اس نقل کا کیا کریں

نقل کرنا اورکروانا ایک مافیا کی شکل اختیارکر گیا ہے۔

shehla_ajaz@yahoo.com

ابھی پچھلے ہی ہفتے میٹرک کا رزلٹ آیا ہے جس میں طالب علموں کے پاس ہونے کی شرح دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے بچے پڑھائی کے معاملے میں کس نہج پر چل رہے ہیں ۔ ایک طویل عرصے سے نقل اور اس کو روکنے کے حوالے سے بہت کچھ سنتے آرہے ہیں لیکن صورتحال میں کچھ خاص فرق نہیں آیا ہے۔

نقل کرنا اورکروانا ایک مافیا کی شکل اختیارکر گیا ہے۔ ایک ایسا مافیا جس کے سرپرست پڑھے لکھے لوگ ہیں جن کا یقین یقینا یہ ہی ہے کہ بچوں کو ڈگریاں اور تعلیمی اسناد جمع کرنے کے مرض میں دھکیل کر ان کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے اور یہ سود مند منافع بخش کاروبار بظاہر باعزت بھی ہے اور محفوظ بھی، اس معاشرے میں آج ایک استاد کا جو مقام ہے اس میں اور آپ تو بخوبی واقف ہیں لیکن آنے والا کل استاد کے کیا مقام تجویز کرتا ہے یہ ایک اور توجہ طلب نقطہ ہے۔

اس برس کراچی میں سائنس گروپ کے انتیس ہزار چھ سو چوبیس طلبا وطالبات نے امتحانات میں شرکت کی اور ان میں سے پندرہ ہزار چار سو باون طلبا وطالبات نے کامیابی حاصل کی اس طرح پاس ہونے کی شرح 52.16 فی صد بنی گویا امتحانات میں شریک ہونے والوں کی آدھی سے کچھ زائد تعداد پاس ہوئی، یعنی 47.84 فی صد بچے فیل ہوگئے جب کہ جنرل گروپ میں تین ہزار تین سو نو طلبا وطالبات نے امتحانات میں شرکت کی اور پندرہ سو پچانوے بچے کامیاب قرار دیے گئے۔

اس طرح شرح کامیابی 48.2 فی صد یہ شرح سائنس گروپ کے مقابلے میں مزید خراب رہی یعنی 51.98 فی صد بچے فیل ہوئے اگر ذرا اس نتیجے پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ بچوں کا زیادہ رجحان سائنس کی جانب ہے یعنی سائنس اور جنرل گروپ کے درمیان چھبیس ہزار تین سو پندرہ بچوں کا فرق ہے اور یہ ایک واضح فرق ہے لیکن سائنس گروپ کے بچوں کے فیل ہونے کی شرح اور جنرل گروپ کے بچوں کے فیل ہونے کی شرح میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔

پاس ہونے والے بچوں کی تعلیمی قابلیت میں کیا ان کی اپنی صلاحیتیں شامل ہیں یا اس میں نقل کے عناصر کا بھی ہاتھ ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ امتحانی مراکز میں سیکیورٹی کے اعلیٰ انتظامات کے باوجود کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ بچے تعلیمی قابلیت کے حوالے سے اتنے آگے ہیں کہ ان کی ذہانت دیکھ کر دل خوشی سے جھوم جاتا ہے کہ بچے ہی ہماری قوم کی میراث ہیں۔


دنیا بھر میں نقل اور اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بحث جاری ہے کیونکہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی نقل کے مافیا پھیلے ہوئے ہیں اور جو جو تراکیب استعمال کی جارہی ہیں اس سے عقل حیران رہ جاتی ہے۔

ہاتھ کے ناخن سے لے کر نظر کے چشمے تک نقل کے آلات نصب ہیں اور اس انداز و مہارت سے یہ کام کیے گئے ہیں کہ ان کو ڈھونڈنے میں خاصی دقت ہوتی ہے اسی طرح لباس میں بھی نقل کے آلات یوں نصب کیے گئے جیسے خودکش جیکٹ میں بم نصب کیے جاتے ہیں جدید ترین موبائل فونز اور اس کے آلات بھی اس نقل جوئی کی مہم میں خاصے کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ چین، کوریا اور دوسرے ایشیائی ممالک میں نقل کی تراکیب اور پرچے آؤٹ کرنے اور فروخت کردینے کے مافیاز پھیلے ہوئے ہیں جن میں اعلیٰ درسگاہوں میں داخلے کے لیے ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

