نرمی سے دی گئی ’’شٹ اپ کال‘‘
ان حلقوں کو نرمی اور شائستگی کے ساتھ ’’شٹ اپ‘‘ کال دی گئی ہے جو فوج پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیتے۔
اپنی پلاٹون، ریڈیو آپریٹر اور رنر کے ساتھ میں کاہان کے مغرب میں کچھ میل دور ایک ڈھلواں چوٹی کی اوٹ میں موجود تھا اور مری قبائل کے عسکریت پسندوں کی فائرنگ جاری تھی۔ یہ 30دسمبر 1973کی بات ہے۔ عسکریت پسندوں کا خیال تھا کہ ہم نرغے میں آچکے ہیں، ان کی فائر کی گئی گولیاں دس بارہ فٹ فاصلے پر گر رہی تھیں،ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہ ''پلنجنگ فائر'' کے تصور سے واقف نہیں تھے۔ ایک پلاٹون پہاڑی کے گرد مقابل کے عقب میں اپنا راستہ بنا رہی تھی اور شارپ شوٹرز کی تیسری پلاٹون پہاڑی پر ظاہر ہونے والے حریفوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنارہی تھی۔ 44 برس قبل شورش سے نمٹنے کی تکنیک سادہ اور آج سے مختلف تھی۔
تقریباً صبح آٹھ بجے میجر(بعد ازاں میجر جنرل) فہیم اختر، جو اس وقت یونٹ کے ایڈجوٹنٹ تھے، ریڈیو سیٹ پر آئے اور پیغام دیا''امام فور مارخور، کل ضرار کی پیدائش ہوئی''۔ میرے کمانڈنگ آفیسر لیفٹننٹ کرنل(بعد ازاں بریگیڈیئر) محمد تاج ستارۂ جرأت نے مجھے اپنے خاص انداز اور بھاری آواز میں مبارک باد دیتے ہوئے کہا ''ان کا صفایا کرو، پھر تم چھٹی پر جاسکتے ہو'' ۔ پھر انھیں کچھ خیال آیا تو کہنے لگے''امام فور، خود کو مرنے مت دینا''۔
دن ڈھلنے تک ہم اتنا کام کرچکے تھے کہ میں اپنی پہلوٹی کی اولاد کو دیکھنے کے لیے 1974ء کے نئے سال کے پہلے دن کراچی پہنچ سکا۔ میں بلوچ مہمان نوازی کی وہ مثال کبھی نہیں بھول سکتا جب میرے دوست سلیم بگٹی نے ضرار کی پیدایش کی خوشی میں چار بھیڑ کاہان میں ہماری یونٹ کے لیے بھیجے تھے۔
آج کے بر خلاف اس زمانے میں بلوچ مزاحمت کار (1973-4ء میں مری اور مینگل) ہمیں بڑی تعداد میں مقابل آکر انگیج کرتے تھے، ان کی تعداد کبھی چالیس پچاس اور کبھی تو دوسو تک پہنچ جاتی تھی۔ انھیں بھاری نقصان ہوتا، ایک مقابلے میں 21 ہلاکتیں ہوئیں اور ہمیں بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 44 پنجاب (اور اب 4سندھ) نے جو مقام حاصل کیا وہ محض اعزازی ڈیوٹیز یا غیر عسکری سرگرمیوں کے نتیجے میں اسے حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ محاذ جنگ میں سخت مقابلوں میں سرخ روئی نے اسے یہ امتیاز دلایا۔ سیکڑوں حریفوں نے خود کو ہمارے حوالے کیا۔
بطور ایک نئی یونٹ (جسے 1971ء کے اواخر میں تشکیل دیا گیا) ہمارا آغاز غیر معمولی کامیابی سے ہوا جب ہم عمر کوٹ، چھور کے علاقے میں اگلی دفاعی لائن کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (بعد ازاں بریگیڈیئر) تاج جیسے دلیر فوجی تھے جنھوں نے بڑی بے جگری سے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل چند اچھے، باکردار اور مخلص افسران مل کر کسی بھی آرمی یونٹ کو ممتاز بنا سکتے ہیں۔ 4 سندھ کو مقام دلوانے میں فہیم، طارق، حنیف بٹ، جہانگیر اور دیگر ایسے ہی قابل فخر سپاہیوں نے کردار ادا کیا۔
