برعکس صورتحال
ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ بس نیک اور صالح بن جاؤ، پروگرام جبھی پیش کریں گے جب خود عامل ہوں۔
ISLAMABAD:
حضرت امام غزالیؒ نے فرمایا، رب العزت نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نبوت اور بادشاہت دونوں کو جمع کر دیا تھا، اس سے قبل کسی کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ بن گیا ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، نہیں بلکہ وہ تو نبوت کی وجہ سے ہے اور دنیا نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس تحمل درگزر اور شان عبدیت کا مظاہرہ فرمایا، جب آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو عامل بنایا تو شریعت اسلامی کی نگرانی اور نبوت والے احکام کے مفہوم میں مقرر فرمایا نہ کہ بادشاہی کے طرز پر۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک ساٹھ برس ہوگئی لیکن اس عمر میں بھی حکومت کے تمام کام خود انجام دیتے تھے، ولاۃ اور عمال کا تقرر، موذنین اور ائمہ کا تعین، محصلین زکوٰۃ و جزیہ کی نامزدگی، غیر قوموں سے مصالحت، مسلمان قبائل میں جائیدادوں کی تقسیم، فوجوں کی آراستگی، مقدمات کا فیصلہ، قبائل کی خانہ جنگیوں کا انسداد، وفود کے لیے تعین وظائف، اجرائے فرامین، نو مسلموں کے انتظامات خود کرتے تھے، جرائم کے لیے اجرائے تعزیر، ملک کے بڑے بڑے سیاسی انتظامات، عہدیداروں کی خبرگیری اور احتساب، مدینہ اور اطراف مدینہ کے فرائض آپؐ خود انجام دیتے تھے۔
چھوٹے چھوٹے غزوات و سرایا کے امیر الحبیش اگرچہ اکابر صحابہ ہوتے تھے، لیکن جو بڑے معرکے پیش آتے تھے، ان کی قیادت خود آپؐ بہ نفس نفیس فرماتے تھے۔ چنانچہ بدر، احد، خیبر، فتح مکہ، تبوک میں خود آپؐ ہی امیرالعساکر تھے۔ اس کا مقصد صرف فوج کا لڑانا اور آخری فتح و ظفر حاصل کرنا نہ تھا، بلکہ فوج کی عام اخلاقی اور روحانی نگرانی کرنا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے مجاہدین اسلام کی جن معمولی معمولی بے اعتدالیوں پر گرفت فرمائی ہے وہ احادیث میں بہ تصریح مذکور ہیں اور اسلام کا قانون جنگ اسی داروگیر کے ذریعے سے وجود میں آیا ہے۔
فارس میں جب جنگ ہوئی ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی تعداد کل تیس یا تینتیس ہزار تھی، فارسیوں کا تین لاکھ کا لشکر تھا پھر فارس کی فوجیں کیل کانٹے سے مسلح وردیاں غذائیں اور دیگر سازو سامان کے ساتھ تھیں جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین محض دوریشوں کا ایک لشکر، وردی تو یہ ہے کہ کسی کے پسا کرتہ نہیں ہے تو کوئی لنگی باندھے ہوئے ہے کسی کے پاس لمبا کرتہ کسی کے سر پر پگڑی نہیں تو رسی باندھ رکھی ہے کسی کے ہاتھ میں نیزا، کسی کے ہاتھ میں تلوار، کسی کے ہاتھ میں خنجر، ہتھیار، لباس نہ غذائیں کچھ بھی باقاعدہ نہیں، درویشوں کا لشکر ہے، مگر کیفیت یہ تھی، لاکھوں فارسی آتے تھے، جب صحابہ رضوان اللہ اجمعین بھوکے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے تو وہ بلیوں کی طرح بھاگتے تھے اور یہ غالب تھے، پورے فارس میں ایک تہلکہ مچ گیا، فارس کا سب سے بڑا سپہ سالار رستم تھا۔
آپ نے رستم پہلوان کا نام سنا ہوگا وہ کمانڈر ان چیف تھا، اس نے تمام سرداروں اور کمانڈروں کو جمع کیا اور کہا کہ یہ غضب کی بات ہے کہ ہمارا لشکر تین لاکھ اور عرب کے بدو کل تیس ہزار، پھر ان کے پاس سامان باقاعدہ نہیں، ہمارے پاس سامان ہے، انھیں مدد نہیں پہنچ رہی جب کہ ہمارے پیچھے پورا ملک ہے۔ یہ ہمارے ملک میں حملہ کرنے آئے ہیں ان کا ملک دور رہ گیا یہ ہمارے ملک میں گھرے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود حملہ کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بھوکے شیر ہیں اور تم فارسی اس طرح سے بھاگتے ہو جیسے لومڑیاں بھاگتی ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے؟ تمہارے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ سرداروں نے کہا: اے رستم اگر آپ سچی بات پوچھیں ہم بتلادیں مگر ہماری جان کی بخشش کردی جائے امان دیا جائے کہ ہمیں قتل تو نہیں کیا جائے گا۔ اس نے کہا تمہاری جان کو امان دی جاتی ہے۔ اب سرداروں نے مل کر کہا: اے رستم یہ مٹھی بھر عرب تیرے ملک پر غالب آکر رہیں گے انھی کا قبضہ ہوگا انھی کی حکومت ہوگی۔ پورا فارس ان کی تسلط میں آئے گا۔ یہ نہیں ہاریں گے تم ہاروگے۔ رستم نے کہا کیوں؟ انھوں نے کہا: اس وجہ سے کہ ان کی شان یہ ہے:
