فرشتہ اجل کے ساتھ آنکھ مچولی
موت سے آنکھ مچولی کھیلنے کا ایک اور واقعہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
پہلی دفعہ میں دمبالو نہر میں ڈوب کر مرتے مرتے بچا تھا، جہاں ہم اپنے اسکول کی طرف سے پکنک منانے گئے تھے۔ مین ریگولیٹر کے پاس پانی کافی گہرا تھا، اس لیے ان لڑکوں کو جنھیں تیرنا نہیں آتا تھا، اس میں نہانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ میں کنارے پر کھڑا ان اساتذہ اور بڑے لڑکوں کو نہاتے دیکھ رہا تھا جو ریگولیٹر پر چڑھ کر بلندی سے نہر میں کود رہے تھے۔ اس وقت میری عمر کوئی دس بارہ سال رہی ہوگی اور میں انگریزی تیسرے درجے (آج کل کی چھٹی کلاس) میں پڑھتا تھا۔
نہانے اور اچھل کود کرنے والے لڑکوں میں میرا ایک کلاس فیلو لڑکا بھی شامل تھا، جو وہیں دمبالو کے کسی قریبی گاؤں کا رہائشی تھا۔ عمر اور قد میں تو مجھ سے بڑا تھا ہی، بہت اچھا تیراک بھی تھا، پچھلے جنم میں ضرور کوئی بطخ رہا ہوگا کہ اسی کی طرح گہرے پانی میں صرف پیروں کی مدد سے یوں تیرنا جانتا تھا کہ دیکھنے والوں کو لگے ایک جگہ کھڑا ہے۔ اس نے مجھے کھڑا دیکھ کر اپنے ساتھ نہانے کی دعوت دی۔ میں نے کہا مجھے تیرنا نہیں آتا جب کہ یہاں کہتے ہیں پانی بھی بہت گہرا ہے۔ بولا، جھوٹ کہتے ہیں، کوئی گہرا وہرا نہیں ہے اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر دکھانے لگا کہ بس اتنا (کمر جتنا) پانی ہے۔
اس کے اکسانے پر میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، لنگوٹ پہنے ہوئے تو تھا ہی، کچھ دور پیچھے جاکر بھاگ کر آیا اور نہر میں چھلانگ لگا دی۔ وہ لڑکا مجھے پکڑنے یا میری مدد کرنے کے بجائے چپکے سے کہیں کھسک گیا۔ اب میں تھا اور پانی کی گہرائی، پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے کہ زمین ہوتی تو لگتے، پہلے تو غوطے کھاتا رہا اور پھر لگا پاتال میں جانے۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ایک ٹیچر نے اوپر لیگولیٹر پر چڑھ کر نہر میں چھلانگ لگائی تھی، جس نے اسے مجھ تک پہنچادیا اور اس نے یہ جان کر کہ کوئی لڑکا ڈوب رہا ہے، مجھے دونوں ہاتھوں سے پکڑلیا۔
غوطے کھانے کی وجہ سے اگرچہ میرا برا حال تھا لیکن بیہوش نہیں ہوا تھا۔ پکنک بھول کر سب میرے گرد جمع ہوگئے، اساتذہ نے الٹا لٹا کر اور پیٹھ دبا دبا کر پہلے تو پیٹ سے پانی نکالا اور پھر حکم عدولی کی سزا بھی دل کھول کر دی۔ مار کھانے کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنی خوشی زندہ بچ جانے کی تھی۔ مار تو روز اسکول میں اساتذہ اور گھر میں ابا سے کھانے کی ویسے بھی عادت تھی، اس لیے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔
دوسری بار موت کو اس وقت بہت قریب سے دیکھا جب میں اور اقبال (میرا جگری دوست جو اب دنیا میں نہیں ہے) ایک کاٹن جننگ فیکٹری کا ''معائنہ'' کرنے گئے ہوئے تھے۔ فیکٹری ان دنوں نئی نئی لگی تھی اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا چیف انجینئر ایک برمی تھا جو اکثر جیپ میں ادھر ادھر آتا جاتا رہتا تھا۔ وہ جب بھی ہمیں فیکٹری میں گھومتے دیکھتا، جیپ روک کر پوچھتا معائنہ کرنے آئے ہو، میں کچھ مدد کروں؟ فیکٹری کے عقبی حصے میں بہت بڑا پختہ تالاب بنا ہوا تھا، جس میں سے موٹے موٹے فولادی پائپوں کے ذریعے پانی کھینچ کر مشینوں تک پہنچایا جاتا تھا۔
