ہم صرف مشینیں ہیں

آج ہمیں اپنے سماج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں انسانوں کا قحط آگیا ہو ہماری زمین وہ بنجر زمین بن کے رہ گئی ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada December 30, 2017

آج سے 2600 سال پہلے قدیم یونانی شاعر پنڈرا نے لکھا تھا '' اپنی ذات کی پہچان کے ذریعے وہی کچھ بنو جو تم ہو'' اس کا مفہو م کچھ یوں ہے کہ آپ ایک خاص قسم کی شکل و شباہت اور رحجانات کے ساتھ پیدا ہوئے ہو جو تمہارے مقدرکی نشان دہی کرتے ہیں اس مقدر کی تہہ میں صرف اور صرف آپ ہو اکثر لوگ وہ کچھ کبھی نہیں بن پاتے جو کہ و ہ حقیقت میں ہوتے ہیں اسی لیے وہ خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیشہ دوسروں کی مرضی و منشا کے مطابق کام کرتے ہیں۔

اس طرح وہ اپنے چہرے پر نقاب اوڑھ کراپنی حقیقت اورفطرت چھپا لیتے ہیں۔ 1760 میں چار سال کی عمر میں موزارٹ نے اپنے باپ کی ہدایت پر پیانو اپنے ہاتھ میں پکڑ ا موزارٹ نے اتنی کم عمری میں پیانو بجانے کے بارے میں اپنی خواہش کااظہار کیا تھا جب کہ اس کی سات سالہ بہن پہلے ہی پیانو سیکھناشروع کرچکی تھی۔ دراصل جب اس نے یہ دیکھا کہ اس کی بہن کو پیانو بجا نے کی وجہ سے والدین کی طرف سے بہت پیار اور محبت ملی ہے تو اپنے ماں باپ کا پیار اور توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کے دل میں بھی پیانو سیکھنے کا شو ق پیدا ہوا۔

پر یکٹس کے ابتدائی چند مہینوں میں اس کے باپ لیو پولڈ نے جو خود بھی ایک پائے کا پیانو نواز تھا یہ بات محسو س کی کہ اس کا بیٹا موزارٹ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے سب سے حیران کن بات اس کی عمر تھی اسے پیانو کی پریکٹس کا اتنا جنون تھا کہ رات گئے اس کے والدین کو اسے پیانو سے گھسیٹ کر جدا کرنا پڑتا۔

پانچ سال کی عمر سے ہی اس نے اپنی سریں بنانا شروع کر دی، موزارٹ نے اپنی مہارت سے درباری سامعین کو مبہوت کر کے رکھ دیا اور یورپ کا ہر شاہی دربار اس بچے کی فنی مہارت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہش مند بن گیا مگر جوں جوں اس نے بلو غت میں قدم رکھے اس کے اندر ایک نئی ہلچل مچ گئی وہ سوچتا کہ کیا اس کی خوشی کا سبب پیانو ہے یا لوگوں کی طرف سے ملنے والی توجہ اور پیار ۔ وہ الجھاؤ کا شکار ہوگیا سالہا سال تک موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتے دیتے اب وہ اپنی موسیقی تخلیق کرنے لگا تھا جو اس کا اپنا اسٹائل کہلایا اس کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ روایتی موسیقی بجا کر شاہی درباریوں کو محظوظ کرتا رہے جب کہ موزارٹ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی دنیا آپ تخلیق کرے۔

اسی وجہ سے وہ ہر گزرتے لمحے خود کو اذیت میں محسو س کرتا۔ 1777 میں اس کے والد نے موزارٹ کو 21 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ پیرس جانے کی اجازت دے دی اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ وہاں جاکر اپنا میوزیکل گروپ بنانے کی کوشش کرے تاکہ خاندان کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے مگر موزارٹ کو پیرس بالکل پسند نہ آیا اسے وہاں جو کام ملا وہ کسی طور پر اس کے مرتبے اور ٹیلنٹ کے مطابق نہ تھا اور وہ سالز برگ واپس آگیا اور خود کو مکمل طور پر والد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، اس نے کورٹ موسیقار کی معمولی نوکری تو قبول کر لی مگر اس کے دل میں ایک کھلبلی سی مچی رہتی ۔ اسے لگتا کہ و ہ عامیانہ قسم کے لوگوں کو اپنی موسیقی سے خوش کرکے اپنا قیمتی وقت برباد کررہا ہے۔

ایک موقعے پر اس نے اپنے باپ کو لکھ بھیجا کہ میں ایک کمپوزر ہوں خدا نے مجھے موسیقی کے جس ٹیلنٹ سے نوازا ہے میں اسے برباد کرسکتا ہوں نہ مجھے برباد کرنا چاہیے۔ موزارٹ کو ذاتی طور پر نہ تو پیانو کبھی محبوب تھا اور نہ ہی موسیقی، اسے کٹھ پتلی کی طرح دوسروں کے سامنے موسیقی بجانا کبھی اچھا نہیں لگتا تھا ، اسے کمپوزنگ سے عشق تھا مگر اس سے بھی کہیں زیادہ تھیٹر اچھا لگتا تھا وہ اوپراز کی کمپوزنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ہی اس کے دل کی آواز تھی 1781 میں ویانا کے دور ے کے دوران موزارٹ نے تاریخی فیصلہ کیا کہ وہ کبھی سالز بر گ واپس نہیں جائے گا اور اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا اور پھر وہ دن رات کمپوزنگ میں یوں مصروف ہوگیا گویا اس پر جنات کا سایہ ہو۔

آج پوری دنیا موزارٹ کی پوجاکرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے دل کی بات مان لی تھی ۔ اصل میں ہم سب بھی موزارٹ ہی ہیں ہم سب کا بچپن سے جوانی تک کا سفر بڑا کٹھن اورتکلیف دہ ہوتا ہے اس دوران ہمارے ماں باپ ہم میں اپنے آپ کو تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ ہم میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہو تے ہیں وہ دراصل اپنے ادھورے اور کنوارے خوابوں کو ہمارے ذریعے پورا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ اپنی تکمیل ہمارے ذریعے سے کرنے کی جستجو میں مصروف ہوتے ہیں۔

ہم سب بچپن سے نوجوانی تک اپنے آپ کے اور اپنے ماں باپ کے خوابوں کے درمیان پستے رہتے ہیں۔ اس ساری کشمکش میں ہم خود کہیں گم ہوجاتے ہیں کھو جاتے ہیں اصل میں ہم رشتوں کو بھی اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے ہیں ایسی جاگیر جہاں کوئی بات ہماری مرضی کے خلاف نہیں ہونی چاہیے اور اپنی مرضی کے چکر میں ہم دوسروں کی مرضی کو گھاس تک نہیں ڈالتے ہیں بس اپنی مرضی کا ڈنڈا مارتے رہتے ہیں اور پھر ہم ساری زندگی دوسروں کی مرضی کو پورا کرنے میں گذار دیتے ہیں۔

بچپن میں ہم اپنی خواہشوں ، اپنی مرضی، اپنے خوابوں سے لاعلم ہوتے ہیں اور یہ سب ہمارے اندر کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں ہم محسو س نہیں کرپاتے ہیں اور جب نوجوانی میں وہ خواہشات ، آرزوئیں ، خواب ایک دم ہمارے اندر سے باہر آکر ہمارے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہم ڈر جاتے ہیں اور ان سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہر بار ہمیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس طرح ہم نہ ہم رہتے ہیں اور نہ ہم کبھی دوسرے بن پاتے ہیں اور اس طرح ہم سب دوغلی اور جھوٹی زندگی گذارتے رہتے ہیں اور ہمارے اندر کا خلا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور آخر میں صرف خلا ہی باقی رہ جاتا ہے کیونکہ ہم دوسروں کے خوابوں کو پورا کر نے کے لیے جس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہمارے ذہنی رحجانات اور ہمارے خوابوں سے کوئی مطابق نہیں رکھتے ہیں اس لیے ہماری قدرتی صلاحیت اور قابلیت کو دیمک چاٹنا شروع کر دیتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے سماج میں ہر شعبے میں دولت بنانے والی مشین تو جابجا نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی انسان نظر نہیں آتے۔

آج ہمیں اپنے سماج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں انسانوں کا قحط آگیا ہو ہماری زمین وہ بنجر زمین بن کے رہ گئی ہے جو انسان نہیں صرف مشینوں کو جنم دے رہی ہے و ہ مشینیں جو ہراحساس ، جذبات ، فکر، سوچ ، خیالات سے خالی ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی حس نہیں سب کی سب بے حس ہیں فقط دولت تیار کرنے والی مشینیں ہیں ، جنہیں پیار ، محبت ، سکو ن، اخوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے انھیں صرف گریس، پیٹرول اور مٹی کے تیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