ایک اور موقع کھو دیا گیا
بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ایک شرط پیش کی ہے۔
ISLAMABAD:
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی چیز کارگر ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کلبھوشن یادیو کی اس کی بیوی اور والدہ کے ساتھ قید میں ملاقات ایک ایسا موقع تھا جب دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا تھا اور دونوں میں بہتر افہام و تفہیم کا امکان روشن ہو سکتا تھا۔ لیکن دونوں اطراف کی بیورو کریسی اس قدر یبوست زدہ سوچ کی حامل ہو گئی ہے کہ انھوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی بھی کوشش کی، نہ ہونے دی۔
کلبھوشن یادیو 21 مہینوں سے زیر حراست تھا جس دوران بین الاقوامی تنظیموں سمیت اور بھی کئی اطراف سے دباؤ آیا کہ اس کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت دی جائے لیکن بیورو کریسی نے کوشش کی کہ ملاقات صحیح طریقے سے نہ ہو سکے۔ کسی کے ذہن میں یہ اچھوتا خیال آیا کہ یادیو اور اس کی فیملی کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔ حتیٰ کہ اس کی اہلیہ کا منگل سوتر (جو شادی شدہ ہندو عورتیں پہنتی ہیں) اور کڑے اور بندیا بھی اتروا لی گئی لیکن ان سے کیا فائدہ ہوا یہ ہماری عاجزانہ سوجھ بوجھ سے ماورا ہے۔ منگل سوتر اور بازو کا کڑا کوئی ہتھیار تو نہیں، یہ شادی شدہ عورت کی نشانی ہیں۔
پاکستانی بیورو کریٹس یہ سب باتیں بخوبی جانتے ہیں کیونکہ کل تک وہ خود بھی اس نظام کا حصہ تھے، ان کی اس حرکت کا مقصد بھارت کے خلاف دشمنی ظاہر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کسی نے انھیں کہا نہیں تھا کہ انھوں نے اس طرح کا سلوک کرنا ہے۔ تقسیم کے بعد سے ہی انھوں نے یہ عادت اختیار کر لی ہے۔ شاید بیورو کریٹس اس وجہ سے طیش میں تھے کہ دی ہیگ کی عدالت انصاف نے یادیو کی سزائے موت پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔
پاکستان کے مطابق یادیو کو گزشتہ سال مارچ میں جاسوسی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے الزام میں حراست میں لیا گیا جس کے بعد ایک فوجی عدالت نے تخریب کاری اور سبوتاژ کی کارروائیوں کے الزام میں اسے سزائے موت سنا دی تاہم بھارت کا اس حوالے سے دعویٰ تھا کہ اسے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گرفتار کیا گیا اور اس پر خفیہ مقدمہ چلا کر سزا دیدی گئی۔ بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں اپیل کی اور یادیو کے خلاف مقدمہ کو انصاف کی بے حرمتی قرار دیا۔
بھارت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یادیو بھارتی سفارتکار تھا جسے قونصلر رسائی بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی اسے اپنا وکیل صفائی اختیار کرنے کا موقع دیا گیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستان نے 1963ء کے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم پاکستان کا مؤقف تھا کہ یادیو سفارتکار نہیں، لہٰذا اس کا معاملہ عالمی عدالت انصاف کے رو برو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف کے صدر رونی ابراہام نے کہا کہ پاکستان اس مقدمہ کے حتمی فیصلے تک یادیو کو سزائے موت دینے سے اجتناب کرے۔
بارہ جج حضرات پر مشتمل ٹربیونل نے کہا کہ اس مقدمے پر حتمی فیصلے سے قبل کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ عالمی عدالت کا حکم بھارت اور پاکستان کی طرف سے یادیو مقدمہ پر ہونے والے دلائل مکمل کرنے کے بعد جاری ہوا۔ تاہم اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہو گئی۔
پاکستان جمہوریت کا دعویدار ہے اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو فوج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ بھی ان کی افہام و تفہیم تھی۔ عدالتی حکم اس وقت ہوا جب پاکستان اور بھارت کے وکیلوں نے یادیو کے بارے میں اپنے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
پاکستان میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے تحت جمہوریت نافذ ہے جنہوں نے آرمی کی حمایت سے ملک کی انتظامیہ پر حکومت کی، نواز شریف بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں تھے۔ اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ان کے تعلقات کا یہ عالم تھا کہ دونوں مسئلہ کشمیر کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ مصالحت کا وہ فارمولا طشت ازبام نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلقات کی بہتری کی صورت میں تمام مسائل خود ہی حل ہو جاتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے، تعلقات بہتر ہوتے تو یادیو کی فیملی سے ملاقات کو سراہا جاتا اور سیکیورٹی کے بہانے سے فیملی کے ارکان کے درمیان رکاوٹیں حائل نہ کی جاتیں۔ یادو کی ماں کو اس کی اپنی زبان یعنی مراٹھی میں اپنے بیٹے سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جوکہ ان کی مادری زبان تھی جو اس قسم کی صورتحال پر فطری طور پر بولی جاتی ہے۔
ممکن ہے پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اس بارے میں یہ رائے نہ ہو کیونکہ شنید ہے کہ وہ بھی تعلقات کی بحالی کے حق میں ہیں اس لیے وہ بھی اس صورتحال کو پسند نہ کرتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک کی داخلی سیاست اس راستے میں حائل ہو گئی ہو۔ لیکن اب نواز شریف احتساب کے باعث اپنی آواز کھو چکے ہیں اس لیے وہ سرخمیدہ لگتے ہیں۔
لیکن بھارت میں چیزیں مختلف ہیں، یہاں ایک شخص یعنی نریندر مودی کا پوری ایڈمنسٹریشن پر مکمل کنٹرول ہے۔ حالانکہ ان کے فیصلے آمرانہ لگتے ہیں۔ ان کی حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ یادیو کی جان ان کی باہمی الجھنوں کی نذر نہ ہو جائے۔ نئی دہلی کو ثالثی کے لیے نئے ذرایع کھوجنا ہوں گے۔ شاید سول سوشل ادارے ان کی مدد کر سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے مودی کی تمام تر توجہ عقبی دروازے سے ہندوتوا کو ملک میں لانے کی ہے۔ اس وجہ سے ان کا یادیو جیسے چھوٹے موٹے معاملات پر کوئی دھیان نہیں ہے۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ایک شرط پیش کی ہے۔ اسلام آباد ضمانت دے کہ دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بنے گا۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسٹیک ہولڈرز اسلام آباد حکومت کے زیر نگیں نہیں، بلوچستان بھی پہلو تہی کر رہا ہے اور یہ وہی صوبہ ہے جہاں سے یادیو گرفتار ہوا۔
نئی دہلی نے پاکستان کو بارہا یقین دلایا ہے کہ بھارت پاکستان کی یکجہتی کا اتنا ہی خواہاں ہے جتنا اپنی یکجہتی چاہتا ہے۔ حافظ سعید پر اقوام متحدہ نے بھی انگلی اٹھا دی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
بینظیر بھٹو کا بیٹا بلاول پیپلزپارٹی پر کنٹرول حاصل کر رہا ہے لیکن اس کے پاس سابق وزیراعظم پاکستان کا بیٹا ہونے کے سوا اور کوئی دیگر اسناد نہیں ہیں۔ اصل اختیار آصف زرداری کے پاس ہے مگر یہ الگ بات کہ اسے پیپلزپارٹی کے بہت سے لوگ بھی پسند نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں یادیو کی قسمت پر کوئی قیاس آرائی نہیں ہو سکتی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)