تالاب میں اترنے کے لیے دو اطراف سے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، جنھیں باہم ملانے کے لیے دو فٹ چوڑی دیوار چن کر تالاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ تالاب پر پہنچ کر اقبال کو اچانک نہانے کی سوجھی، اس کو تھوڑا بہت تیرنا بھی آتا تھا، جھٹ کپڑے اتار اور قمیص کا لنگوٹ بنا کر سیڑھی سے نیچے پانی میں اتر گیا۔ میرا نہانے کو قطعاً جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن اس کو کمپنی دینے کے لیے میں نے بھی لنگوٹ باندھا اور سیڑھی پر یوں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا کہ کمر تک بدن پانی کے اندر تھا۔ اقبال پائپوں سے دور بیچ تالاب میں نہاتا اور تیرتا رہا۔
مجھے پتہ نہیں تھا کہ پانی میں ڈوبے ہوئے یہ پائپ دراصل موٹروں کے ذریعے پریشر سے پانی کھینچنے کے لیے تھے، جن کے زیرِ آب آخری سرے پر موٹی جالی لگی ہوئی تھی تاکہ پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز مشینوں تک نہ پہنچ سکے۔ ایک پائپ سیڑھی سے اتنا قریب تھا کہ ہاتھ بڑھا کر اس تک پہنچا جاسکتا تھا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے لپک کر پائپ پکڑ لیا اور اس کی مدد سے سانس روک کر پانی میں اترنے لگا۔
سوچا تھا اگر سانس ٹوٹی تو جھٹ باہر آجاؤں گا کہ پائپ تو میرے ہاتھوں میں ہی تھا، لیکن مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ پریشر سے تالاب کا پانی کھینچنے والا یہ پائپ مجھے بھی کھینچ لے گا۔ ایسا ہی ہوا، ایک جھٹکے سے میں گہرے پانی میں پیٹ کے بل جالی کے ساتھ چپک گیا، سانس ٹوٹی تو میں غوطے بھی کھانے لگا، مگر قبل اس کے کہ پریشر سے میرا پیٹ ہی پھٹ جاتا، پائپ نے خود ہی مجھے چھوڑ دیا اور میں نیم بیہوشی کی حالت میں سطح آب پر تیرنے لگا۔ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اقبال کو پتہ ہی نہیں چلا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ادھر پانی کی سپلائی رکی تو مشینیں بند ہوگئیں۔
لوگ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا، تالاب کی طرف دوڑے تو انھوں نے مجھے دیکھا اور باہر نکالا۔ بعد میں جب ابا مجھے لے کر گھر آرہے تھے تو میں نے کسی کو ان سے کہتے ہوئے سنا ''شکر کرو، مشینیں بند ہوجانے کی وجہ سے پائپ نے چھوڑ دیا ورنہ تم آج اس کی لاش لے کر جارہے ہوتے''۔
موت سے آنکھ مچولی کھیلنے کا ایک اور واقعہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ٹرانسپورٹر مظفر شاہ کے بڑے سالے رحیم شاہ کے پاس ایک کار ہوا کرتی تھی جو وہ ٹیکسی کے طور پر چلاتا اور پرانی ڈسپنسری کے پاس سواری ملنے کے انتظار میں کھڑا رہتا تھا۔ اس روز نواحی گاؤں پابینی کے دو زمیندار بھائیوں کو سول جج ماتلی کی کورٹ میں پیش ہونا تھا، اپنے گھوڑوں پر آئے تھے پھر بھی انھیں پہنچنے میں کچھ دیر ہوگئی اور لاری (بس) نکل گئی، مجبوراً انھیں ٹیکسی کرنی پڑی۔
