بربادی کے اسباب
حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟
اللہ تعالیٰ ہمارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں، خالق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم از خود نہیں بنے بل کہ اس ذات نے ہمیں وجود بخشا اور مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں جس کام کا حکم دے اور جس بات سے رکنے کا کہے اس کی تمام باتوں کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ جن باتوں اور کاموں کا حکم دیتے ہیں ان میں خیر ہوتی ہے اور جن امور سے بچنے اور رکنے کا حکم دیتے ہیں ان میں شر ہوتا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے کے اعتبار سے اس کے برخلاف بھی نظر آئے۔ جب تک کوئی قوم اللہ کے نازل کردہ احکامات پر چلتی رہتی ہے تب تک مجموعی طور اس پر تکالیف اور مصائب نہیں اترتیں لیکن جب اسی قوم کی اکثریت اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے تو خدا کی طرف سے مصائب و شدائد اس قوم کو گھیر لیتی ہیں۔ قرآن کریم میں سابقہ امّتوں کی تباہی، بربادی اور ہلاکت کے اسباب مذکور ہیں کہ فلاں قوم نے فلاں خدائی حکم سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر فلاں عذاب نازل فرمایا۔ قرآن کریم محض قصے کہانیوں کی کتاب نہیں جس میں قصہ برائے قصہ ہو بل کہ یہ کتاب عبرت کا درس دیتی ہے، انسان کو سوچنے کی دعوت فکر دیتی ہے۔
احکامات الٰہیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الٰہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبیؑ نے اپنی قوم کو دی ہے، خصوصاً جناب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی بہت تلقین فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امت کو یہی تعلیم دی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : '' جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو اللہ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کو گھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔'' ( موطا امام مالک، حدیث 1325)
حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟
٭ حرام خوری: مال کمانے میں حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے، جائز ناجائز سب چلتا ہے۔ سود، رشوت، ناحق غصب، لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری، ڈکیتی اور دھوکا بازی عام ہے۔ ہر شخص دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں بزدلی، مرعوبیت، خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
حرام خوری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان رزق حلال وافر مقدار میں کمائے، تمام جائز طریقے اختیار کرے۔ ملازمت، زراعت، تجارت کو شرعی بنیادوں پر کرے۔ رزق میں وسعت کی دعائیں کرے، حسب استطاعت صدقے کا اہتمام کرتا رہے۔ یہ اولیاء اللہ کا آزمودہ اور تجربہ شدہ عمل ہے اس سے رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے اور تنگی ختم ہوجاتی ہے۔
٭ زنا: ہمارے معاشرے کا ایک فیشن بن چکا ہے۔ زانی اسے اپنے لیے فخر کی بات سمجھتا ہے، دوستوں میں بیٹھ کربڑی دیدہ دلیری سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے العیاذ باللہ زنا کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے، ساری زندگی کے لیے اس کے خاندان کو کہیں منہ دکھانے کا نہیں چھوڑتا، اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے۔
کسی کی عزت کو داغ دار کرنا ہی بہت بڑا جرم ہے، خدا نہ خواستہ اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ باوجود پیکر عفت ہونے کے از خود اس گناہ کی دعوت دے تو شریعت کا حکم ہے اس وقت اس سے کہا جائے کہ '' میں اس بارے اللہ سے ڈرتا ہوں''۔ یہ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے۔ چناں چہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہوگا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہوگی اس وقت اللہ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے۔
زنا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسباب زنا چھوڑ دے۔ نامحرم کو دیکھنا، ملنا ملانا، میسجز کرنا، کال کرنا، میل ملاپ رکھنا وغیرہ۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور زنا جیسی لعنت سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ جب تک انسان بدنظری نہیں چھوڑتا، زنا سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس گناہ کی نحوست اور لازمی نتیجہ کثرت سے اموات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ باہمی لڑائیاں، بیماریاں اور قدرتی آفات پھیل جاتی ہیں اور حادثاتی طور پر مرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
٭ ناپ تول میں کمی:حرص و ہوس ایسا مرض ہے جو انسان کو گھٹیا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شروع میں یہ ایک نفسانی خواہش ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
اس کی طبیعت اور فطرت لالچ بن جاتی ہے۔ حدیث مبارک میں دراصل تاجروں کی ایک گندی خصلت کا تذکرہ ہے کہ وہ چند روپوں کی خاطر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، خرید و فروخت کے وقت جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں، دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں۔ مال تو بک جاتا ہے لیکن مال بکنے سے پہلے انسان کا ایمان بھی بک چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے گھروں میں خیر باقی نہیں رہتی۔ مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نظر نہیں آتی۔ اسباب تعیش کے باوجود راحت مقدر نہیں بن سکتی۔
ناپ تول کی کمی سے بچنے کے لیے قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا واقعہ پڑھیے، ان پر اس گناہ کی وجہ سے آنے والے عذاب کا تذکرہ پڑھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں جو اس بارے وعیدیں وارد ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں اور اللہ سے معافی مانگیں، توبہ استغفار کریں، یہ حقوق العباد ہیں، ان کا معاملہ حقوق اللہ سے بھی زیادہ نازک ہے۔ اس لیے اگر لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ اور ہیں تو ان کو یک ساں کرلیجیے۔
٭ ناانصافی: ظلم اور ناانصافی اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ انسان میں ظلم و انصافی کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ہو جاتا ہے اور خوف خدا اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ غلبہ و دبدبہ کا زعم اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ وہ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو مخالفین کے ساتھ معاملات کے نازک موقع پر بھی عدل کا حکم دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' کسی قوم سے دشمنی تمہیں عدل و انصاف کی خلاف ورزی پر مجبور نہ کرے۔ عدل کرو۔'' (سورۃ المائدہ، آیت نمبر 8)
