قومی تشکیل تاریخ کے آئینے میں
آج ہم جن معنوں اور مفہوم میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں، یہ ماضی میں نہیں تھا۔
ISLAMABAD:
تاریخ میں نیشنل ازم نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس کے نتائج مثبت ہوئے یا منفی؟ نیشنل ازم نے یورپ میں قومی ریاستوں کو پیدا کیا، جس کے نتیجے میں کالونیل ازم، امپیریل ازم پھیلا، جس کے ردعمل میں تسلط شدہ ملکوں میں نیشنل ازم کے تحت تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے کالونیل تسلط سے آزادی حاصل کی، آزادی کے بعد ان ملکوں میں اسی نیشنل ازم کو حکمراں طبقوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، اور یہ نو آزاد ریاستیں ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور فوجی آمریتوں کا نشانہ بنیں۔
اب ایک بار پھر گلوبلائزیشن نیو امپیریل ازم کی شکل میں پوری قوت و طاقت سے آرہا ہے، اس لیے سوال ہے کہ کیا اسے نیشنل ازم کے ذریعے روکا جاسکے گا؟ یا اب نیشنل ازم کا نظریہ فرسودہ اور بیکار ہوکر اپنی اہمیت کھوچکا، اور معاشرے اس کی بے معنویت اور کھوکھلے پن سے آگاہ ہوچکے ہیں؟
آج ہم جن معنوں اور مفہوم میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں، یہ ماضی میں نہیں تھا، کیونکہ الفاظ کے معنی معاشرے کی ترقی اور تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کوہن نے اس سلسلے میں لکھا کہ یونانیوں اور یہودیوں میں ایک جماعت ہونے کا احساس اور گہرا شعور تھا۔ یونانی اپنے علاوہ دوسروں کو باربیرین یا غیر مہذب کہتے تھے۔ یہودی خود کو خدا کی پسندیدہ مخلوق اور باقی لوگوں کو اپنے سے جدا سمجھتے تھے، چونکہ ان کا تعلق ایک ہی نسل سے تھا، ماضی بھی مشترک تھا، لیکن ایک خوش حال مستقبل کے لیے وہ کسی مسیحا کے منتظر تھے اور اس انتظار میں تکلیفیں و اذیتیں بھی برداشت کر رہے تھے۔ لیکن آج جن معنوں میں ہم قوم کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔
وہ انیسویں صدی میں یورپ کے سیاسی حالات اور تبدیلیوں کی وجہ سے ابھرا۔ پہلے جو لوگ گاؤں، دیہات میں علیحدہ علیحدہ حصوں میں بٹے رہتے تھے، اس وقت ان کو آپس میں یکجا کرنے کے لیے کوئی قومی شعور نہیں تھا، یہ قومی شعور جمہوری عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ ابھرا اور بکھرے لوگوں کو آپس میں ملادیا۔ عہد وسطیٰ میں برطانوی یا فرانسیسی قومیں اگرچہ موجود تھیں لیکن قومی شعور سے وہ بھی عاری جب کہ عہد وسطیٰ میں ہی معاشرہ امرا اور رعایا میں تقسیم تھا، لیکن جمہوریت نے انھیں قومی شعور فراہم کیا تو افراد ایک قوم میں تبدیل ہوگئے، جس میں ہر طبقہ فکر شامل بھی تھا اور ایک بھی۔
قوم کے سلسلے میں عام طور پر اسٹالن کے نظریے کو ضرور بیان کیا جاتا ہے، اس کے مطابق قوم کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام کے ابھار سے ہے، اس کے بقول یہ ایک مضبوط اور مستحکم کمیونٹی ہوتی ہے، جس میں کئی ایتھنک جماعتیں شامل ہوتی ہیں، جو آپس میں مل کر ایک قوم کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ وہ اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ قوم کی ایک زبان ہوتی ہے، اس کا مخصوص علاقہ ہوتا ہے، معاشی طور پر مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے بندھی ہوتی ہیں، جو ایک قومی کردار اور خصو صیات کو پیدا کرتی ہیں۔ لیکن اسٹالن کی اس تعریف پر یہ اعتراض ہوا کہ قوموں میں ایک سے زیادہ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، دوسری بات یہ کہ کالونیل دور میں نو آبادیات کی معیشت پر مغربی طاقتوں کا قبضہ تھا، مگر اس کے باوجود ان ممالک میں قومی شعور ابھرا۔
بینی ڈک اینڈریسن نے قوم کی تشکیل میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کو اہمیت دی، اس کے مطابق اس سے پہلے قوم کی شکل تصوراتی تھی، کیونکہ مختلف برادریاں اور جماعتیں جو بعد میں ایک قوم بنیں، وہ ایک دوسرے سے واقف ہی نہیں تھیں، یہ لوگ نہ ان سے ملے ہوتے تھے اور نہ ہی ان کے بارے میں سنا ہوا ہوتا تھا، لیکن ان کے بارے میں ان کی تخیلاتی یا تصوراتی آگہی ضرور ہوتی تھی، لہٰذا پرنٹ میڈیا نے یورپین معاشرے میں ایک انقلاب کو جنم دیا۔ 1500 صدی عیسوی میں یورپ میں دو کروڑ کتابیں شایع ہوئیں۔ اس وقت یورپ کی کل آبادی صرف دس کروڑ تھی، جب کہ زبان علمی لاطینی تھی، جسے ریفارمیشن نے چیلنج کیا اور مقامی زبانوں کو اس کے بعد فروغ حاصل ہوا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جب علم و ادب مقامی زبانوں میں منتقل ہوکر عوام الناس تک پہنچا تو ان کے قومی اور سیاسی شعور میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ جب لوتھر نے 1527ء میں اپنے 99 نکات، جو چرچ کے خلاف تھے، وہ جرمن زبان میں شایع کروائے تو یہ پورے جرمنی میں پھیل گئے اور اسے جرمن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کی حمایت بھی مل گئی۔
جرمن زبان میں بائبل کے 430 ایڈیشن شایع ہوئے۔ لیکن انڈریسن کی دلیل کا اگر برصغیر پاک و ہند پر اطلاق کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے یہاں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں جب الہلال، البلاغ، پیغام اور زمیندار اخبارات شایع ہونے شروع ہوئے تو انھوں نے پورے ملک میں بکھرے ہوئے مسلمانوں میں احساسِ یکجہتی پیدا پیدا کیا۔ ان ہی اخبارات نے جب بلقان کی جنگوں میں ترکی کی شکستوں اور بعد میں جب خلافت کے بارے میں مضامین چھاپے اور خبریں پہنچائیں تو اس نے پان۔اسلام ازم کو ابھارا۔ اخباری زبان چونکہ اردو تھی، اس لیے اسلامی نیشنل ازم کو پیدا کرنے میں اس کا اہم کردار رہا۔
آگے چل کر جب سیاست میں یہ بحث شروع ہوئی کہ آخر قوم کی تشکیل میں کیا مذہب حصہ لیتا ہے، یا جغرافیائی عوامل؟ تو اقبال نے مذہب کی بنیاد پر قوم کی تعریف کی، جب کہ مولانا حسین احمد مدنی نے وطن کو قوم کی تشکیل کا ذریعہ بتایا۔ اس تناظر میں دو قومی نظریہ کو سمجھا جاسکتا ہے کہ جس کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم ہوا، اور اس سوال کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ تقسیم کے بعد دو قومی نظریہ ختم ہوگیا یا یہ ابھی باقی ہے، اور اگر باقی ہے تو اس کی شکل کیا ہے؟ اگر پاکستان بننے کے بعد بھی دو قومی نظریے کو باقی رکھا جاتا ہے تو اس صورت میں دوسرے مذاہب کے لوگ اس سے خارج ہوجاتے ہیں اور اگر ان کو شامل کیا جائے تو اس صورت میں اس کی تشریح جغرافیائی یا علاقائی ہوگی۔
ہم اپنے معاملے کا جائزہ لیں کہ ہم ستر سال میں کیوں ایک قوم نہ بن سکے اور کیوں قوم پرستی سے محروم رہے تو جو سب سے بڑی وجہ ہمارے سامنے آئے گی وہ اول انصاف کا دہرا معیار، وسائل کی تقسیم سمیت ہر چیز کا دہرا، تہرا معیار، جو ایک غریب کے لیے اور ایک امیر کے لیے اور۔ جس کی بدترین مثال سامنے بھی آچکی المعروف NRO، جس کے خالق پرویز مشرف سابق صدرِ پاکستان، جو اب یورپین سوسائٹی کا حصہ ہیں، اور ایک وہی کیا ہمارے تقریباً سبھی ریٹائرڈ افسران یورپ جا بستے ہیں یا امریکا۔ یہی جائے پناہ ان سول حکمرانوں کی ہے جنھیں عوام منتخب کرتے ہیں، وہ بھی اربوں کھربوں کی جائیدادیں بیرون ممالک بناکر اپنے بال بچے پال رہے ہوتے ہیں، عرف عام میں غریب ہیں یا غریب الوطن۔ تو قوم کیا بننی ہے اور نیشنل ازم کیا پیدا ہونا ہے؟