ایک نئی جنگ کا خطرہ
آج کل امریکا کی پالیسی میں یکایک تبدیلی آگئی ہے جس کی ابتداء میں اس نے پاکستان کو ڈرانا دھمکا نا شروع کر دیا ہے۔
نائن الیون کے حادثے کے بعد اس کو بہانہ بنا کر امریکا نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اعلانیہ جہاد شروع کر رکھا ہے وہ اس میں اپنی پوری قوت بھی استعمال کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی سر توڑ کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی روایات عقائد اور ایمانیت کو ختم یا کمزور کر سکے یہ ایک علیحدہ جنگ ہے جو کہ کافروں اور مسلمانوں میں روز اول سے جاری ہے۔
پاکستان امریکا کا مرغوب نشانہ ہے جس کی بنیادی وجہ اس کا محل وقوع کے علاوہ اس کے بنیادی نظریات ہیں کیونکہ یہ واحد اسلامی ریاست ہے جس کا قیام کسی نظریئے کی فروغ کی خاطر عمل میں آیا ورنہ ہندوستان کے متحد رہنے میں کوئی برائی نہیں تھی۔ ماضی میں جب امریکا اور سوویت یونین کی جنگ جاری تھی تو امریکیوں نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی کہ پاکستان کے لوگ کس قدر نظریاتی طاقت رکھتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے ساتھ شروع دن سے قائم تعلقات کی وجہ سے بھی امریکی پاکستان کے لوگوں اور پاکستانی معاشرے سے خوب واقفیت رکھتے تھے۔
اس واقفیت کی بنا پر ان کے لیے یہ بات آسان ہو گئی کہ پاکستانیوں کے ساتھ معاملات کس طرح طے کرنے ہیں انھوں نے پاکستان کے اندر اپنے اتنے ایجنٹ بنا لے کہ ان کو ان معلومات تک بھی رسائی ہو گئی ہیں جن تک ہمارے کئی وزیر اعظم بھی نہ پہنچ سکے تھے لیکن ہمارے لالچی لوگوں نے گرین کارڈ کے لیے اپنے وطن سے غداری کو ترجیح دی جس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور نہ جانے ہماری قسمت میں کب تک ان کو بھگتنا لکھا ہے۔
آج کل امریکا کی پالیسی میں یکایک تبدیلی آگئی ہے جس کی ابتداء میں اس نے پاکستان کو ڈرانا دھمکا نا شروع کر دیا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے نیا فرمان یا ہدایت نامہ جاری نہیں ہوتا۔ امریکا کی ان دھمکی انگیز باتوں کا جواب بھی اسی کے انداز میں دیا جا رہا ہے۔ لفظی جنگ جاری ہو چکی ہے۔
دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں پاکستان اپنی قربانیوں کا اعتراف چاہتا ہے جب کہ امریکا پاکستان کی جانب سے مزید قربانیوں اور اقدامات کا متمنی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے پاکستان امریکی کیمپ میں رہا جب کہ اس نے اپنے ہمسایہ میں موجود سپر پاور سوویت یونین سے ٹکر لیے رکھی جس کا ہمارا ہمسایہ دشمن بھارت پروردہ رہا ہے۔
سوویت یونین امریکا جنگ میں پاکستان نے اپنی بقاء کی خاطر افغانستان میں امریکا کا ساتھ دیا اور اپنے آپ کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جو کہ کئی دہائیوں کے بعد اب بھی جاری ہے۔ امریکا اس جنگ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف تو پاکستان اور افغانوں نے اپنی جانیں لڑا دیں اور ان کو دریائے آمو کے اس پار دھکیل دیا لیکن جب امریکا نے افغانیوں کے خلاف جنگ شروع کی تو اس کی توقعات کے برعکس اور پاکستان کی حمایت کے باوجود یہ جنگ اس کے گلے کا طوق بن گئی اور اس سے اب جان چھڑانا مشکل نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی صورتحال بن گئی ہے اور امریکا نے افغانستان سے جان چھڑانے کے بہانے تلاش کرنا شروع کر رکھے ہیں اور اب وہ اپنی یہ ناکام جنگ پاکستان کی سر زمین پر منتقل کرنا چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں نوٹس دیے جا رہے ہیں حالانکہ امریکا سرکاری سطح پر پاکستان کو اپنا دوست کہتا ہے اور ایک دوست کی جانب سے دشمن والا لب و لہجہ تشویش پیدا کر رہا ہے۔
لیکن ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو والی صورتحال بننے جا رہی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں سرد مہری آتی جا رہی ہے اور حالات تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں۔ عراق کے بعد یہ بحث جاری تھی کہ اب کس ملک کی باری ہے تو لگتا ہے کہ امریکا نے پاکستان میں محدود مہم جوئی کا ارادہ کر لیا ہے۔ امریکا تو امریکا ہے دنیا کی تنہا سپر پاور اور سب سے بڑی فوج طاقت جس کو تنہا سپر پاور بنانے میں سب سے اہم کردار پاکستان کا ہے۔
اگر آج سوویت یونین متحد ہوتا تو دنیا میں طاقت کا توازن قائم رہتا لیکن ہم نے امریکا کی حمایت میں یہ توازن بگاڑ دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا پاکستان کی قربت کو چھوڑ کر ہمارے دشمن بھارت کی زلفوں کا اسیر ہو گیا ہے اور بھارت یہ شہ پا کر اب ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی چاہے وہ بھارت کی جانب سے ہو یا امریکا کرنے کی کوشش کرے تو اس کا پاکستانی جواب ایک ہی ہے جسے دہرانے کی ضرورت نہیں، پاکستان کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو امریکا کی برداشت سے باہر ہے اور مجھے یاد ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تھا تو اس کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ یہ سب امریکا کی برداشت سے باہر ہے۔
امریکی پاکستان ایٹم بم سے اپنی نفرت کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں ان کے لیے یہ بات برداشت سے باہر ہے کہ ایک مسلمان ملک ایٹمی طاقت کا حامل ہو۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر مخالف قوتوں کو دہشتگرد قرار دیتے ہیں لیکن جاپان پر ایٹم بم گرانے سے عراق پر حملے کے بعد غلط معلومات کا اظہار بھی ان کی ندامت کے لیے کافی نہیں۔ اگر کوئی مظلوم بندوق بھی اٹھا لیتا ہے تو وہ دہشتگرد قرار پا جاتا ہے چنانچہ امریکا کی پاکستان سے ایٹم بم کے بعد دوسری شکایت دہشتگردوں کی پیدائش اور پرورش کی ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ہم نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور دیے جا رہے ہیں۔ شہداء کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو کہ ہماری افواج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کا اعزاز ہے۔
اس کے باوجود امریکا ہم سے ناراض ہے شاید ہمارے کئی اور ایسے جرائم ہیں جو امریکا کو پسند نہیں ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم ان جرائم کی ماں ہے اسی لیے میں ڈر رہا ہوں کے امریکا کہیں غلطی سے ہم پر کوئی دوستانہ حملہ نہ کر دے اور بعد میں معذرت کر کے معاملہ رفع دفع کر دے اس لیے ہمیں امریکا کے کسی باقاعدہ حملے سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتائج کا سب کو علم ہے کہ کمزور پاکستانی دفاع کس طرح ایک اور عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے اس لیے امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنی نام نہاد دوستی کا بھرم قائم رکھنا پڑے گا ورنہ کمزور بھی کبھی کبھی طاقتوروں کو لے ڈوبتے ہیں سوویت یونین کی مثال ابھی کل کی بات ہے۔