رحیم شاہ کی جگہ اس کا لنگڑا بھائی آگے بڑھا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے ان کے پاس لے آیا۔ رند ذات کے یہ دونوں بھائی فربہ جسم کے بھاری بھرکم آدمی تھے، ان میں سے ایک جس کا نام عمر تھا، ابا کے پاس اکثر دکان پر آیا کرتا تھا، اس نے مجھے کھڑا دیکھا تو بلا کر اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھالیا، میں بھی کار کی سواری کرنے کے شوق میں دونوں کے بیچ پھنس کر بیٹھ گیا۔
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب سرکاری زمینیں سیراب کرنے کے لیے لائینڈ چینل کے نام سے ایک پختہ نہر حیدرآباد سے کھوسکی تک نکالی گئی تھی اور جو ماتلی شہر کے باہر سے گزرتی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے اس کے پل پر سے گزرنا پڑتا تھا جو سڑک سے کافی اونچائی پر تھا۔ لنگڑے شاہ نے چڑھائی چڑھنے کے لیے گاڑی کی رفتار تیز کی اور مسلسل ہارن دیتا ہوا آگے بڑھا تو پل پر پہنچ کر اس نے سامنے سے دوسری گاڑی آتی ہوئی دیکھی۔ بریک لگانے کی دیر تھی کہ کار الٹ گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ڈھلان میں لڑھکتی گئی، رکی تو دونوں دروازے پٹ کھلے ہوئے تھے، میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے دونوں موٹے بھائی اور ڈرائیور شدید زخمی تھے، ایسے کہ ان سے ہلا بھی نہ جاتا تھا، بیچ میں بیٹھے ہونے کی وجہ سے میں بچ گیا، معمولی سی کوئی خراش بھی نہیں آئی، بڑی مشکل سے زور لگاکر باہر نکلا۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا کیا کروں کہ پیچھے سے ایک جیپ آکر رکی اور اس میں سوار لوگوں نے نہ صرف انھیں نکالا بلکہ ماتلی کے اسپتال بھی پہنچایا۔ جونہی ماتلی سے لوٹنے والی لاری وہاں پہنچی اور حادثے کی جگہ رکی، میں اس میں سوار ہوگیا اور موت سے بچ کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔
نہانے اور اچھل کود کرنے والے لڑکوں میں میرا ایک کلاس فیلو لڑکا بھی شامل تھا، جو وہیں دمبالو کے کسی قریبی گاؤں کا رہائشی تھا۔ عمر اور قد میں تو مجھ سے بڑا تھا ہی، بہت اچھا تیراک بھی تھا، پچھلے جنم میں ضرور کوئی بطخ رہا ہوگا کہ اسی کی طرح گہرے پانی میں صرف پیروں کی مدد سے یوں تیرنا جانتا تھا کہ دیکھنے والوں کو لگے ایک جگہ کھڑا ہے۔ اس نے مجھے کھڑا دیکھ کر اپنے ساتھ نہانے کی دعوت دی۔ میں نے کہا مجھے تیرنا نہیں آتا جب کہ یہاں کہتے ہیں پانی بھی بہت گہرا ہے۔ بولا، جھوٹ کہتے ہیں، کوئی گہرا وہرا نہیں ہے اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر دکھانے لگا کہ بس اتنا (کمر جتنا) پانی ہے۔
اس کے اکسانے پر میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، لنگوٹ پہنے ہوئے تو تھا ہی، کچھ دور پیچھے جاکر بھاگ کر آیا اور نہر میں چھلانگ لگا دی۔ وہ لڑکا مجھے پکڑنے یا میری مدد کرنے کے بجائے چپکے سے کہیں کھسک گیا۔ اب میں تھا اور پانی کی گہرائی، پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے کہ زمین ہوتی تو لگتے، پہلے تو غوطے کھاتا رہا اور پھر لگا پاتال میں جانے۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ایک ٹیچر نے اوپر لیگولیٹر پر چڑھ کر نہر میں چھلانگ لگائی تھی، جس نے اسے مجھ تک پہنچادیا اور اس نے یہ جان کر کہ کوئی لڑکا ڈوب رہا ہے، مجھے دونوں ہاتھوں سے پکڑلیا۔
