اعلیٰ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی
صوبائی حکومتوں کو یونیورسٹیوں کی ترقی کے لے وافر مقدار میں گرانٹس کا بندوست کرنا ضروری ہوگا۔
اکیسویں صدی بنیادی طور پر آزاد معیشت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے مگر اس صدی کے آغاز سے ہی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وفاقی حکومت نے سرکاری شعبے میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور نجی شعبے میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی پالیسی اختیار کی۔ یونیورسٹیوں کو گرانٹ دینے اور تعلیمی معیارکی بلندی کے لیے معاونت کرنے والے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (U.G.C) کی حیثیت کو بلند کرکے ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ماہر سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمن جن کی زندگی کا بیشتر حصہ کیمسٹری کے مضمون سے متعلق تحقیق میں گزرا، ان کو کمیشن کا چیئرپرسن مقررکیا گیا اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کو وفاقی وزیر مملکت کے برابر کا درجہ دیا گیا۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ (I.M.F) نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد میں کئی سو گنا اضافہ کیا۔ ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیاں قائم ہونے لگیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہر بڑے شہر میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور پوسٹ گریجویشن کی تدریس کرنے والے کالجوں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یوں ملک میں پہلی دفعہ طب، قانون، تعلیم اور تجارتی امورکے شعبوں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
انجنیئرنگ اور زراعت کے شعبوں میں بھی یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں میں اصلاحات رائج کرنے کی پالیسی اپنائی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری اور تحقیقی مقالوں کو اساتذہ کی ترقیوں کے لیے لازم قرار دیا گیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے اسکیل کا کم از کم درجہ 18 گریڈ سے 21 گریڈ تک کر دیا گیا۔ Meritorious پروفیسر کو گریڈ 22 اور وائس چانسلر کو ایم پی اسکیل میں شامل کیا گیا۔ اساتذہ کی انجمنوں کی فیڈریشن نے ایچ ای سی کی اصلاحات کے خلاف تحریک چلائیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور اساتذہ نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ ایچ ای سی سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دائیں بازو والے اساتذہ نے ان اصلاحات کو نائن الیون کے بعد مذہبی رجحانات کو کم کرنے کی کوششوں سے منسوب کیا۔ یوں یونیورسٹیوں میں ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف فضاء قائم ہوئی۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اساتذہ کے رہنماؤں سے مذاکرات کر کے پرانے اساتذہ کی ترقیوں کے لیے ایک فارمولہ تیار کیا جس سے اساتذہ کے حالات کار میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے انفرااسٹرکچر کی ترقی، کانفرنس، ورکشاپ اور ریسرچ جرنل کے لیے وافر مقدار میں گرانٹس فراہم کیں۔ اس طرح ملک اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے اسکالرشپ کی تقسیم کے لیے N.T.S ٹیسٹ اور انٹرویو وغیرہ کو لازمی قرار دیا گیا۔ بیشتر اساتذہ نے امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے دورے کی ایک روایت پر عمل ہوا۔ ایچ ای سی کے دونوں سربراہوں کا تعلق سندھ سے رہا مگر سندھ اور بلوچستان کے اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ ایچ ای سی نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا۔
ایچ ای سی نے بی ایس پروگرام رائج کیا۔ اس 4سالہ پروگرام کو ایم اے اور ایم ایس سی کے مساوی قررا دیا گیا اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نئے مضامین شامل کیے گئے مگر ایچ ای سی نے بی ایس پروگرام کو پوسٹ گریجویشن پروگرام قرار تو دیا مگر اس کے لیے قانونی ضروریات پوری نہیں کیں، جس کی وجہ سے بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح ایم ایس اور پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے کورس ورک اور ریسرچ پیپر شایع ہونے کی پابندیاں عائد کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے باوجود اردو میں تحقیق کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اختیارکی۔ تحقیق میں سرقہ نویسی (Plagiarism) کے بارے میں قوانین نافذ کیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی جیسی بڑی یونیورسٹیوں نے ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کی۔ ایچ ای سی کو پنجاب یونیورسٹی نے انرجی فزکس کے تین اساتذہ کو ملازمت کے لیے نااہل قرار دیدیا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے کارروائی نہیں کی۔ پنجاب کے گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر کے دباؤ پر ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہوئی مگر یونیورسٹی نے ان مقدمات میں قانونی نقائص چھوڑ دیے جس پر لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بحال کردیا۔
