وومین پاور اور جماعتِ اسلامی
اگر خواتین کا ووٹ نہ دینا کوئی اسلامی عمل ہے تو جماعت اس عمل کی پاکستان کے دیگر اضلاع میں کیوں وکالت نہیں کر رہی؟
سب سے پہلے تو میں اکیس دسمبر کو خیبر پختونخوا کے اضلاع زیریں و بالائی دیر میں یونین کونسل شادی خیل اور ثمر باغ میں ایک سو آٹھ بلدیاتی نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ مبارک باد اس لیے بھی بنتی ہے کہ اس بار بھی وہاں کے مشران نے عورتوں کو سخت برفیلے موسم میں پولنگ اسٹیشنوں پر لائن بنانے کی زحمت سے بچا لیا اور دونوں یونین کونسلوں میں رجسٹرڈ لگ بھگ تیرہ ہزار خواتین ووٹرز میں سے محض دو نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
مشران کا کہنا ہے کہ ہم نے کسی عورت کو ووٹ دینے سے منع نہیں کیا۔ یہ خالصتاً خواتین کا اپنا فیصلہ ہے اور انھوں نے یہ فیصلہ پارٹی لائن سے بالاتر ہو کر کیا بھلے ان کی سیاسی ہمدردیاں تحریکِ انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی فضل، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی سمیت کسی کے بھی ساتھ ہوں۔ سب عورتوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ کوئی امیدوار بھی ہمارے ووٹ کے قابل نہیں اور ووٹ دینا محض وقت ضایع کرنا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بالائی اور زیریں دیر کی خواتین اپنے اچھے برے کا فیصلہ کرنے میں کس قدر خود مختار ہیں۔
دیر کی خواتین نے پہلی بار بے مثال ''وومین پاور'' کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی بالائی دیر کی اڑتیس ہزار نو سو دس رجسٹرڈ ووٹروں نے بالکل اسی طرح انتخابی عمل پر بھرپور عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے والد، بھائی یا شوہر کی ایک نہیں سنی۔ صرف ایک خاتون نے اپنی بہنوں کے اجتماعی فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے ووٹ کا حق استعمال کیا۔
کہا جاتا ہے زیریں و بالائی دیر جماعتِ اسلامی کا روایتی گڑھ ہے۔ جماعت کے موجودہ امیر سراج الحق صاحب بھی دیروی ہیں۔ ان کے ہوتے دیر کی خواتین کی جانب سے انتخابی نظام کا بائیکاٹ دراصل جماعت کے امیدواروں پر بھی عدم اعتماد کہا جا سکتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ خود دیر کی جماعتِ اسلامی بھی یہاں کی ''وومین پاور'' کے آگے بے بس ہے اور وہ اپنی نظریاتی حامی خواتین کو بھی پولنگ اسٹیشن تک لانے میں بری طرح ناکام ہے۔
میں یہ اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ باقی پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں بشمولِ جماعتِ اسلامی کی حامی خواتین جوق در جوق پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرتی ہیں اور جو نہ پہنچ پائیں انھیں باقاعدہ گھر سے لانے لے جانے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ میں نے خود جماعت کی کارکن خواتین کو کراچی کے مختلف حلقوں میں عورتوں کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کے لیے بہن جی، ماں جی، محترمہ، باجی وغیرہ کہتے اور گھریلو عورتوں کو ووٹ کی اہمیت پر قائل کرتے دیکھا ہے۔
مگر دیر کی خواتین کی بات ہی کچھ اور ہے۔ انھیں کوئی دلیل، کوئی ترغیب ووٹ دینے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ اس بابت سوشل انجینئرنگ کے ماہرین کو مزید تحقیق کرنا چاہیے کہ دیر کی ''وومین پاور'' محض ووٹ کا حق استعمال نہ کرنے کے فیصلے میں ہی خودمختار ہے یا زندگی کے دیگر امور میں بھی اتنی ہی آزاد ہے اور رشتے ناطے، تعلیم، صحت اور جائیداد کے بٹوارے جیسے معاملات میں بھی اپنے مردوں کی رائے کو نہ صرف ٹھینگے پر رکھتی ہے بلکہ اس تناظر میں مردانہ رائے اور فیصلوں پر اکثر غالب آ جاتی ہے۔
میں کسی بھی پارٹی پر سیاسی منافقت کا شبہ کر سکتا ہوں مگر جماعتِ اسلامی پر ہرگز ہرگز نہیں۔ اس کا فوری ثبوت یہ ہے کہ لگ بھگ چار ماہ پہلے این اے تینتیس بالائی دیر سے جماعتِ اسلامی کے رکنِ قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے انتخابی اصلاحات کے ایکٹ دو ہزار سترہ پر بحث کے دوران اس نکتے پر اعتراض کیا کہ جس حلقے میں بھی خواتین کے دس فیصد سے کم رجسٹرڈ ووٹ پڑیں گے اس حلقے میں دوبارہ انتخاب ہو گا۔ صاحبزادہ کی اس دلیل میں خاصا وزن ہے کہ اگر کسی حلقے کی خواتین ووٹ نہیں دینا چاہتیں تو کوئی بھی ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے (یعنی دس فیصد کی شق بنیادی انسانی آزادی کے خلاف ہے)۔ میں تو کہوں گا کہ دیگر ارکانِ پارلیمان کو بھی صاحبزادہ طارق اللہ وغیرہ سے سیکھنا چاہیے کہ خواتین کے حقوق کی وکالت کیسے کی جاتی ہے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے خیبر پختونخوا میں پشتون اکثریت کے بہت سے اضلاع ہیں۔ مگر زیریں و بالائی دیر میں ایسا کیا ہے کہ خواتین ووٹ نہیں دیتیں۔ اگر تو یہ مقامی روایت اور رواج ہے تو پھر ساتھ کے پشتون اضلاع بالخصوص بونیر اور سوات میں ایسا کیوں نہیں۔ وہاں کی جماعتِ اسلامی ان رواجات کو خاطر میں کیوں نہیں لاتی۔ حتی کہ کوہستان جیسے پسماندہ ضلع میں بھی خواتین کم تعداد میں ہی سہی ووٹ کیسے ڈال لیتی ہیں؟ کیا وہاں کی رواجیت دیر کی پشتونیت سے کچھ الگ ہے؟
( بالائی و زیریں دیر پاکستان کا ایک مین اسٹریم علاقہ ہے۔ اگر فاٹا کی کسی ایجنسی میں ایسا ہو تو شائد صبر آ جائے۔ مگر فاٹا میں تو خواتین ووٹوں کی رجسٹریشن میں چھتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو پورے پاکستان میں ایک ریکارڈ ہے)۔
سراج الحق صاحب باقی پاکستان کے مسائل کے بارے میں اتنے حساس ہیں کہ اکثر ان کا خطاب سن کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے کہ اتنا ہمدرد اور پروگریسو انسان آخر اقتدار میں کیوں نہیں۔ لیکن وہی سراج الحق صاحب اپنے ہی آبائی علاقے میں ووٹ کے بنیادی حق کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے اعتراض فرماتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کا مرکزی امیر اپنے ہی آبائی علاقے میں اتنا بے بس کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک اشارہ ہو اور مقامی تنظیم خواتین کو ووٹ دینے پر آمادہ نہ کر سکے۔ اگر یہ مقامی رواج ہے تو جماعت رواج کی قیدی کب سے ہو گئی؟ جماعت کے فکری سرچشمے مولانا مودودی کی فکر پر کئی مباحث اٹھائے جا سکتے ہیں مگر میرے علم میں نہیں کہ مولانا نے کبھی اس پر زور دیا ہو کہ سیاست میں جیسا دیس ویسا بھیس کا کلیہ استعمال کرنا جائز ہے۔ (محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم یاد تو ہوگی)۔
اگر خواتین کا ووٹ نہ دینا کوئی اسلامی عمل ہے تو جماعت اس عمل کی پاکستان کے دیگر اضلاع میں کیوں وکالت نہیں کر رہی؟ یا پھر جماعت کی مرکزی قیادت اعتراف کرے کہ دیر کی مقامی جماعت کی ایک علیحدہ شناخت ہے۔ اس کا مرکزی ڈسپلن یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں لہذا مرکزی قیادت دیر کی جماعتِ اسلامی کے کسی قول و فعل کی ذمے دار نہیں۔
لیکن آپ کو دیر میں ہونے والے ہر قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخاب سے ابھرنے والی منفی ہیڈ لائنز سے لطف اندوزی میں مزہ آتا ہے تب تو آپ کی حکمتِ عملی بالکل ٹھیک جا رہی ہے۔ اسے جاری رکھئے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)