غوطے کھانے کی وجہ سے اگرچہ میرا برا حال تھا لیکن بیہوش نہیں ہوا تھا۔ پکنک بھول کر سب میرے گرد جمع ہوگئے، اساتذہ نے الٹا لٹا کر اور پیٹھ دبا دبا کر پہلے تو پیٹ سے پانی نکالا اور پھر حکم عدولی کی سزا بھی دل کھول کر دی۔ مار کھانے کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنی خوشی زندہ بچ جانے کی تھی۔ مار تو روز اسکول میں اساتذہ اور گھر میں ابا سے کھانے کی ویسے بھی عادت تھی، اس لیے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔
دوسری بار موت کو اس وقت بہت قریب سے دیکھا جب میں اور اقبال (میرا جگری دوست جو اب دنیا میں نہیں ہے) ایک کاٹن جننگ فیکٹری کا ''معائنہ'' کرنے گئے ہوئے تھے۔ فیکٹری ان دنوں نئی نئی لگی تھی اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا چیف انجینئر ایک برمی تھا جو اکثر جیپ میں ادھر ادھر آتا جاتا رہتا تھا۔ وہ جب بھی ہمیں فیکٹری میں گھومتے دیکھتا، جیپ روک کر پوچھتا معائنہ کرنے آئے ہو، میں کچھ مدد کروں؟ فیکٹری کے عقبی حصے میں بہت بڑا پختہ تالاب بنا ہوا تھا، جس میں سے موٹے موٹے فولادی پائپوں کے ذریعے پانی کھینچ کر مشینوں تک پہنچایا جاتا تھا۔
تالاب میں اترنے کے لیے دو اطراف سے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، جنھیں باہم ملانے کے لیے دو فٹ چوڑی دیوار چن کر تالاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ تالاب پر پہنچ کر اقبال کو اچانک نہانے کی سوجھی، اس کو تھوڑا بہت تیرنا بھی آتا تھا، جھٹ کپڑے اتار اور قمیص کا لنگوٹ بنا کر سیڑھی سے نیچے پانی میں اتر گیا۔ میرا نہانے کو قطعاً جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن اس کو کمپنی دینے کے لیے میں نے بھی لنگوٹ باندھا اور سیڑھی پر یوں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا کہ کمر تک بدن پانی کے اندر تھا۔ اقبال پائپوں سے دور بیچ تالاب میں نہاتا اور تیرتا رہا۔
مجھے پتہ نہیں تھا کہ پانی میں ڈوبے ہوئے یہ پائپ دراصل موٹروں کے ذریعے پریشر سے پانی کھینچنے کے لیے تھے، جن کے زیرِ آب آخری سرے پر موٹی جالی لگی ہوئی تھی تاکہ پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز مشینوں تک نہ پہنچ سکے۔ ایک پائپ سیڑھی سے اتنا قریب تھا کہ ہاتھ بڑھا کر اس تک پہنچا جاسکتا تھا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے لپک کر پائپ پکڑ لیا اور اس کی مدد سے سانس روک کر پانی میں اترنے لگا۔
سوچا تھا اگر سانس ٹوٹی تو جھٹ باہر آجاؤں گا کہ پائپ تو میرے ہاتھوں میں ہی تھا، لیکن مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ پریشر سے تالاب کا پانی کھینچنے والا یہ پائپ مجھے بھی کھینچ لے گا۔ ایسا ہی ہوا، ایک جھٹکے سے میں گہرے پانی میں پیٹ کے بل جالی کے ساتھ چپک گیا، سانس ٹوٹی تو میں غوطے بھی کھانے لگا، مگر قبل اس کے کہ پریشر سے میرا پیٹ ہی پھٹ جاتا، پائپ نے خود ہی مجھے چھوڑ دیا اور میں نیم بیہوشی کی حالت میں سطح آب پر تیرنے لگا۔ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اقبال کو پتہ ہی نہیں چلا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ادھر پانی کی سپلائی رکی تو مشینیں بند ہوگئیں۔