کراچی یونیورسٹی نے ایچ ای سی کی ہدایات کے باوجود سرقہ نویسی میں ملوث کسی استاد کے خلاف ابھی تک کارروائی نہیں کی۔ جب 2010ء میں 18ویں ترمیم نافذ ہوئی تو تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری قرار پایا۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے اپنے نامزد کردہ چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری سے منتخب اراکین کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوئے تو صوبوں کے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہونے کی تیاریاں شروع ہوئیں مگر ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب اور سندھ میں قائم ہونے والے کمیشن فیصلہ سازی میں شریک نہ ہوسکے۔ حکومت پنجاب نے ڈاکٹر نظام جیسے سینئر استاد کو پنجاب ایچ ای سی کا سربراہ بنایا۔ انھوں نے کمیشن کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
سندھ میں آصف علی زرداری کے ذاتی دوست اور ایک نجی یونیورسٹی کے مالک ڈاکٹر عاصم کو سندھ کے کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جن کا اعلیٰ تعلیم سے تعلق نہیں رہا، یوں یہ کمیشن مکمل طور پر منظم نہ ہوسکا۔ سینیٹ کی 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کمیٹی کی سفارش پر مشترکہ مفاد ات کونسل (Council of Common Interests) کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل کیا گیا تاکہ تعلیم کے شعبے کے مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہونے کے تمام مراحل مکمل ہوجائیں۔ سی سی آئی کا اجلاس گزشتہ دنوں وزیر اعظم خاقان عباسی کی صدارت میں ہوا۔ اس اجلاس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے صوبوں کو منتقلی کے بارے میں انتہائی اہم فیصلہ ہوا جس کے اعلیٰ تعلیم پر گہرے اثرات برآمد ہوں گے۔
اس فیصلے کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک کی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیارکی نگرانی کا فریضہ انجام دے گا جب کہ صوبائی کمیشن یونیورسٹیوں کے انتظامی اور مالیاتی معاملات کی نگرانی کریں گے۔ اب تک وفاقی کمیشن نے اپنی تعلیمی اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے مالیاتی گرانٹس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ایچ ای سی نے تعلیمی معیار کو یونیورسٹی کی رینکنگ سے منسلک کیا ہے اور رینکنگ کی درجہ بندی کو گرانٹ سے وابستہ کیا۔
سرکاری یونیورسٹیاں کیونکہ قانونی طور پر خودمختار ہیں اس بناء پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ ایچ ای سی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔ کراچی یونیورسٹی تو ہمیشہ سے بغاوت کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کراچی یونیورسٹی ہر طرح کے بحران کا شکار ہے۔ایچ ای سی کے فیصلے کے بعد صوبوں کا امتحان شروع ہوگا۔ صوبوں کو اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پروفیسرز کو اپنے کمیشن کا سربراہ مقرر کرنا ہوگا۔ یہ ضوابط باقی اراکین پر بھی عائد ہونے چاہئیں۔ پھر وفاقی ایچ ای سی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اصلاحات کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
صوبائی حکومتوں کو یونیورسٹیوں کی ترقی کے لے وافر مقدار میں گرانٹس کا بندوست کرنا ضروری ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کو وائس چانسلر کے تقرر سے لے کر اساتذہ کی ملازمتوں تک معاملات میں میرٹ کو تقویت دینی ہوگی اور یونیورسٹیوں کے اداروں سنڈیکیٹ، سینیٹ اور اکیڈمک کونسل وغیرہ میں صوبائی ایچ ای سی کی نمایندگی کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔
یہ بہت مناسب ہوگا کہ چاروں صوبوں کے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے سربراہوں کو وفاقی کمیشن کے انتظامی بورڈ میں شامل کیا جائے تاکہ وفاقی کمیشن تعلیمی معیار کی نگرانی کے لیے جو اصلاحات نافذ کرے ان اصلاحات کی تیار میں صوبائی کمیشنوں کے سربراہان بھی شامل ہوں اور پھر وہ ان اصلاحات پر اپنے کمیشن کے دائرہ کار میں عملدرآمد کے پابند ہوں۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر اسی طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ اگر وفاقی کمیشن کسی تعلیمی معاملے پر کسی یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کرے تو صوبائی کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہو، اگر وفاقی اور صوبائی کمیشن مربوط انداز میں فرائض انجام دیتے ہیں تویہ تجربہ کامیاب ہوگا دوسری صورت میں یونیورسٹیاں پسماندگی کا شکار ہونگی اور راولپنڈی کا 18ویں ترمیم کے خاتمے کی منصوبہ بندی کرنے والا گروہ پھر متحرک ہوجائے گا۔