طالب علموں کی تعلیمی قابلیت کو جانچنے کے لیے مشہور تنظیم SAT ٹیسٹ لیتی ہے اس میں ایشیا کے طالب علموں کے اسکورز کو نقل کی بنیاد پر کینسل کیا جارہا ہے۔ SAT ایک انٹرنیشنل تنظیم ہے جو اورسیز میں اعلیٰ درسگاہوں میں داخلے کے لیے ٹیسٹ لیتی ہے جس میں اعلیٰ ماہرین سوالنامہ تیار کرتے ہیں یہ سوالنامے حساب کے علاوہ جنرل نالج وغیرہ پر بھی مبنی ہوتے ہیں جس کو حل کرنے کے لیے بچوں میں اتنی قابلیت اور ذہانت بھی ہونی چاہیے یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنے ملک یا شہر کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے اعلیٰ گریڈز یا نمبر حاصل کر رکھے ہوں، اعلیٰ کالجز اور یونی ورسٹیز داخلے کے لیے SAT کا استعمال ہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی طرز پر سائنس انجینئرنگ اور دوسرے اعلیٰ درس گاہوں اور ملازمتوں کے لیے این ٹی ایس کے ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں۔

SAT کے ٹیسٹ کے لیے سوالناموں پر مبنی ٹیسٹ پیپرز پہلے امریکا میں دیے جاتے ہیں اور پھر اسی سوالنامے کو دوسرے ممالک میں بھیجا جاتا ہے لیکن پہلی بار ہی جب یہ ٹیسٹ پیپرز باہر آئے تو اسے چین سے لے کر ساؤتھ کوریا تک ہی پہنچا دیا گیا اس کے بعد سعودی عرب میں بھی اس کے بڑے دام حاصل کیے گئے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے لیے بھرپور نتائج حاصل نہ کرسکے کیونکہ اس نقل کی خبر بھی اسی طرح پھیل چکی تھی لہٰذا SAT نے ایشیا سے تعلق رکھنے والے کئی طالب علموں کے اسکورز کو اسی بنیاد پر کینسل کردیا یہ ایک بڑا اسکینڈل تھا جو SAT کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے طالب علم پاکستان اور اسی طرح کے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ذہین ہیں لیکن ذہانت کو چمکانے والے اعلیٰ اسناد ہی ہوتے ہیں جو ایک ہیرے کو اچھی طرح تراش خراش کر قیمتی بنادیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں قیمتی ہیرے تو ہیں لیکن ان ہیروں کو فٹ کردینے والوں کی اہلیت کبھی کرپشن تو کبھی اقربا پروری کی مٹی میں دب جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجز سے لے کر یونی ورسٹیز تک میں اساتذہ کو اچھی خاصی تنخواہ تو مل جاتی ہے لیکن اس اچھی خاصی تنخواہ کے لحاظ سے کیا ان کی اہلیت بھی اسی طرح ہوتی ہے تو اس کا جواب اب کیا دیں کہ سب جانتے ہی ہیں۔

حال ہی میں بڑے کالجز کے پرنسپلز نے اس بات پر خاصا اعتراض اٹھایا ہے کہ ان کے بچوں کو نہایت کم نمبرز دے کر پاس کیا گیا ہے جب کہ یہ بچے ہماری زبان میں کریم بچے ہیں جنھوں نے اعلیٰ گریڈز حاصل کرکے ان اعلیٰ کالجز میں داخلے لیے تھے پھر ان بچوں کے بارہویں جماعت کے نتائج میں ایسی خراب کارکردگی تو اس کے جوابات کی فہرست طویل ہے ایسے ہی ایک اعلیٰ کالج کی سابقہ طالبہ کا کہناہے کہ اس نے شہر کے ایک عام پرائیویٹ اسکول سے اچھے گریڈ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شہر کے اس اعلیٰ کالج میں داخلہ لیا وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر امتحانات میں تو اچھے نمبرز حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہوگئی لیکن پریکیٹکل میں اس کے نمبرز خاصے کم تھے کیونکہ وہ اپنے کالج کے ایک استاد کے نجی ٹیوشن سینٹر پر نہ جاسکی کیونکہ وہ خاصا دور تھا اور اسی عمل امتحان میں اس کے نمبرز خاصے کم آئے جب کہ ان کی ایک ساتھی طالبہ کے تمام پریکیٹکلز میں پورے نمبرز آئے اور ایک پریکیٹکل میں کم آئے تو وہ خاصا ناراض ہوئی اور کہاکہ کیا میں نے اسی لیے اتنے سارے پیسے دیے تھے کہ میرے اس پریکیٹکل میں اتنے نمبر آئے۔ اور یہ بھی ایک مافیا ہے اور بھی بہت سے مافیا عام ہیں جو اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں خدا خیر کرے ۔دعا ہے کہ نقل اتنی بھی عام نہ ہو کہ اصل پر بھی نقل کا گمان ہو۔
Load Next Story