اللہ تعالیٰ جن باتوں اور کاموں کا حکم دیتے ہیں ان میں خیر ہوتی ہے اور جن امور سے بچنے اور رکنے کا حکم دیتے ہیں ان میں شر ہوتا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے کے اعتبار سے اس کے برخلاف بھی نظر آئے۔ جب تک کوئی قوم اللہ کے نازل کردہ احکامات پر چلتی رہتی ہے تب تک مجموعی طور اس پر تکالیف اور مصائب نہیں اترتیں لیکن جب اسی قوم کی اکثریت اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے تو خدا کی طرف سے مصائب و شدائد اس قوم کو گھیر لیتی ہیں۔ قرآن کریم میں سابقہ امّتوں کی تباہی، بربادی اور ہلاکت کے اسباب مذکور ہیں کہ فلاں قوم نے فلاں خدائی حکم سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر فلاں عذاب نازل فرمایا۔ قرآن کریم محض قصے کہانیوں کی کتاب نہیں جس میں قصہ برائے قصہ ہو بل کہ یہ کتاب عبرت کا درس دیتی ہے، انسان کو سوچنے کی دعوت فکر دیتی ہے۔
احکامات الٰہیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الٰہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبیؑ نے اپنی قوم کو دی ہے، خصوصاً جناب نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی بہت تلقین فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امت کو یہی تعلیم دی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : '' جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو اللہ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کو گھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔'' ( موطا امام مالک، حدیث 1325)
حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟
٭ حرام خوری: مال کمانے میں حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے، جائز ناجائز سب چلتا ہے۔ سود، رشوت، ناحق غصب، لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری، ڈکیتی اور دھوکا بازی عام ہے۔ ہر شخص دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں بزدلی، مرعوبیت، خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
حرام خوری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان رزق حلال وافر مقدار میں کمائے، تمام جائز طریقے اختیار کرے۔ ملازمت، زراعت، تجارت کو شرعی بنیادوں پر کرے۔ رزق میں وسعت کی دعائیں کرے، حسب استطاعت صدقے کا اہتمام کرتا رہے۔ یہ اولیاء اللہ کا آزمودہ اور تجربہ شدہ عمل ہے اس سے رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے اور تنگی ختم ہوجاتی ہے۔
٭ زنا: ہمارے معاشرے کا ایک فیشن بن چکا ہے۔ زانی اسے اپنے لیے فخر کی بات سمجھتا ہے، دوستوں میں بیٹھ کربڑی دیدہ دلیری سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے العیاذ باللہ زنا کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے، ساری زندگی کے لیے اس کے خاندان کو کہیں منہ دکھانے کا نہیں چھوڑتا، اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے۔
کسی کی عزت کو داغ دار کرنا ہی بہت بڑا جرم ہے، خدا نہ خواستہ اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ باوجود پیکر عفت ہونے کے از خود اس گناہ کی دعوت دے تو شریعت کا حکم ہے اس وقت اس سے کہا جائے کہ '' میں اس بارے اللہ سے ڈرتا ہوں''۔ یہ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے۔ چناں چہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہوگا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہوگی اس وقت اللہ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے۔
زنا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسباب زنا چھوڑ دے۔ نامحرم کو دیکھنا، ملنا ملانا، میسجز کرنا، کال کرنا، میل ملاپ رکھنا وغیرہ۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور زنا جیسی لعنت سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ جب تک انسان بدنظری نہیں چھوڑتا، زنا سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس گناہ کی نحوست اور لازمی نتیجہ کثرت سے اموات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ باہمی لڑائیاں، بیماریاں اور قدرتی آفات پھیل جاتی ہیں اور حادثاتی طور پر مرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
٭ ناپ تول میں کمی:حرص و ہوس ایسا مرض ہے جو انسان کو گھٹیا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شروع میں یہ ایک نفسانی خواہش ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
اس کی طبیعت اور فطرت لالچ بن جاتی ہے۔ حدیث مبارک میں دراصل تاجروں کی ایک گندی خصلت کا تذکرہ ہے کہ وہ چند روپوں کی خاطر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، خرید و فروخت کے وقت جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں، دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں۔ مال تو بک جاتا ہے لیکن مال بکنے سے پہلے انسان کا ایمان بھی بک چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے گھروں میں خیر باقی نہیں رہتی۔ مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نظر نہیں آتی۔ اسباب تعیش کے باوجود راحت مقدر نہیں بن سکتی۔
ناپ تول کی کمی سے بچنے کے لیے قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا واقعہ پڑھیے، ان پر اس گناہ کی وجہ سے آنے والے عذاب کا تذکرہ پڑھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں جو اس بارے وعیدیں وارد ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں اور اللہ سے معافی مانگیں، توبہ استغفار کریں، یہ حقوق العباد ہیں، ان کا معاملہ حقوق اللہ سے بھی زیادہ نازک ہے۔ اس لیے اگر لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ اور ہیں تو ان کو یک ساں کرلیجیے۔
٭ ناانصافی: ظلم اور ناانصافی اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ انسان میں ظلم و انصافی کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ہو جاتا ہے اور خوف خدا اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ غلبہ و دبدبہ کا زعم اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ وہ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو مخالفین کے ساتھ معاملات کے نازک موقع پر بھی عدل کا حکم دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے، مفہوم : '' کسی قوم سے دشمنی تمہیں عدل و انصاف کی خلاف ورزی پر مجبور نہ کرے۔ عدل کرو۔'' (سورۃ المائدہ، آیت نمبر 8)