ماہر سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمن جن کی زندگی کا بیشتر حصہ کیمسٹری کے مضمون سے متعلق تحقیق میں گزرا، ان کو کمیشن کا چیئرپرسن مقررکیا گیا اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کو وفاقی وزیر مملکت کے برابر کا درجہ دیا گیا۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ (I.M.F) نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد میں کئی سو گنا اضافہ کیا۔ ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیاں قائم ہونے لگیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہر بڑے شہر میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور پوسٹ گریجویشن کی تدریس کرنے والے کالجوں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یوں ملک میں پہلی دفعہ طب، قانون، تعلیم اور تجارتی امورکے شعبوں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
انجنیئرنگ اور زراعت کے شعبوں میں بھی یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں میں اصلاحات رائج کرنے کی پالیسی اپنائی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری اور تحقیقی مقالوں کو اساتذہ کی ترقیوں کے لیے لازم قرار دیا گیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے اسکیل کا کم از کم درجہ 18 گریڈ سے 21 گریڈ تک کر دیا گیا۔ Meritorious پروفیسر کو گریڈ 22 اور وائس چانسلر کو ایم پی اسکیل میں شامل کیا گیا۔ اساتذہ کی انجمنوں کی فیڈریشن نے ایچ ای سی کی اصلاحات کے خلاف تحریک چلائیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور اساتذہ نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ ایچ ای سی سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دائیں بازو والے اساتذہ نے ان اصلاحات کو نائن الیون کے بعد مذہبی رجحانات کو کم کرنے کی کوششوں سے منسوب کیا۔ یوں یونیورسٹیوں میں ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف فضاء قائم ہوئی۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اساتذہ کے رہنماؤں سے مذاکرات کر کے پرانے اساتذہ کی ترقیوں کے لیے ایک فارمولہ تیار کیا جس سے اساتذہ کے حالات کار میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے انفرااسٹرکچر کی ترقی، کانفرنس، ورکشاپ اور ریسرچ جرنل کے لیے وافر مقدار میں گرانٹس فراہم کیں۔ اس طرح ملک اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے اسکالرشپ کی تقسیم کے لیے N.T.S ٹیسٹ اور انٹرویو وغیرہ کو لازمی قرار دیا گیا۔ بیشتر اساتذہ نے امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے دورے کی ایک روایت پر عمل ہوا۔ ایچ ای سی کے دونوں سربراہوں کا تعلق سندھ سے رہا مگر سندھ اور بلوچستان کے اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ ایچ ای سی نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا۔
ایچ ای سی نے بی ایس پروگرام رائج کیا۔ اس 4سالہ پروگرام کو ایم اے اور ایم ایس سی کے مساوی قررا دیا گیا اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نئے مضامین شامل کیے گئے مگر ایچ ای سی نے بی ایس پروگرام کو پوسٹ گریجویشن پروگرام قرار تو دیا مگر اس کے لیے قانونی ضروریات پوری نہیں کیں، جس کی وجہ سے بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح ایم ایس اور پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے کورس ورک اور ریسرچ پیپر شایع ہونے کی پابندیاں عائد کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے باوجود اردو میں تحقیق کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اختیارکی۔ تحقیق میں سرقہ نویسی (Plagiarism) کے بارے میں قوانین نافذ کیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی جیسی بڑی یونیورسٹیوں نے ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کی۔ ایچ ای سی کو پنجاب یونیورسٹی نے انرجی فزکس کے تین اساتذہ کو ملازمت کے لیے نااہل قرار دیدیا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے کارروائی نہیں کی۔ پنجاب کے گورنر اور یونیورسٹی کے چانسلر کے دباؤ پر ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہوئی مگر یونیورسٹی نے ان مقدمات میں قانونی نقائص چھوڑ دیے جس پر لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بحال کردیا۔