صحرائی جنگ کے ماہر کرنل تاج کا جذبہ محاذ پر دیدنی ہوتا تھا، انھیں دیکھ کر دوسروں کے حوصلے بلند ہوجاتے تھے، ان کے اس جذبے نے ہماری بے پناہ تربیت کی۔ آج کاؤنٹر انسرجنسی پہلے کے مقابلے میں یکسر مختلف اور زیادہ خطرناک کام ہے۔ دوبدو لڑائی کا موقعہ کبھی کبھار ہی آتا ہے، شورش پسندوں کے چھوٹے چھوٹے یونٹ اپنے پیشرو جنگ جوؤں سے بہتر ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہیں، وہ چھاپا مار کارروائیوں اور آئی ای ڈیز کی مدد سے گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر روایتی سامان حرب نے دہشتگردانہ کارروائیوں کو مزید ہلاکت خیز بنا دیا ہے۔ آج محاذ جنگ پر موجود سپاہی کی ذمے داریاں زیادہ ہوشیاری کا تقاضا کرتی ہیں۔
رائفل کمپنی کو 1971ء سے 1974ء تک کمانڈ کرنا میری زندگی کے قابل فخر اعزازات میں سے ہے (13دسمبر 1971ء کو کرنل تاج نے چھور کے نزدیک سنوہی رج کے مقام پر 1971ء سے 1974ء تک اس کمپنی کو میرے نام سے موسوم کر دیا تھا) سال بھر قبل جب کورکمانڈر کراچی سے ملاقات کے لیے گیا تو معلوم ہوا کہ یہی ''کمپنی'' کور کمانڈر ہیڈکوارٹرز پر مامور ہے۔ جوانوں نے جلدی سے گروپ فوٹو کے لیے ایک سائن بورڈ بنایا جس پر "Sehgal Coy" (یعنی سہگل کمپنی) لکھا تھا۔
ان میں سے کوئی بھی فوجی جوان اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا ہو گا جب 42 برس قبل میں نے 1974ء کے اوائل میں فوج کو خیر باد کہا تھا۔ جوانوں سے بہتر اینول کانفیڈینشل رپورٹ (اے سی آر) کوئی نہیں لکھ سکتا، محاذ پر ساتھ لڑنے والے فوجی اپنے افسر کے مقام و مرتبے کا تعین کرتے ہیں۔ اس سطح پر لوگ ''حب الوطنی'' کے معاملے میں زیادہ سخت پیمانے رکھتے ہیں، نہ صرف یہ کہ ان کی شخصیت پہلو دار ہوتی ہے بلکہ ان کا تعلق بھی مختلف قومیتوں سے ہوتا ہے۔ جنون کی حد تک حسد رکھنے والے ناقدین تین دہائی قبل میری سبکدوشی کو آج بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس حد تک گر جاتے ہیں کہ جھوٹ گھڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
جنرل قمر باجوہ کو 16 بلوچ میں کمیشن ملا۔ انھوں نے اپنے مرحوم والد کی طرح اس یونٹ کی کمان بھی کی۔ 16بلوچ نے بہترین افسران پیدا کیے، اس کی خوش قسمتی ہے کہ بریگیڈیئر چوہدری فتح علی خان (مرحوم لیفٹننٹ جنرل افتخار علی خان اور چوہدری نثار علی خان کے والد)، لیفٹننٹ جنرل امین بخاری اور میرے اچھے دوست مرحوم لیفٹننت جنرل آغا جہانگیر جیسے افسران نے اسے کمانڈ کیا۔
باصلاحیت افسر کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے قمر باجوہ نے دوٹوک انداز میں جمہوریت سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔ آرمی چیف کی سینیٹ کی ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب فوج پر (عدلیہ کے ساتھ مل کر) سویلین حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ آرمی چیف اچھی طرح واقف تھے کہ انھیں سینیٹ میں حزب مخالف کے سینیٹرز کے تندوتیز سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم زیادہ ''تلخی'' حکومتی بینچز کی جانب سے دکھائی گئی، جو بنیادی طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سخت (اور خلاف حقیقت) ہرزہ سرائی کا ہی پیش خیمہ تھی۔
فیض آباد دھرنے کے بارے میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ فوج کا منصوبہ تھا۔ یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ مریم کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کیسز میں جاری عدالتی کارروائی سے توجہ ہٹانے کے لیے دھرنے کی فنڈنگ کی، لیکن تنازعہ بڑھتا گیا اور بات ہاتھ سے نکل گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے دباؤ میں حکومت نے تصادم کی راہ اپنائی۔ دھرنا ختم کروانے کے لیے پولیس کی کارروائی انتہائی بھونڈے انداز میں ہوئی جس کے بعد احتجاج 80 سے زائد شہروں اور قصبات میں پھیل گیا اور پورے ملک میں خوں ریزی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ اس سے پہلے کے صورت حال مزید سنگین ہوتی اور داخلی و خارجی مسائل وہ شکل اختیار کرتے کے ملکی مستقبل کے لیے کسی ''آخری اقدام'' تک جانا پڑتا، جنرل باجوہ نے حکومت کو طاقت کے استعمال کے بجائے معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ پھر وزیر اعظم کے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق فوج نے سمجھ داری کے ساتھ بغیر کسی خون خرابے کے یہ معاملہ حل کردیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ بظاہر یہ ایک آسان سی بات محسوس ہوتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرین کے مطالبات کو صرف ایک مطالبے تک لانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔
سینیٹ میں ہر سوال کا اعتماد اور خوش دلی سے جواب دیتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ اگر فیض آباد معاملے میں فوج کا کردار ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ آرمی چیف نے جس شاندار اور مثالی انداز میں سینیٹ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا، یہ کوئی انہونی نہیں تھی۔ تمام سیاسی حلقوں(حتی کہ عام طور پر سخت تنقید کرنے والے چیئرمین سینیٹ) کا ردّ عمل متفقہ طور پر فوج کے حق میں انتہائی مثبت تھا۔
گزشتہ برسوں سے پاک فوج کے خلاف جس طرح ''خفیہ محاذ'' کھلا ہے، ان حالات میں آرمی چیف کا سینیٹ کے سامنے پیش ہونے کا اقدام بروقت تھا، اس سے افواہوں کی اڑائی گئی گرد کا بھی ازالہ ہوا۔ اس اقدام سے ان حلقوں کو نرمی اور شائستگی کے ساتھ ''شٹ اپ'' کال دی گئی ہے جو فوج پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیتے۔ عدلیہ کو بدنام کرنے والے عناصر کو ایسی ہی شٹ اپ کال عزت مآب چیف جسٹس کی جانب سے بھی ملنی چاہیے اور انھیں کمرۂ عدالت میں وہ قوانین پڑھ کر سنائے جانے چاہیے کہ انھیں معلوم ہو، حکمرانی کا شوق پورا کرنے سے پہلے قانون کا احترام اور اس کی پابندی سیکھنا لازم ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
تقریباً صبح آٹھ بجے میجر(بعد ازاں میجر جنرل) فہیم اختر، جو اس وقت یونٹ کے ایڈجوٹنٹ تھے، ریڈیو سیٹ پر آئے اور پیغام دیا''امام فور مارخور، کل ضرار کی پیدائش ہوئی''۔ میرے کمانڈنگ آفیسر لیفٹننٹ کرنل(بعد ازاں بریگیڈیئر) محمد تاج ستارۂ جرأت نے مجھے اپنے خاص انداز اور بھاری آواز میں مبارک باد دیتے ہوئے کہا ''ان کا صفایا کرو، پھر تم چھٹی پر جاسکتے ہو'' ۔ پھر انھیں کچھ خیال آیا تو کہنے لگے''امام فور، خود کو مرنے مت دینا''۔
دن ڈھلنے تک ہم اتنا کام کرچکے تھے کہ میں اپنی پہلوٹی کی اولاد کو دیکھنے کے لیے 1974ء کے نئے سال کے پہلے دن کراچی پہنچ سکا۔ میں بلوچ مہمان نوازی کی وہ مثال کبھی نہیں بھول سکتا جب میرے دوست سلیم بگٹی نے ضرار کی پیدایش کی خوشی میں چار بھیڑ کاہان میں ہماری یونٹ کے لیے بھیجے تھے۔
آج کے بر خلاف اس زمانے میں بلوچ مزاحمت کار (1973-4ء میں مری اور مینگل) ہمیں بڑی تعداد میں مقابل آکر انگیج کرتے تھے، ان کی تعداد کبھی چالیس پچاس اور کبھی تو دوسو تک پہنچ جاتی تھی۔ انھیں بھاری نقصان ہوتا، ایک مقابلے میں 21 ہلاکتیں ہوئیں اور ہمیں بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ 44 پنجاب (اور اب 4سندھ) نے جو مقام حاصل کیا وہ محض اعزازی ڈیوٹیز یا غیر عسکری سرگرمیوں کے نتیجے میں اسے حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ محاذ جنگ میں سخت مقابلوں میں سرخ روئی نے اسے یہ امتیاز دلایا۔ سیکڑوں حریفوں نے خود کو ہمارے حوالے کیا۔
بطور ایک نئی یونٹ (جسے 1971ء کے اواخر میں تشکیل دیا گیا) ہمارا آغاز غیر معمولی کامیابی سے ہوا جب ہم عمر کوٹ، چھور کے علاقے میں اگلی دفاعی لائن کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (بعد ازاں بریگیڈیئر) تاج جیسے دلیر فوجی تھے جنھوں نے بڑی بے جگری سے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل چند اچھے، باکردار اور مخلص افسران مل کر کسی بھی آرمی یونٹ کو ممتاز بنا سکتے ہیں۔ 4 سندھ کو مقام دلوانے میں فہیم، طارق، حنیف بٹ، جہانگیر اور دیگر ایسے ہی قابل فخر سپاہیوں نے کردار ادا کیا۔
صحرائی جنگ کے ماہر کرنل تاج کا جذبہ محاذ پر دیدنی ہوتا تھا، انھیں دیکھ کر دوسروں کے حوصلے بلند ہوجاتے تھے، ان کے اس جذبے نے ہماری بے پناہ تربیت کی۔ آج کاؤنٹر انسرجنسی پہلے کے مقابلے میں یکسر مختلف اور زیادہ خطرناک کام ہے۔ دوبدو لڑائی کا موقعہ کبھی کبھار ہی آتا ہے، شورش پسندوں کے چھوٹے چھوٹے یونٹ اپنے پیشرو جنگ جوؤں سے بہتر ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہیں، وہ چھاپا مار کارروائیوں اور آئی ای ڈیز کی مدد سے گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر روایتی سامان حرب نے دہشتگردانہ کارروائیوں کو مزید ہلاکت خیز بنا دیا ہے۔ آج محاذ جنگ پر موجود سپاہی کی ذمے داریاں زیادہ ہوشیاری کا تقاضا کرتی ہیں۔
رائفل کمپنی کو 1971ء سے 1974ء تک کمانڈ کرنا میری زندگی کے قابل فخر اعزازات میں سے ہے (13دسمبر 1971ء کو کرنل تاج نے چھور کے نزدیک سنوہی رج کے مقام پر 1971ء سے 1974ء تک اس کمپنی کو میرے نام سے موسوم کر دیا تھا) سال بھر قبل جب کورکمانڈر کراچی سے ملاقات کے لیے گیا تو معلوم ہوا کہ یہی ''کمپنی'' کور کمانڈر ہیڈکوارٹرز پر مامور ہے۔ جوانوں نے جلدی سے گروپ فوٹو کے لیے ایک سائن بورڈ بنایا جس پر "Sehgal Coy" (یعنی سہگل کمپنی) لکھا تھا۔
ان میں سے کوئی بھی فوجی جوان اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا ہو گا جب 42 برس قبل میں نے 1974ء کے اوائل میں فوج کو خیر باد کہا تھا۔ جوانوں سے بہتر اینول کانفیڈینشل رپورٹ (اے سی آر) کوئی نہیں لکھ سکتا، محاذ پر ساتھ لڑنے والے فوجی اپنے افسر کے مقام و مرتبے کا تعین کرتے ہیں۔ اس سطح پر لوگ ''حب الوطنی'' کے معاملے میں زیادہ سخت پیمانے رکھتے ہیں، نہ صرف یہ کہ ان کی شخصیت پہلو دار ہوتی ہے بلکہ ان کا تعلق بھی مختلف قومیتوں سے ہوتا ہے۔ جنون کی حد تک حسد رکھنے والے ناقدین تین دہائی قبل میری سبکدوشی کو آج بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس حد تک گر جاتے ہیں کہ جھوٹ گھڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
جنرل قمر باجوہ کو 16 بلوچ میں کمیشن ملا۔ انھوں نے اپنے مرحوم والد کی طرح اس یونٹ کی کمان بھی کی۔ 16بلوچ نے بہترین افسران پیدا کیے، اس کی خوش قسمتی ہے کہ بریگیڈیئر چوہدری فتح علی خان (مرحوم لیفٹننٹ جنرل افتخار علی خان اور چوہدری نثار علی خان کے والد)، لیفٹننٹ جنرل امین بخاری اور میرے اچھے دوست مرحوم لیفٹننت جنرل آغا جہانگیر جیسے افسران نے اسے کمانڈ کیا۔
باصلاحیت افسر کے طور پر اپنی پہچان بنانے والے قمر باجوہ نے دوٹوک انداز میں جمہوریت سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔ آرمی چیف کی سینیٹ کی ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب فوج پر (عدلیہ کے ساتھ مل کر) سویلین حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ آرمی چیف اچھی طرح واقف تھے کہ انھیں سینیٹ میں حزب مخالف کے سینیٹرز کے تندوتیز سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم زیادہ ''تلخی'' حکومتی بینچز کی جانب سے دکھائی گئی، جو بنیادی طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سخت (اور خلاف حقیقت) ہرزہ سرائی کا ہی پیش خیمہ تھی۔
فیض آباد دھرنے کے بارے میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ فوج کا منصوبہ تھا۔ یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ مریم کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کیسز میں جاری عدالتی کارروائی سے توجہ ہٹانے کے لیے دھرنے کی فنڈنگ کی، لیکن تنازعہ بڑھتا گیا اور بات ہاتھ سے نکل گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے دباؤ میں حکومت نے تصادم کی راہ اپنائی۔ دھرنا ختم کروانے کے لیے پولیس کی کارروائی انتہائی بھونڈے انداز میں ہوئی جس کے بعد احتجاج 80 سے زائد شہروں اور قصبات میں پھیل گیا اور پورے ملک میں خوں ریزی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ اس سے پہلے کے صورت حال مزید سنگین ہوتی اور داخلی و خارجی مسائل وہ شکل اختیار کرتے کے ملکی مستقبل کے لیے کسی ''آخری اقدام'' تک جانا پڑتا، جنرل باجوہ نے حکومت کو طاقت کے استعمال کے بجائے معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ پھر وزیر اعظم کے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق فوج نے سمجھ داری کے ساتھ بغیر کسی خون خرابے کے یہ معاملہ حل کردیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ بظاہر یہ ایک آسان سی بات محسوس ہوتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مظاہرین کے مطالبات کو صرف ایک مطالبے تک لانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔
سینیٹ میں ہر سوال کا اعتماد اور خوش دلی سے جواب دیتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ اگر فیض آباد معاملے میں فوج کا کردار ثابت ہوجائے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ آرمی چیف نے جس شاندار اور مثالی انداز میں سینیٹ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا، یہ کوئی انہونی نہیں تھی۔ تمام سیاسی حلقوں(حتی کہ عام طور پر سخت تنقید کرنے والے چیئرمین سینیٹ) کا ردّ عمل متفقہ طور پر فوج کے حق میں انتہائی مثبت تھا۔
گزشتہ برسوں سے پاک فوج کے خلاف جس طرح ''خفیہ محاذ'' کھلا ہے، ان حالات میں آرمی چیف کا سینیٹ کے سامنے پیش ہونے کا اقدام بروقت تھا، اس سے افواہوں کی اڑائی گئی گرد کا بھی ازالہ ہوا۔ اس اقدام سے ان حلقوں کو نرمی اور شائستگی کے ساتھ ''شٹ اپ'' کال دی گئی ہے جو فوج پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیتے۔ عدلیہ کو بدنام کرنے والے عناصر کو ایسی ہی شٹ اپ کال عزت مآب چیف جسٹس کی جانب سے بھی ملنی چاہیے اور انھیں کمرۂ عدالت میں وہ قوانین پڑھ کر سنائے جانے چاہیے کہ انھیں معلوم ہو، حکمرانی کا شوق پورا کرنے سے پہلے قانون کا احترام اور اس کی پابندی سیکھنا لازم ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)