وادی مہران کی تعلیمی صورت حال
132 کالجوں میں قائم مقام پرنسپل تعینات ہیں۔
سندھ کے تعلیمی منظرنامہ حکومت کی بے رغبتی اور عدم توجہی کا نوحہ پیش کر رہا ہے۔
ہمارے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے نانا پیر الٰہی بخش صوبے کے ایک درد مند وزیر اعلا کی شہرت رکھتے ہیں، قیام پاکستان کے ابتدائی درو میں مہاجرین کی آبادکاری سے لے کر تعلیمی ترقی تک ان کی خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں، اس کے باوجود پیر مظہر بطور وزیر تعلیم اس تسلسل کو قائم رکھنے میں کام یاب نظر نہیں آتے۔ صوبے میں تعلیمی صورت حال بالخصوص ثانوی اسکولوں کی حالت زار انتہائی مخدوش اور لمحہ فکریہ ہے۔
صدر مملکت اور وزیر اعلا سندھ کے آبائی اضلاع سمیت سندھ بھر میں چار ہزار آٹھ سو پینتیس 4,835 بالترتیب ضلع بدین میں 566، دادو 443، حیدر آباد 15، گھوٹکی126، جیکب آباد 178، جام شورو 201، خیرپور 426، لاڑکانہ 66، مٹیاری 50، میرپور خاص 263، نوشہرو فیروز 84، نواب شاہ 490، سانگھڑ 123، شکارپور 263، سکھر 89، ٹنڈوالٰہ یار 105، ٹنڈو محمد خان 262، ٹھٹھہ 194، عمر کوٹ 371 اور تھرپارکر میں سب سے زیادہ 1086 اسکول درس گاہوں کے بجائے وڈیروں کی اوطاق اور پولیس تھانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
البتہ ان میں تعینات من پسند عملہ گھر بیٹھے یا وڈیرے کی خدمت کے عوض تن خواہیں وصول کر رہا ہے۔ حکمرانوں کے نزدیک تعلیمی ادارے سرکاری مال خانے سے زیادہ اہم نہیں، جن میں اہلیت کے بر خلاف من پسند افراد بھرتی کر کے تعلیم جیسے اہم شعبے کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔
سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں میں چلنے والے 1300 اسکول فنڈز کی عدم فراہمی کے سبب بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں ان میں ڈیڑھ لاکھ طلبا و طالبات پس ماندہ علاقوں کے زیر تعلیم ہیں، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی دائرہ اختیار میں شامل ہوئی، لیکن صوبے میں اس حوالے سے کوئی تیاری اور منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی، ہر طرف ایڈہاک ازم یعنی کام چلاؤ مال بناؤ کا ماحول گرم ہے۔ وزارت تعلیم کے ماتحت اہم محکمے سربراہان کے بغیر جونیئر افراد کو اضافی ذمے داریاں دے کر چلائے جا رہے ہیں۔
اساتذہ سے لے کر غیر تدریسی عملے کی تقرریوں تک ''جس کو پیا چاہے'' والا معاملہ، سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ نئے تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان تو بڑے طمطراق سے کیا جاتا ہے، مگر سنگ بنیاد کی نقاب کشائی سے آگے بات نہیں بڑھتی، تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے بہ جائے ایسی عمارات پر تزئین و آرایش کے نام پر کروڑوں لگا دیے گئے، جن کی تعمیر کو ابھی پانچ چھ سال سے زاید عرصہ بھی نہ گزرا تھا،جب کہ اس سے کہیں بہتر تھا کہ یہ رقم تعلیمی اداروں میں بجلی، پانی، تجربہ گاہوں کے لیے گیس کی فراہمی اور طلبہ کے لیے کتب خانے اور فرنیچر پر خرچ کی جاتی۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، نصابی کتب کی چھپائی اور تعلیمی سال کے آغاز پر بروقت فراہمی کا ذمہ دار ہے، تاکہ طلبہ کی تدریس کام یابی سے جاری رہ سکے، لیکن یہ بھی چیئرمین کے بغیر ادھورا ہے، صرف سیکریٹری عبدالقادر رند ہی سارے معاملات کے مالک ہیں، نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے کو ہے، لیکن نصابی کتب کی فراہمی تو دور کی بات ابھی تک چھپائی کے معاملات بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔
سندھ میں تعلیم کی بہتری کے لیے بڑے دعوے کیے گئے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئے نصاب کو 2013ء میں رائج کرنا تعلیمی ترجیح قرار دیا گیا، اس سلسلے میں ادارہ تدوین نصاب سازی سندھ، بیورو آف کریکولم کے ماتحت ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی کہ نصاب پر نظرثانی وترمیم کا آغاز کیا جا سکے، مگر نشستن، گفتن اور برخاستن سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا۔ اب چاہے اس کے پیچھے بڑے نجی تعلیمی ادارے ہوں یا مضبوط ناشرین کتب، بہرحال ہمارا طالب علم جامد نصاب پڑھنے پر مجبور ہے۔
سندھ کے پانچوں علاقائی نظام تعلیمات برائے کالجز، حیدر آباد، لاڑکانہ، سکھر، میرپورخاص اور کراچی 1979ء کے سابقہ انتظامی نظام کے رائج ہوتے ہی اپنی سابقہ حیثیتوں میں بحال ہو چکے ہیں، جب کہ انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے اس سال انٹر کے امتحانات ایک ماہ قبل شروع کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ کراچی کے 132 کالجوں کا انتظامی سربراہ، قائم مقام ہے۔ یکم ستمبر 2012ء سے ریجنل ڈائریکٹر کی اسامی (جو 20 گریڈ ہے)، اس کو ریجنل ڈائریکٹر حیدرآباد کو اضافی ذمے داری دے کر چلایا جا رہا ہے، 20 گریڈ کا کوئی اہل افسر دستیاب ہی نہیں۔
سندھ ٹیچرز فورم (ایس ٹی ایف) کے کوآرڈینیٹر پروفیسر سید عزیر مدنی نے اس معاملے پر حکومت کی بے حسی کو تعلیم دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے 82 کالجوں میں باضابطہ پرنسپل کا تقرر نہ ہونا، اساتذہ کی اپ گریڈیشن، 17 سے 18 اور 18 سے 19 گریڈ میں ترقیوں کا التوا، کئی مضامین میں اساتذہ کی کمی، اعلا ثانوی تعلیمی بورڈ میں ریٹائرڈ افراد کا تقرر، علاقائی نظامت تعلیمات میں، ایڈیشنل ڈائریکٹر معائنہ، ایڈیشنل ڈائریکٹر مالیات، ڈپٹی ڈائریکٹر معائنہ، تین اکاؤنٹنٹ آفیسر، اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اسامیوں پر اہل افراد کی تعیناتی نہ ہونے کے سبب کراچی میں کالجوں کا برا حال ہے۔
اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے مختلف معاملات کا طویل عرصے سے حل نہ ہونا بے چینی کا موجب ہے، جب کہ مختلف کیڈر کی سنیارٹی لسٹوں کی درستگی نہ ہونے کے سبب بیش تر حق دار اپنی جائز ترقی حاصل کیے بغیر ہی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ اس وقت کراچی میں تدریسی وغیر تدریسی عملے کی تعداد ساڑھے چھ ہزار سے زاید ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر علاقائی نظامت تعلیمات کی خالی اسامیوں پر اہل افراد کا تقرر کیا جائے، اس وقت صرف ایڈیشنل ڈائریکٹر ایچ آر، پروفیسر عبدالقدیر غوری تنہا تمام معاملات کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
سید عزیر احمد مدنی کے مطابق وزیر تعلیم اپ گریڈیشن کے وعدے سے انحراف کر کے سندھ کے اساتذہ کرام کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ اسی طرح نظامت تعلیمات برائے اسکولز کراچی میں بھی ایک جونیئر کو 19 گریڈ میں ترقی دے کر، ڈائریکٹر کی حیثیت سے بیس گریڈ میں تقرر کردیا گیا۔ ایک طرف ہمارے ہاں تعلیم کی یہ صورت حال ہے، جب کہ دوسری طرف ہمارے ہی خطے میں مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک میں، جہاں کی معیشت کے ذرایع بھی محدود ہیں۔ تعلیم کی شرح سو فی صد ہے، جب کہ بھارت، بنگلا دیش جیسے ممالک بھی تعلیم میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں، دوسری طرف ہماری تعلیم بہ دستور زوال کی طرف گام زن ہے۔