ھم بالیل رھبان و بالنھار فرسان۔
دن بھر یہ گھوڑے کی پشت پر سوار جہاد میں مصروف ہیں اور رات میں مصلے کی پشت پر سوار ہیں اللہ کے آگے گڑگڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مالک! ہم میں کوئی طاقت نہیں، طاقت والا تو ہے، ہم تیرے سپاہی ہیں۔ تو اگر ہمیں فتح دے گا تو ہم فتح یاب ہوجائیں گے۔ تو اگر ہمیں شکست دے گا تو ہم شکست کھا جائیں گے ہمارے اندر کوئی طاقت اور قوت نہیں، قوت و سلطنت تیری ہی ہے۔ یہ رات بھر اللہ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں۔
عجز و نیاز سے پیشانی سرزمین پر رگڑتے ہیں اور دن کو گھوڑے کی پشت پر سوار رہتے ہیں اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جس گاؤں میں جاتے ہیں اگر کھیتیاں جلی ہوئی ہوتی ہیں تو سرسبز ہوجاتی ہیں، یہ دوسروں کی بیٹیوں کی ایسے ہی حفاظت کرتے ہیں۔ جیسے اپنی بہو بیٹیوں کی کرتے ہیں، اور اے رستم تیرے لشکر کا تو یہ حال ہے کہ شرابیں پیتے ہیں، جس گاؤں میں جا پڑتے ہیں، کھیتیاں سب برباد ہوجاتی ہیں، یہ اثرات تیری فوج کے ہیں، اور یہ افعال ان کی فوج کے ہیں، تو غلبہ تجھے ہوگا یا ان کو ہوگا؟ لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین راتوں کو مصلے کی پشت پر عبادت میں مصروف اور دنوں کو گھوڑے کی پشت پر سوار اللہ کے نائب بن کر دنیا کی اصلاح کے درپے تھے، تو درحقیقت رستم اور اس کے سرداروں نے پہچانا کہ ان بزرگوں میں یہی دو چیزیں تھیں۔
ایک طرف یہ عبادت میں کامل اور ایک طرف خلافت میں کامل، ایک طرف سرنیاز اللہ کے سامنے جھکا ہوا ہے ایک طرف اس کی مخلوق کی اصلاح کے لیے دنیا میں سفر کر رہے ہیں جو مفسد سامنے آتا ہے، اسے راستے سے ہٹا دیتے ہیں، تاکہ دین پہنچ سکے اور لوگ دین کے اوپر عمل کرسکیں۔
حدیث میں فرمایا گیا جب کوئی قوم میرے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے اور گناہوں میں ملوث ہوتی ہے، میں دنیا کی اقوام کے دلوں میں ان کے لیے دشمنی اور عداوت ڈال دیتا ہوں، یہ درحقیقت میری طرف سے وہ قومیں جلاد بن کے کھڑی ہوتی ہیں تاکہ معصیت چھڑا دیں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں اگر یہ چیزیں تمہیں ناگوار ہو کہ دنیا کی قومیں تم پر غالب آجائیں اور تمہیں سزائیں دیں ان بادشاہوں کو برا مت کہو، میرے سے معاملہ درست کرلو۔ میں عداوت کے بجائے ان کے دلوں میں محبت ڈال دوں گا۔
آج جو قومیں نفرت کرتی ہیں، کل کو وہ تمہاری طرف مائل ہوجائیں گی، دشمنی کرنے کے بجائے تمہاری خادم بن جائیں گی، قلوب تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب آدمی اللہ کا نائب بن کے اس کے کام کے لیے کھڑا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا اس کی عداوت پر ہی کمربستہ رہے؟ ایک نہ ایک دن عداوت ختم کردینی پڑے گی۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ ہمیں دوسروں کا اقتدار چھیننا ہے نہ دولت چھیننی ہے نہ کسی قوم سے حسد ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ بس نیک اور صالح بن جاؤ، پروگرام جبھی پیش کریں گے جب خود عامل ہوں۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو استحکام حاصل ہو، ملک داخلی اور خارجی طور پر مستحکم ہو تو پھر ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم ایسی مخلص اور جرأت مند قیادت منتخب کریں ، جو عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو۔