لوگ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا، تالاب کی طرف دوڑے تو انھوں نے مجھے دیکھا اور باہر نکالا۔ بعد میں جب ابا مجھے لے کر گھر آرہے تھے تو میں نے کسی کو ان سے کہتے ہوئے سنا ''شکر کرو، مشینیں بند ہوجانے کی وجہ سے پائپ نے چھوڑ دیا ورنہ تم آج اس کی لاش لے کر جارہے ہوتے''۔
موت سے آنکھ مچولی کھیلنے کا ایک اور واقعہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ٹرانسپورٹر مظفر شاہ کے بڑے سالے رحیم شاہ کے پاس ایک کار ہوا کرتی تھی جو وہ ٹیکسی کے طور پر چلاتا اور پرانی ڈسپنسری کے پاس سواری ملنے کے انتظار میں کھڑا رہتا تھا۔ اس روز نواحی گاؤں پابینی کے دو زمیندار بھائیوں کو سول جج ماتلی کی کورٹ میں پیش ہونا تھا، اپنے گھوڑوں پر آئے تھے پھر بھی انھیں پہنچنے میں کچھ دیر ہوگئی اور لاری (بس) نکل گئی، مجبوراً انھیں ٹیکسی کرنی پڑی۔
رحیم شاہ کی جگہ اس کا لنگڑا بھائی آگے بڑھا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے ان کے پاس لے آیا۔ رند ذات کے یہ دونوں بھائی فربہ جسم کے بھاری بھرکم آدمی تھے، ان میں سے ایک جس کا نام عمر تھا، ابا کے پاس اکثر دکان پر آیا کرتا تھا، اس نے مجھے کھڑا دیکھا تو بلا کر اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھالیا، میں بھی کار کی سواری کرنے کے شوق میں دونوں کے بیچ پھنس کر بیٹھ گیا۔
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب سرکاری زمینیں سیراب کرنے کے لیے لائینڈ چینل کے نام سے ایک پختہ نہر حیدرآباد سے کھوسکی تک نکالی گئی تھی اور جو ماتلی شہر کے باہر سے گزرتی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے اس کے پل پر سے گزرنا پڑتا تھا جو سڑک سے کافی اونچائی پر تھا۔ لنگڑے شاہ نے چڑھائی چڑھنے کے لیے گاڑی کی رفتار تیز کی اور مسلسل ہارن دیتا ہوا آگے بڑھا تو پل پر پہنچ کر اس نے سامنے سے دوسری گاڑی آتی ہوئی دیکھی۔ بریک لگانے کی دیر تھی کہ کار الٹ گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ڈھلان میں لڑھکتی گئی، رکی تو دونوں دروازے پٹ کھلے ہوئے تھے، میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے دونوں موٹے بھائی اور ڈرائیور شدید زخمی تھے، ایسے کہ ان سے ہلا بھی نہ جاتا تھا، بیچ میں بیٹھے ہونے کی وجہ سے میں بچ گیا، معمولی سی کوئی خراش بھی نہیں آئی، بڑی مشکل سے زور لگاکر باہر نکلا۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا کیا کروں کہ پیچھے سے ایک جیپ آکر رکی اور اس میں سوار لوگوں نے نہ صرف انھیں نکالا بلکہ ماتلی کے اسپتال بھی پہنچایا۔ جونہی ماتلی سے لوٹنے والی لاری وہاں پہنچی اور حادثے کی جگہ رکی، میں اس میں سوار ہوگیا اور موت سے بچ کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