ہمارے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے نانا پیر الٰہی بخش صوبے کے ایک درد مند وزیر اعلا کی شہرت رکھتے ہیں، قیام پاکستان کے ابتدائی درو میں مہاجرین کی آبادکاری سے لے کر تعلیمی ترقی تک ان کی خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں، اس کے باوجود پیر مظہر بطور وزیر تعلیم اس تسلسل کو قائم رکھنے میں کام یاب نظر نہیں آتے۔ صوبے میں تعلیمی صورت حال بالخصوص ثانوی اسکولوں کی حالت زار انتہائی مخدوش اور لمحہ فکریہ ہے۔
صدر مملکت اور وزیر اعلا سندھ کے آبائی اضلاع سمیت سندھ بھر میں چار ہزار آٹھ سو پینتیس 4,835 بالترتیب ضلع بدین میں 566، دادو 443، حیدر آباد 15، گھوٹکی126، جیکب آباد 178، جام شورو 201، خیرپور 426، لاڑکانہ 66، مٹیاری 50، میرپور خاص 263، نوشہرو فیروز 84، نواب شاہ 490، سانگھڑ 123، شکارپور 263، سکھر 89، ٹنڈوالٰہ یار 105، ٹنڈو محمد خان 262، ٹھٹھہ 194، عمر کوٹ 371 اور تھرپارکر میں سب سے زیادہ 1086 اسکول درس گاہوں کے بجائے وڈیروں کی اوطاق اور پولیس تھانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
البتہ ان میں تعینات من پسند عملہ گھر بیٹھے یا وڈیرے کی خدمت کے عوض تن خواہیں وصول کر رہا ہے۔ حکمرانوں کے نزدیک تعلیمی ادارے سرکاری مال خانے سے زیادہ اہم نہیں، جن میں اہلیت کے بر خلاف من پسند افراد بھرتی کر کے تعلیم جیسے اہم شعبے کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔
سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت اندرون سندھ کے دور دراز علاقوں میں چلنے والے 1300 اسکول فنڈز کی عدم فراہمی کے سبب بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں ان میں ڈیڑھ لاکھ طلبا و طالبات پس ماندہ علاقوں کے زیر تعلیم ہیں، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی دائرہ اختیار میں شامل ہوئی، لیکن صوبے میں اس حوالے سے کوئی تیاری اور منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی، ہر طرف ایڈہاک ازم یعنی کام چلاؤ مال بناؤ کا ماحول گرم ہے۔ وزارت تعلیم کے ماتحت اہم محکمے سربراہان کے بغیر جونیئر افراد کو اضافی ذمے داریاں دے کر چلائے جا رہے ہیں۔
اساتذہ سے لے کر غیر تدریسی عملے کی تقرریوں تک ''جس کو پیا چاہے'' والا معاملہ، سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ نئے تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان تو بڑے طمطراق سے کیا جاتا ہے، مگر سنگ بنیاد کی نقاب کشائی سے آگے بات نہیں بڑھتی، تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے بہ جائے ایسی عمارات پر تزئین و آرایش کے نام پر کروڑوں لگا دیے گئے، جن کی تعمیر کو ابھی پانچ چھ سال سے زاید عرصہ بھی نہ گزرا تھا،جب کہ اس سے کہیں بہتر تھا کہ یہ رقم تعلیمی اداروں میں بجلی، پانی، تجربہ گاہوں کے لیے گیس کی فراہمی اور طلبہ کے لیے کتب خانے اور فرنیچر پر خرچ کی جاتی۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، نصابی کتب کی چھپائی اور تعلیمی سال کے آغاز پر بروقت فراہمی کا ذمہ دار ہے، تاکہ طلبہ کی تدریس کام یابی سے جاری رہ سکے، لیکن یہ بھی چیئرمین کے بغیر ادھورا ہے، صرف سیکریٹری عبدالقادر رند ہی سارے معاملات کے مالک ہیں، نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے کو ہے، لیکن نصابی کتب کی فراہمی تو دور کی بات ابھی تک چھپائی کے معاملات بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔
سندھ میں تعلیم کی بہتری کے لیے بڑے دعوے کیے گئے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئے نصاب کو 2013ء میں رائج کرنا تعلیمی ترجیح قرار دیا گیا، اس سلسلے میں ادارہ تدوین نصاب سازی سندھ، بیورو آف کریکولم کے ماتحت ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی کہ نصاب پر نظرثانی وترمیم کا آغاز کیا جا سکے، مگر نشستن، گفتن اور برخاستن سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا۔ اب چاہے اس کے پیچھے بڑے نجی تعلیمی ادارے ہوں یا مضبوط ناشرین کتب، بہرحال ہمارا طالب علم جامد نصاب پڑھنے پر مجبور ہے۔
سندھ کے پانچوں علاقائی نظام تعلیمات برائے کالجز، حیدر آباد، لاڑکانہ، سکھر، میرپورخاص اور کراچی 1979ء کے سابقہ انتظامی نظام کے رائج ہوتے ہی اپنی سابقہ حیثیتوں میں بحال ہو چکے ہیں، جب کہ انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے اس سال انٹر کے امتحانات ایک ماہ قبل شروع کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ کراچی کے 132 کالجوں کا انتظامی سربراہ، قائم مقام ہے۔ یکم ستمبر 2012ء سے ریجنل ڈائریکٹر کی اسامی (جو 20 گریڈ ہے)، اس کو ریجنل ڈائریکٹر حیدرآباد کو اضافی ذمے داری دے کر چلایا جا رہا ہے، 20 گریڈ کا کوئی اہل افسر دستیاب ہی نہیں۔
سندھ ٹیچرز فورم (ایس ٹی ایف) کے کوآرڈینیٹر پروفیسر سید عزیر مدنی نے اس معاملے پر حکومت کی بے حسی کو تعلیم دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے 82 کالجوں میں باضابطہ پرنسپل کا تقرر نہ ہونا، اساتذہ کی اپ گریڈیشن، 17 سے 18 اور 18 سے 19 گریڈ میں ترقیوں کا التوا، کئی مضامین میں اساتذہ کی کمی، اعلا ثانوی تعلیمی بورڈ میں ریٹائرڈ افراد کا تقرر، علاقائی نظامت تعلیمات میں، ایڈیشنل ڈائریکٹر معائنہ، ایڈیشنل ڈائریکٹر مالیات، ڈپٹی ڈائریکٹر معائنہ، تین اکاؤنٹنٹ آفیسر، اور دو اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اسامیوں پر اہل افراد کی تعیناتی نہ ہونے کے سبب کراچی میں کالجوں کا برا حال ہے۔
اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے مختلف معاملات کا طویل عرصے سے حل نہ ہونا بے چینی کا موجب ہے، جب کہ مختلف کیڈر کی سنیارٹی لسٹوں کی درستگی نہ ہونے کے سبب بیش تر حق دار اپنی جائز ترقی حاصل کیے بغیر ہی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ اس وقت کراچی میں تدریسی وغیر تدریسی عملے کی تعداد ساڑھے چھ ہزار سے زاید ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر علاقائی نظامت تعلیمات کی خالی اسامیوں پر اہل افراد کا تقرر کیا جائے، اس وقت صرف ایڈیشنل ڈائریکٹر ایچ آر، پروفیسر عبدالقدیر غوری تنہا تمام معاملات کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
سید عزیر احمد مدنی کے مطابق وزیر تعلیم اپ گریڈیشن کے وعدے سے انحراف کر کے سندھ کے اساتذہ کرام کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ اسی طرح نظامت تعلیمات برائے اسکولز کراچی میں بھی ایک جونیئر کو 19 گریڈ میں ترقی دے کر، ڈائریکٹر کی حیثیت سے بیس گریڈ میں تقرر کردیا گیا۔ ایک طرف ہمارے ہاں تعلیم کی یہ صورت حال ہے، جب کہ دوسری طرف ہمارے ہی خطے میں مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک میں، جہاں کی معیشت کے ذرایع بھی محدود ہیں۔ تعلیم کی شرح سو فی صد ہے، جب کہ بھارت، بنگلا دیش جیسے ممالک بھی تعلیم میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں، دوسری طرف ہماری تعلیم بہ دستور زوال کی طرف گام زن ہے۔