خواجہ سعد رفیق کا بیان غیرارادی نہیں غیرذمے دارانہ ہے ترجمان پاک فوج

ہم ملکی خودمختاری اور عزت پرسمجھوتہ نہیں کریں گے، میجر جنرل آصف غفور

بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے، میجر جنرل آصف غفور۔ فوٹو؛ فائل

ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کا بیان غیرارادی نہیں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے جب کہ پاک فوج ایک ڈسپلن ادارہ ہے اور آرمی چیف کے ایک اشارے پر پوری فوج وہاں دیکھنا شروع ہوجاتی ہے جہاں وہ چاہتے ہیں۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے، بھارت نہیں چاہتا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیابیاں جاری رہیں، فوج کے کامیاب آپریشنز سے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں رہے، 2017 میں بھارت کی ایل او سی کی خلاف ورزیوں میں تیزی رہی جب کہ اس سال ہمارے فوجیوں کی شہادت 250سے زائد ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلےسال بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا اور اس سال بھی 25 دسمبر کو جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، یہ سب پروپیگنڈا ہے جو کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔



ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ امریکا نے بھی پچھلے دنوں ہمیں دھمکیاں دیں، ہم پیسے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہے، بہت کچھ کر لیا اب ہم کسی کے لیے نہیں لڑیں گے، امریکا کو واضح بتادینا چاہتے ہیں کہ ہم دوستوں سے لڑا نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکاکی طرف سے ہمیں جو بھی رقم ملی وہ اخراجات کی مد میں ملی، ہم اپنی ملکی خودمختاری اور عزت پرسمجھوتہ نہیں کریں گے، ملک پر منڈلاتے خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔



میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بلوچستان سے متعلق اپنے دشمنوں کو بخوبی جانتے ہیں، سوئٹزر لینڈ نے براہمداغ بگٹی کی درخواست مسترد کی، دوسری جانب خوشحال بلوچستان پروگرام کے تحت کئی منصوبے جاری ہیں جب کہ بلوچستان میں دو ہزار سے زائد فراری قومی دھارے میں واپس آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے مقابلے میں آج کا کراچی بہت بہتر ہے اور قانون کی حکمرانی کی صورتحال بھی بہتر ہوئی ہے تاہم کراچی کے حالات مزید بہتر ہوں گے اور اس حوالے سے اپیکس کمیٹی میں کام جاری ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افواج پاکستان کی ذمے داری سی پیک کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور سی پیک کی سلامتی کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے، کلبھوشن کے حوالے سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر کوئی کمپرومائز نہیں کیاجائے گا، کلبھوشن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت دی، اس حوالے سے ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا جب کہ ملاقات سے کیس پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔


صحافی کی جانب سے سوال پر کہ سینیٹ اجلاس کے بعد سعد رفیق نے کہا کہ آرمی چیف نے جمہوریت کے حوالے سے مثبت پیغام دیا تاہم آرمی چیف کا حکم ماننے والے بھی اس کو دیکھیں جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق کا بیان غیرارادی نہیں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، پاک فوج ایک ڈسپلن ادارہ ہے، آرمی چیف کے ایک اشارے پر پوری فوج وہاں دیکھنا شروع ہوجاتی ہے جہاں وہ چاہتے ہیں، آرمی چیف کے حکم پر ہم قربانیاں دے رہے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو ہر کوئی اپنی مرضی سے کام کرنا شروع کردے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جن کو آئین ہی تحفظ فراہم کرتا ہے لہذا ایسا بیان نہیں آنا چاہیے جو آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، ہر آدمی کی ذمے داری ہے کہ آئین اور قانون کا احترام کرے اور اس کے دائرے میں رہے اگر ایسی لائن چھیڑیں گے تو بہت سارے ارتعاش پیدا ہوں گے۔




ایک سوال پر کہ نواز شریف اور مریم نواز مسلسل اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کے پیچھے سازش کا اشارہ دے رہے ہیں اور اس میں پاک فوج کو سازشی قرار دے رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا یہ ایک سیاسی سوال ہے اور اس پر خاموش ہی رہیں گے تاہم اگر کوئی سازش ہے تو انہیں اس کا ثبوت سامنے لانا چاہیے۔



دوسری جانب وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک ذمے دار اور سنجیدہ شخص ہوں، کبھی غیر ذمہ دارانہ یا غیر آئینی رویہ نہیں اپنایا اور ماتحت نظام کو کبھی ٹارگٹ کیا نہ ہی اس کا تصور کرسکتا ہوں جب کہ میجر جنرل آصف غفور مثبت آدمی ہیں، ان کے رد عمل پر دلی دکھ ہوا۔

فاقی وزیر کا کہنا تھا کہ والدِ محترم کی برسی پر میری ساری تقریر قومی اداروں کے مابین ہم آہنگی، مفاہمت اور متحد ہو کرملک کے لئے کام کرنے کا بیانیہ ہے لیکن میری تقریر کے بعد مخصوص چینلز نے میری بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جب کہ27 منٹ طویل تقریر بالائے طاق رکھ کر چند الفاظ پر رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے۔



سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ میں ریاستی اداروں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے خاموش کردار ادا کرتا رہتا ہوں جب کہ ریاستی اداروں کے مابین فاصلے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے والے ملک سے زیادتی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شکایات پیدا ہوتی ہیں تو اسے خاموشی سے متعلقہ اتھارٹی کو مطلع کرتے ہیں یا پھر اسے جذبت کرلیتے ہیں، یقین رکھتا ہوں کہ ہم تدبر فراست اور باہمی اتحاد ہی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔





Load Next Story