نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستوں پر 3 رکنی بنچ تشکیل

بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں یکم جنوری کو سماعت کرے گا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔


ویب ڈیسک December 28, 2017
نواز شریف کے خلاف درخواست گزاروں میں عمران خان، شیخ رشید اور پیپلز پارٹی رہنما سمیت 13 افراد شامل ہیں، فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے نواز شریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کے خلاف دائر درخواستوں پر تین رکنی بنچ تشکیل دیتے ہوئے سماعت کے لیے یکم جنوری کی تاریخ مقرر کردی۔



ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے باوجود انتخابی اصلاحات بل کے ذریعے سابق وزیراعظم نواز شریف کے دوبارہ پارٹی سربراہ بننے کے خلاف عدالت عظمی میں 13 درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا جو یکم جنوری کو ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ یہ بینچ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سماعت کرے گا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں جو کہ پاناما کیس کے بینچ میں بھی شامل تھے اور احتساب عدالت کے مقدمہ میں بھی نگراں جج مقرر ہیں۔


یہ پڑھیں: نواز شریف کو پارٹی صدر بننے کے مقدمے میں نوٹس جاری




خیال رہے کہ نااہل شخص کو پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دیے جانے کے خلاف الگ الگ 13 درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت 13 درخواست گزار شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں: نوازشریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار

درِخواست گزاروں کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے قانونی طریقہ سے ہٹ کر انتخابی اصلاحات بل 2017ء منظور کیا گیا لہذا عدالت اس بل کے ذریعے نااہل شخص کو پارٹی صدر بننے کے لیے اہل قرار دینے کا عمل کالعدم قرار دے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے نواز شریف کو پارٹی صدر بننے کی اجازت والی ترمیم چیلنج کردی

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما لیکس کے مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا تاہم پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی اکثریت ہے جنہوں نے انتخابی اصلاحات میں ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کسی بھی نااہل شخص کو پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دینے کا بل منظور کرلیا بعد ازاں نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ ن کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں