شہباز عمران اور بلاول
شہباز شریف عمران خان اور بلاول کے مقابلے میں سب سے محنتی اور تجربے کار ہیں جن کی کارکردگی سب پر عیاں ہے۔
CHAKWAL:
اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے بالکل درست کہا ہے کہ 2018ء میں وزیر اعظم کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سے جس پر عوام نے اعتماد کیا، وہی پارٹی اپنا وزیر اعظم لانے کے لیے کسی کو نامزد کرے گی۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد عمران خان اور بلاول زرداری وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس وزیر اعظم کا امیدوار سامنے نہیں آیا تھا اور شہباز شریف اور مریم نواز ہی کے سامنے آنے کی خبریں تھیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار سامنے لاکر الیکشن لڑنا ہے اور اس کے لیے واضح کرنا ضروری تھا، آیندہ انتخابات کے لیے میاں شہباز شریف کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اب فیصلہ عوام ہی نے کرنا ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما کہتے آ رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر عام انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گے اور مسلم لیگ کی طرف سے شہباز شریف کا اعلان وقت کی ضرورت تھی اور کارکردگی کی بنیاد پر شہباز شریف ہی اس کے حقدار تھے۔ عمران خان کے بعد اب پیپلز پارٹی نے بھی شہباز شریف کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے اور طاہر القادری کی طرح خود ہی عدالت بن کر شہباز شریف کو قاتل تک قرار دے دیا ہے جب کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں انھیں مبینہ طور پر بھی قاتل قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر قتل کا کوئی مقدمہ قائم ہوا ہے۔
ملک کی تین بڑی جماعتوں میں بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کے پاس شہباز شریف ایک مضبوط امیدوار ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے عمران خان وزیر اعظم بننے کے لیے ملک میں ابھی سے جلسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی فی الحال بلاول زرداری کو آگے لا رہی ہے جو صرف بینظیر بھٹو کے فرزند اور پی پی کے چیئرمین ہیں جب کہ سابق صدر آصف زرداری سیاست میں موجود اور تجربے کار زیرک سیاستدان ہیں جب کہ بلاول سب میں کم عمر، سیاست میں نووارد، ناتجربے کار ہیں جنھوں نے اب تک کوئی الیکشن ہی نہیں لڑا۔ پیپلز پارٹی کو اگر معقول نشستیں مل گئیں تو آصف زرداری خود آگے آجائیں گے کیونکہ وہ پی پی کے شریک چیئرمین اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر اور شہباز شریف اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کی سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے یا خوشنما دعوؤں کے اسیر ہوجائیں گے یا کرپشن کو مسترد کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں مگر بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں ملک بھر میں عوام نے پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں دلا کر چوتھی بار اقتدار دلایا تھا۔
2013ء میں آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہوگئی تھی جس کے بعد آصف زرداری خود پس پردہ ہیں اور بلاول کو سامنے لائے ہیں جن پر کرپشن کا الزام تو نہیں مگر ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور سندھ میں پی پی کی مبینہ کرپشن کو بنیاد بناکر تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس عام انتخابات میں حصہ لے گا اور دونوں ہی پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگا کر انتخابی مہم چلائیں گے جب کہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت کی عملی کارکردگی میڈیا کے اشتہاروں میں تو بتائی جا رہی ہے جس پر عوام اعتماد کریں گے تو پی پی کی بات بنے گی۔ عوام کی عملی خدمت میں صرف پنجاب حکومت ہی نمایاں ہے جس کے بعد کے پی کے اور بعد میں سندھ کا نام آرہا ہے باقی صرف اشتہاری پروپیگنڈا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی جماعتیں ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے منشور پیش کرتی ہیں جن میں عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور بہ مشکل ہی کسی وعدے پر عمل ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی ابتدائی سیاست میں پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ملک بھر میں مشہور ہوا تھا مگر پی پی کے ناقدین کے مطابق پیپلز پارٹی اپنی چار حکومتوں میں بھی یہ وعدہ پورا نہ کرسکی اور اب تو پیپلز پارٹی اپنا یہ نعرہ بھول ہی چکی ہے۔
2013ء میں نواز شریف کی مسلم لیگ نے ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے منشور پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی جس پر (ن) لیگ کے دعوؤں کے مطابق نومبر میں ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ ختم کرا دی گئی ہے جس کی حقیقت عوام ہی جانتے ہیں مگر بعض علاقوں میں اب بھی لوڈ شیڈنگ کی شکایات موجود ہیں اور ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی تو ملک کا شاید حصہ ہی نہیں جہاں موسم سرما میں بھی کے الیکٹرک لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں قومی سطح کی بڑی پارٹیوں کے تین امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اپنی انتخابی سرگرمیاں شروع کرچکی ہیں اور ان کے پاس کارکردگی میں پیپلز پارٹی سب سے پیچھے ہے اور مسلم لیگ (ن) سب سے آگے اور پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر ہے اور تینوں میں ایک دوسرے پر مختلف الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کے نزدیک شریف برادران اور آصف زرداری کرپٹ اور وہ خود پاک صاف ہیں۔ پیپلز پارٹی عمران خان پر کرپشن کا تو نہیں بلکہ سیاست نہ جاننے، گالیوں کی سیاست کرنے اور جھوٹ بولنے کے الزامات لگا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کرپشن کی بات تو کم کرتی ہے مگر شریف برادران پر ملک تباہ کرنے کا الزام لگا رہی ہے اور آصف زرداری کے پی کے حکومت پر کرپشن اور بنی گالا اور جہانگیر ترین کے جہازوں کے اخراجات ادا کرنے کا بھی الزام لگا چکے ہیں مگر پی ٹی آئی نے اس الزام کا جواب نہیں دیا۔
تینوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی اپنا منشور بنایا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کا کوئی بھی اچھا کام انھیں نظر نہیں آرہا صرف برائیاں نظر آرہی ہیں۔ بلاول زرداری کو جو لکھ کر دیا جاتا ہے وہ پڑھ دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ پر مسلسل برس رہے ہیں اور نظام عدل کی باتیں کر رہے ہیں جب کہ وہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔
شہباز شریف عمران خان اور بلاول کے مقابلے میں سب سے محنتی اور تجربے کار ہیں جن کی کارکردگی سب پر عیاں ہے مگر ان کے مخالف انھیں قاتل بنائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی اپنی کارکردگی کچھ نہیں بس مستقبل کے لیے دعوے ہیں اور بلاول زرداری دونوں سے بہت پیچھے نظر آرہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے بالکل درست کہا ہے کہ 2018ء میں وزیر اعظم کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سے جس پر عوام نے اعتماد کیا، وہی پارٹی اپنا وزیر اعظم لانے کے لیے کسی کو نامزد کرے گی۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد عمران خان اور بلاول زرداری وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس وزیر اعظم کا امیدوار سامنے نہیں آیا تھا اور شہباز شریف اور مریم نواز ہی کے سامنے آنے کی خبریں تھیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار سامنے لاکر الیکشن لڑنا ہے اور اس کے لیے واضح کرنا ضروری تھا، آیندہ انتخابات کے لیے میاں شہباز شریف کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اب فیصلہ عوام ہی نے کرنا ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما کہتے آ رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر عام انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گے اور مسلم لیگ کی طرف سے شہباز شریف کا اعلان وقت کی ضرورت تھی اور کارکردگی کی بنیاد پر شہباز شریف ہی اس کے حقدار تھے۔ عمران خان کے بعد اب پیپلز پارٹی نے بھی شہباز شریف کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے اور طاہر القادری کی طرح خود ہی عدالت بن کر شہباز شریف کو قاتل تک قرار دے دیا ہے جب کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں انھیں مبینہ طور پر بھی قاتل قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر قتل کا کوئی مقدمہ قائم ہوا ہے۔
ملک کی تین بڑی جماعتوں میں بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کے پاس شہباز شریف ایک مضبوط امیدوار ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے عمران خان وزیر اعظم بننے کے لیے ملک میں ابھی سے جلسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی فی الحال بلاول زرداری کو آگے لا رہی ہے جو صرف بینظیر بھٹو کے فرزند اور پی پی کے چیئرمین ہیں جب کہ سابق صدر آصف زرداری سیاست میں موجود اور تجربے کار زیرک سیاستدان ہیں جب کہ بلاول سب میں کم عمر، سیاست میں نووارد، ناتجربے کار ہیں جنھوں نے اب تک کوئی الیکشن ہی نہیں لڑا۔ پیپلز پارٹی کو اگر معقول نشستیں مل گئیں تو آصف زرداری خود آگے آجائیں گے کیونکہ وہ پی پی کے شریک چیئرمین اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر اور شہباز شریف اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کی سیاسی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے یا خوشنما دعوؤں کے اسیر ہوجائیں گے یا کرپشن کو مسترد کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں مگر بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں ملک بھر میں عوام نے پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں دلا کر چوتھی بار اقتدار دلایا تھا۔
2013ء میں آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہوگئی تھی جس کے بعد آصف زرداری خود پس پردہ ہیں اور بلاول کو سامنے لائے ہیں جن پر کرپشن کا الزام تو نہیں مگر ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور سندھ میں پی پی کی مبینہ کرپشن کو بنیاد بناکر تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس عام انتخابات میں حصہ لے گا اور دونوں ہی پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگا کر انتخابی مہم چلائیں گے جب کہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت کی عملی کارکردگی میڈیا کے اشتہاروں میں تو بتائی جا رہی ہے جس پر عوام اعتماد کریں گے تو پی پی کی بات بنے گی۔ عوام کی عملی خدمت میں صرف پنجاب حکومت ہی نمایاں ہے جس کے بعد کے پی کے اور بعد میں سندھ کا نام آرہا ہے باقی صرف اشتہاری پروپیگنڈا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات قریب آتے ہی سیاسی جماعتیں ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے منشور پیش کرتی ہیں جن میں عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور بہ مشکل ہی کسی وعدے پر عمل ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی ابتدائی سیاست میں پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ملک بھر میں مشہور ہوا تھا مگر پی پی کے ناقدین کے مطابق پیپلز پارٹی اپنی چار حکومتوں میں بھی یہ وعدہ پورا نہ کرسکی اور اب تو پیپلز پارٹی اپنا یہ نعرہ بھول ہی چکی ہے۔
2013ء میں نواز شریف کی مسلم لیگ نے ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے منشور پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی جس پر (ن) لیگ کے دعوؤں کے مطابق نومبر میں ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ ختم کرا دی گئی ہے جس کی حقیقت عوام ہی جانتے ہیں مگر بعض علاقوں میں اب بھی لوڈ شیڈنگ کی شکایات موجود ہیں اور ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی تو ملک کا شاید حصہ ہی نہیں جہاں موسم سرما میں بھی کے الیکٹرک لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں قومی سطح کی بڑی پارٹیوں کے تین امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اپنی انتخابی سرگرمیاں شروع کرچکی ہیں اور ان کے پاس کارکردگی میں پیپلز پارٹی سب سے پیچھے ہے اور مسلم لیگ (ن) سب سے آگے اور پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر ہے اور تینوں میں ایک دوسرے پر مختلف الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کے نزدیک شریف برادران اور آصف زرداری کرپٹ اور وہ خود پاک صاف ہیں۔ پیپلز پارٹی عمران خان پر کرپشن کا تو نہیں بلکہ سیاست نہ جاننے، گالیوں کی سیاست کرنے اور جھوٹ بولنے کے الزامات لگا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کرپشن کی بات تو کم کرتی ہے مگر شریف برادران پر ملک تباہ کرنے کا الزام لگا رہی ہے اور آصف زرداری کے پی کے حکومت پر کرپشن اور بنی گالا اور جہانگیر ترین کے جہازوں کے اخراجات ادا کرنے کا بھی الزام لگا چکے ہیں مگر پی ٹی آئی نے اس الزام کا جواب نہیں دیا۔
تینوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی اپنا منشور بنایا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کا کوئی بھی اچھا کام انھیں نظر نہیں آرہا صرف برائیاں نظر آرہی ہیں۔ بلاول زرداری کو جو لکھ کر دیا جاتا ہے وہ پڑھ دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ پر مسلسل برس رہے ہیں اور نظام عدل کی باتیں کر رہے ہیں جب کہ وہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔
شہباز شریف عمران خان اور بلاول کے مقابلے میں سب سے محنتی اور تجربے کار ہیں جن کی کارکردگی سب پر عیاں ہے مگر ان کے مخالف انھیں قاتل بنائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی اپنی کارکردگی کچھ نہیں بس مستقبل کے لیے دعوے ہیں اور بلاول زرداری دونوں سے بہت پیچھے نظر آرہے ہیں۔