جامعہ بے نظیر اعلانات عملی اقدام کے منتظر رہ گئے

یونیورسٹی اپنے قیام کے پانچ سال بعد بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔


Mahmood Pathan March 18, 2013
یونیورسٹی اپنے قیام کے پانچ سال بعد بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی کی حکومت کے بہت سے تعلیمی منصوبوں کے اعلان کے باوجود اندرون سندھ صورت حال بہتر نہیں ہوسکی۔

اندرون سندھ کے طلبا کو میڈیکل کی بہتر تعلیم کے لیے 20 اپریل 1973ء کو چانڈکا میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا، جس کے بعد 12 اپریل 2008ء کو چانڈکا میڈیکل کالج کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا، 9 جولائی 2009ء کو سندھ اسمبلی سے بل منظور ہوا، اس وقت جامعہ بے نظیر کے ماتحت چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، بی بی آصفہ ڈینٹل کالج اور بینظیر انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز لاڑکانہ تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں تاہم حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے باوجود اب تک صرف جامعہ بے نظیر کا پانچ فیصد کام مکمل کیا گیا۔

بل منظور ہونے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے لاڑکانہ سے 16 کلو میٹر دور موئن جودڑو آریجا روڈ کے مقام پر محکمہ جنگلات سے کروڑوں روپے مالیت کی 220 ایکڑ بنجر زمین خریدی گئی، جس کا آج تک سوائل ٹیسٹ تک نہیں کرایا جا سکا اور ڈولپمینٹ چارجز کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود یونیورسٹی کی عمارت کا5 فیصد کام بھی مکمل نہیں کیا جا سکا، صرف ادھوری چار دیواری ہی تعمیر ہوئی ہے اور یونیورسٹی کو اس وقت بھی چانڈکا میڈیکل کالج کے ہی دس کمروں میں چلایا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی کو قائم ہوئے پانچ سال گزر جانے کے باوجود بھی کالج آف فزیشنس اینڈ سرجنز پاکستان ( سی پی ایس پی) کی جانب سے تصدیق حاصل نہیں ہو سکی، جبکہ طلبہ بھی جامعہ بینظیر کی ڈگری کے بجائے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی ڈگری کے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، یونیورسٹی میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے چھ ماہ کے کنٹریکٹ پر بیس سے زائد ڈمانسٹریٹر/لیکچرر کی خلاف قانون بھرتیاں کی گئی ہیں، جن کا یونیورسٹی میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں جب کہ یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے پہلے سے بھرتی شدہ ملازمین مستقل کرنے کے بجائے 41 سے زاید نئے ملازمین کو پے اسکیل کے تحت بھرتی کرنے پر سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ سرکٹ کورٹ میں پٹیشن بھی زیر سماعت ہے۔

ذرایع ابلاغ کو موصول ہونے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق یونیورسٹی میں گریڈ دو سے اٹھارہ تک ہونے والی بھرتیوںکو پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی، ضلعی انتظامیہ، بیوروکریٹس اور دیگر بااثر شخصیات کی سفارش پر بغیر تحریری اور زبانی امتحانات کے بھرتی کیا گیا، جن میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر، رجسٹرار، ایڈیشنل رجسٹرار، ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز اور دیگر کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔

یونیورسٹی کے قیام کو پانچ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یونیورسٹی کی عمارت تیار نہیں کی جا سکی اور نہ ہی طلبا کو یونیورسٹی کی سہولیات میسر آ سکی ہیں، جس وجہ سے ان میں بھی احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ دیگر مسائل کی وجہ سے تدریس و تحقیق میں بھی مشکلات ہیں، کالج کی عمارت خستہ حال ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی میں عارضی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ملازمین بھی مستقلی اور خلاف قانون بھرتیوں پر سراپااحتجاج ہیں۔

