا خطاب شروع کر دیا۔

لیکن میں باوجود کوشش کے اپنی نظروں اور سوچ کو پاکستان نیوی کے جوانوں سے ہٹا نہیں پارہا تھا۔ پھر وہ وقت آگیا جب وزیر اعظم نے کہا کہ خطے میں تسلط قائم کرنے کی کسی بھی قسم کی خفیہ یا غیر قدرتی کوشش نہ توکبھی کامیاب ہوئی اور نہ ہوگی۔

ہمارے یہاں زمینی اور فضائی جنگی جنون اور سازشیں تو کسی نہ کسی طور پر سامنے آجاتی ہیں ،لیکن عام طور پر سمندی معاملات سامنے نہیں آ پاتے ۔ پاکستان جہاں موجود ہے، یہ سمندری راستہ ان چند جگہوں میں شامل ہے جہاں سے دنیا بھرکی تجارت ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے نکلنے والا تیل اور وہاں پہنچنے والی اشیاء کا بہترین اور سب سے محفوظ راستہ اسی کو تصورکیا جاتا ہے، مگر اس میں پاکستان نیوی کا اہم کردار رہا ہے۔ اس خطے میں اسلحے کی ناجائز ترسیل کے علاوہ اسمگلنگ اور سب سے بڑھ کر بحری لٹیروں کا معاملہ بھی ہے۔ یہاں دو اہم ''ٹاسک فورس'' کام کر رہی ہیں۔

ایک مشترکہ ٹاسک فورس 150 ہے۔ اس میں آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ، فرانس اور پاکستان کے علاوہ کئی ممالک شامل ہیں۔ پاکستان اس کا 8 بار سربراہ رہا ہے۔ صومالیہ کے مشہور لٹیروں سے دنیا تنگ تھی اور 2009ء میں اس حوالے سے ایک اور مشترکہ ٹاسک فورس 151 بنی تھی۔ پاکستان نیوی اس فورس کی بھی سربراہی کر چکی ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر اہمیت کے حامل اس سمندر میں اب بہت سی کھلی اور خفیہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان نیوی کے پاس کئی اہم معرکوں کے ساتھ CPEC بھی ہے۔ زمینی علاقوں میں سڑکوں کا جال اور صنعتوں کے ساتھ سمندر بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ گوادر میں جہازوں کا آنا اور جانا اور پاکستان کی سمندری حدود میں اس کا تحفظ اہم ہے۔ گودار کے حوالے سے نیوی نے ایک بہت اہم رپورٹ آج سے 30 سال پہلے دی تھی۔ خیر اِس وقت نیوی کی کئی بٹالین موجود ہیں۔ ساحلی علاقوں میں اسپتال اور اسکول بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔

میرا ذہن تیزی سے سوالات جمع کر رہا تھا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ Blue معیشت کو فروغ دینے کے لیے حکومت،پاک بحریہ کو تمام ضروری وسائل دینے کے لیے تیار ہے۔ بہت دنوں بعد سُنا تھا۔اس لیے چونک گیا کہ کیا واقعی ہماری حکومت سمندر کے لیے تیار ہے۔ سمندر ترسیل کے نظام کے ساتھ، معدنی ذخائر بھی رکھتا ہے۔ وہ تفریحی کے ساتھ معیشت کی بھی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سمندر، رازوں سے بھرا ہوا ہے۔

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر ختم ہوگئی۔ میرے سوالات مجھے بے چین کر رہے تھے۔ تقریب ختم ہو چکی تھی۔ منظر بدل چکا تھا۔ ایک بڑے سے کمرے میں وزیر اعظم، وزیر اعلی سندھ، گورنر، چیف آف نیول اسٹاف، اعلی فوجی افسران، کئی ممالک کے سفیر اور ہم جیسے چند آوارہ سوال موجود تھے۔ موقعہ غنیمت جان کر اشاروں کناروں میں اپنے سوالات اُن کے سامنے رکھ دیے۔

پہلا سوال یہ تھا کہ علاقائی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ہم کس جانب ہیں؟ اس سے پہلے کہ میں آپ کو جواب بتاؤں ایک بات یاد آگئی۔ آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر کے تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ یہ مذاق تو نہیں لیکن ہمارے یہاں کہتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی کہ جب کمانڈنٹ پاکستان نیول اکیڈمی، کموڈور سید فیصل حمید نے یہ بتایا کہ جو 103 نوجوانوں کی پاسنگ آوٹ پریڈ ہوئی ہے اس میں پاکستانی 57 ہیں۔

سعودیہ کے 22، قطرکے 15 اور بحرین کے 9 ہیں۔ میں تو حیرت میں تھا ہی لیکن آپ بھی سوچیں کہ جو لوگ ایک دوسرے کا کھانا بند کرکے رکھے ہوئے ہیں وہ سب مل کر پاکستان نیوی کی اکیڈمی میں ساتھ ساتھ ہیں۔ اب میرے سوال پر غور کریں کہ میں پوچھنا یہ چاہتا تھا کہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ہم کس طرف ہے۔تو اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نیوی کی اکیڈمی میں سب ساتھ ساتھ ہیں ۔ اور باہر سے آکر یہاں سے پڑھنے والے خطے کے کئی ممالک کی نیوی کے اہم عہدوں پر ہیں۔

میں آپ کے تجسس کو ختم کیے دیتے ہوں اور بتا دیتا ہوں کہ مجھے کافی حد تک میرے سوالات کے جوابات مل چکے ہیں۔ لیکن اس پوری کہانی میں بہت سے جوابات ''آف دی ریکارڈ'' ہیں اور کچھ میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔لیکن کیا کیجیے کہ کہانی لمبی ہے اور وقت کم۔ بس آج کے لیے اتنا سوچیں کہ اپنے گھر سے دور نیلے پانی میں کفن پہنے آپ کی حفاظت کے لیے کوئی کھڑا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں