بھارتی ماہی گیروں کی خیر سگالی کے تحت رہائی
دفتر خارجہ کے مطابق 291 ماہی گیر 8 جنوری تک دو مرحلوں میں بھارت روانہ کیے جائیں گے۔
پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے باوجود پاکستان کی طرف سے جمعرات کو ملیر جیل سے رہائی پانے والے 145 بھارتی ماہی گیروں کو سخت سیکیورٹی میں کراچی کینٹ اسٹیشن سے بذریعہ علامہ اقبال ایکسپریس لاہور روانہ کر دیا گیا، جہاں سے وہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارت جائیں گے۔
بھارت کے موقر اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' نے اسے پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا اظہار قرار دیا جو بھارتی جاسوس کلبھوشن کی ان کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کے تناظر میں ایک مستحسن قدم تھا تاہم اس خیرسگالی کا جواب انڈین میڈیا نے جس اخلاقی و سفارت کارانہ دیوالیہ پن اور ہرزہ سرائی سے دیا ہے اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم خبر کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی طرف سے قیدی ماہی گیروں کو تحائف اور 5 ہزار روپے فی کس دیے گئے، انھیں ایک سال قبل سمندری حدود کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا، بھارتی ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ جیل حکام کا ہمارے ساتھ رویہ اچھا تھا، میڈیا کے مطابق پاکستان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کیے گئے 145 بھارتی قیدی واہگہ بارڈر پر بھارتی بارڈر فورس حکام کے حوالے کیے جائیں گے۔
حقیقت میں پاکستانی اور بھارتی ماہی گیروں کی بحری حدود کی خلاف ورزی کے باعث گرفتاریوں کی کہانی انتہائی دردناک ہے کیونکہ ابھی تک بحیرہ عرب اور بحر ہند کی سمندری حدود اور ڈیپ سی میں میرین بارڈر کا کوئی اصولی فارمولہ اور سائنسی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا ہے جب کہ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی جدید سائنسی آلات اور بحری سمت اور حدود کے فنی تعین کے قابل نہیں، چنانچہ برس ہا برس سے ماہی گیروں کی دوطرفہ گرفتاری اور انھیں جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رکھنے سے ناقابل بیان مصائب اور المیے جنم لے چکے ہیں۔
سیکڑوں ماہی گیر بیماری اور غربت و بے بسی کی حالت میں وطن لوٹنے پر بھی ماہی گیری کے قابل نہیں رہتے، جب کہ بھارتی جیلوں میں تو پاکستانی ماہی گیروں کو سخت اذیت ناک تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔ ادھر مختلف پاک انڈیا دوطرفہ فورمز اور سارک ملکوں کی تنظیم کے اجلاس بھی بے نتیجہ رہے اور سمندری حدود کے حتمی تعین اور غریب ماہی گیروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ روکنے کا کوئی ٹھوس قانونی میکنزم مہیا نہیں کیا جا سکا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق 291 ماہی گیر 8 جنوری 2018 تک دو مرحلوں میں بھارت روانہ کیے جائیں گے۔ اس سے قبل بھارت ہمارے کچھ ماہی گیر رہا کرچکا ہے جب کہ پاکستان نے دو بار بھارتی ماہی گیروں کی بڑی تعداد کو خیر سگالی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا تھا۔
بھارت کے موقر اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' نے اسے پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا اظہار قرار دیا جو بھارتی جاسوس کلبھوشن کی ان کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کے تناظر میں ایک مستحسن قدم تھا تاہم اس خیرسگالی کا جواب انڈین میڈیا نے جس اخلاقی و سفارت کارانہ دیوالیہ پن اور ہرزہ سرائی سے دیا ہے اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم خبر کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی طرف سے قیدی ماہی گیروں کو تحائف اور 5 ہزار روپے فی کس دیے گئے، انھیں ایک سال قبل سمندری حدود کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا، بھارتی ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ جیل حکام کا ہمارے ساتھ رویہ اچھا تھا، میڈیا کے مطابق پاکستان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کیے گئے 145 بھارتی قیدی واہگہ بارڈر پر بھارتی بارڈر فورس حکام کے حوالے کیے جائیں گے۔
حقیقت میں پاکستانی اور بھارتی ماہی گیروں کی بحری حدود کی خلاف ورزی کے باعث گرفتاریوں کی کہانی انتہائی دردناک ہے کیونکہ ابھی تک بحیرہ عرب اور بحر ہند کی سمندری حدود اور ڈیپ سی میں میرین بارڈر کا کوئی اصولی فارمولہ اور سائنسی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا ہے جب کہ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی جدید سائنسی آلات اور بحری سمت اور حدود کے فنی تعین کے قابل نہیں، چنانچہ برس ہا برس سے ماہی گیروں کی دوطرفہ گرفتاری اور انھیں جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رکھنے سے ناقابل بیان مصائب اور المیے جنم لے چکے ہیں۔
سیکڑوں ماہی گیر بیماری اور غربت و بے بسی کی حالت میں وطن لوٹنے پر بھی ماہی گیری کے قابل نہیں رہتے، جب کہ بھارتی جیلوں میں تو پاکستانی ماہی گیروں کو سخت اذیت ناک تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔ ادھر مختلف پاک انڈیا دوطرفہ فورمز اور سارک ملکوں کی تنظیم کے اجلاس بھی بے نتیجہ رہے اور سمندری حدود کے حتمی تعین اور غریب ماہی گیروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ روکنے کا کوئی ٹھوس قانونی میکنزم مہیا نہیں کیا جا سکا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق 291 ماہی گیر 8 جنوری 2018 تک دو مرحلوں میں بھارت روانہ کیے جائیں گے۔ اس سے قبل بھارت ہمارے کچھ ماہی گیر رہا کرچکا ہے جب کہ پاکستان نے دو بار بھارتی ماہی گیروں کی بڑی تعداد کو خیر سگالی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا تھا۔