کراچی یونیورسٹی نے ایچ ای سی کی ہدایات کے باوجود سرقہ نویسی میں ملوث کسی استاد کے خلاف ابھی تک کارروائی نہیں کی۔ جب 2010ء میں 18ویں ترمیم نافذ ہوئی تو تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری قرار پایا۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے اپنے نامزد کردہ چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری سے منتخب اراکین کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوئے تو صوبوں کے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہونے کی تیاریاں شروع ہوئیں مگر ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب اور سندھ میں قائم ہونے والے کمیشن فیصلہ سازی میں شریک نہ ہوسکے۔ حکومت پنجاب نے ڈاکٹر نظام جیسے سینئر استاد کو پنجاب ایچ ای سی کا سربراہ بنایا۔ انھوں نے کمیشن کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
سندھ میں آصف علی زرداری کے ذاتی دوست اور ایک نجی یونیورسٹی کے مالک ڈاکٹر عاصم کو سندھ کے کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جن کا اعلیٰ تعلیم سے تعلق نہیں رہا، یوں یہ کمیشن مکمل طور پر منظم نہ ہوسکا۔ سینیٹ کی 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کمیٹی کی سفارش پر مشترکہ مفاد ات کونسل (Council of Common Interests) کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل کیا گیا تاکہ تعلیم کے شعبے کے مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہونے کے تمام مراحل مکمل ہوجائیں۔ سی سی آئی کا اجلاس گزشتہ دنوں وزیر اعظم خاقان عباسی کی صدارت میں ہوا۔ اس اجلاس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے صوبوں کو منتقلی کے بارے میں انتہائی اہم فیصلہ ہوا جس کے اعلیٰ تعلیم پر گہرے اثرات برآمد ہوں گے۔
اس فیصلے کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک کی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیارکی نگرانی کا فریضہ انجام دے گا جب کہ صوبائی کمیشن یونیورسٹیوں کے انتظامی اور مالیاتی معاملات کی نگرانی کریں گے۔ اب تک وفاقی کمیشن نے اپنی تعلیمی اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے مالیاتی گرانٹس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ایچ ای سی نے تعلیمی معیار کو یونیورسٹی کی رینکنگ سے منسلک کیا ہے اور رینکنگ کی درجہ بندی کو گرانٹ سے وابستہ کیا۔
سرکاری یونیورسٹیاں کیونکہ قانونی طور پر خودمختار ہیں اس بناء پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ ایچ ای سی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔ کراچی یونیورسٹی تو ہمیشہ سے بغاوت کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کراچی یونیورسٹی ہر طرح کے بحران کا شکار ہے۔ایچ ای سی کے فیصلے کے بعد صوبوں کا امتحان شروع ہوگا۔ صوبوں کو اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پروفیسرز کو اپنے کمیشن کا سربراہ مقرر کرنا ہوگا۔ یہ ضوابط باقی اراکین پر بھی عائد ہونے چاہئیں۔ پھر وفاقی ایچ ای سی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اصلاحات کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
صوبائی حکومتوں کو یونیورسٹیوں کی ترقی کے لے وافر مقدار میں گرانٹس کا بندوست کرنا ضروری ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کو وائس چانسلر کے تقرر سے لے کر اساتذہ کی ملازمتوں تک معاملات میں میرٹ کو تقویت دینی ہوگی اور یونیورسٹیوں کے اداروں سنڈیکیٹ، سینیٹ اور اکیڈمک کونسل وغیرہ میں صوبائی ایچ ای سی کی نمایندگی کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔
یہ بہت مناسب ہوگا کہ چاروں صوبوں کے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے سربراہوں کو وفاقی کمیشن کے انتظامی بورڈ میں شامل کیا جائے تاکہ وفاقی کمیشن تعلیمی معیار کی نگرانی کے لیے جو اصلاحات نافذ کرے ان اصلاحات کی تیار میں صوبائی کمیشنوں کے سربراہان بھی شامل ہوں اور پھر وہ ان اصلاحات پر اپنے کمیشن کے دائرہ کار میں عملدرآمد کے پابند ہوں۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر اسی طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ اگر وفاقی کمیشن کسی تعلیمی معاملے پر کسی یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کرے تو صوبائی کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہو، اگر وفاقی اور صوبائی کمیشن مربوط انداز میں فرائض انجام دیتے ہیں تویہ تجربہ کامیاب ہوگا دوسری صورت میں یونیورسٹیاں پسماندگی کا شکار ہونگی اور راولپنڈی کا 18ویں ترمیم کے خاتمے کی منصوبہ بندی کرنے والا گروہ پھر متحرک ہوجائے گا۔