جامعہ بینظیر کے وائس چانسلر پروفیسر اکبر حیدر سومرو کو ریٹائرمنٹ کے بعد سفارش پر دوبارہ تین سال کے لیے ذمہ داریاں سونپ دی ہیں، جب کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے عاید کردہ پی ایچ ڈی کی شرط بھی پوری نہیں کرتے۔ باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اب تک 18ماہ کے دوران بیرون ملک کے متعدد دورے کر چکے، جب کہ لاڑکانہ کے رہایشی ہوتے ہوئے، خود کو کراچی کا رہائشی ظاہر کر کے حکومت سے سالانہ 10 لاکھ روپے اضافی ٹی اے ڈی اے حاصل کر رہے ہیں جب کہ وہ سال بھر میں 36 لاکھ روپے تن خواہ کی مد میں بھی وصول کرتے ہیں، انہوں نے یونیورسٹی سے 36 لاکھ روپے مالیت کی نئی گاڑی بھی خریدی، جب کہ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ میرے خلاف بیرون ملک دورے کرنے اور ٹکٹ کینسلیشن چارجز کی مد میں چار لاکھ روپے ضایع کرنے کے الزامات جھوٹے ہیں، میں بیرون ملک اس لیے جاتا ہوں کہ دیگر ممالک کی یونیورسٹیز کو جامعہ بے نظیر کے ساتھ لنک کر سکوں۔

جامعہ بے نظیر کی 14 ویں سینڈیکیٹ میٹنگ میں یونیورسٹی، ماتحت کالجوں اور اداروں کے لیے سال 2012-13ء کے لیے 1372 ملین روپے کا بجٹ منظور کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ ہر سال ملازمین کی تن خواہوں کی مد میں 724.930 ملین روپے خرچ کرتی ہے، ریسرچ اور سروے کی مد میں ہر سال 4.4 ملین، جب کہ تعلیمی وظائف کی مد میں 65.979 ملین روپے خرچ ظاہر کیا جاتا ہے، تاہم اب تک نہ تو یونیورسٹی کی جانب سے کوئی ریسرچ سامنے آئی ہے اور نہ ہی کوئی تعلیمی وظیفے پر بیرون ملک جا سکا ہے، دوسری جانب جامعہ کے یوٹیلٹی اخراجات کے لیے 61.250 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔

جامعہ بے نظیر کے زیر اہتمام چانڈکا میڈیکل کالج اور غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر کے آٹھ بیجز کا کانووکیشن ہوا، جس کاخرچ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت سندھ کی جانب سے دیے جانے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز سے دو ہزار، اسسٹنٹ پروفیسرز سے 15 سو، ڈمانسٹریٹرس اور لیکچررز سے 5سو، جب کہ دونوں کالجوں کے دو ہزار طلبہ و طالبات سے فیس کی مد میں ایک ہزار اور گاؤن اور گفٹس کی مد میں 1380 روپے جمع کرانے کی ہدایت کی گئیں، یعنی چالیس لاکھ روپے سے زاید کی رقم حاصل کی گئی، دوسری جانب جامعہ بے نظیر کے فنانس ڈائریکٹر نور الدین شیخ سے بھی65 لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا، تو انہوں نے اس زیادتی پر استعفا دے دیا جس کے بعد کچھ علم نہیں کہ کانووکیشن پر کتنے پیسے خرچ کیے گئے۔

اور ایک ماہ بعد اب فنانس ڈائریکٹر کا استعفا منظور نہیں کیا گیا اور وہ ڈیوٹی پر واپس آچکے ہیں۔ جامعہ بے نظیر میں تدریسی عمل تو جیسے تیسے جاری ہی ہے، تاہم انتظامی معاملات میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، وائس چانسلر کی غیر سنجیدگی کے باعث چانڈکا ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جانب سے مطالبات کی منظوری کے لیے آئے روز احتجاج جاری رہتے ہیں، لیکن اب تک اساتذہ کے مسائل بھی حل نہیں کیے جا سکے، جن میں من پسند ٹیچرز کو تو اپ گریڈ کر کے یونیورسٹی الاؤنس کے علاوہ دیگر الاؤنس دیے گئے ہیں، تاہم بیش تر اساتذہ اب بھی اس سے محروم ہیں، سی ٹی اے کے صدر ڈاکٹر بدر الدین جونیجو، ڈاکٹر اکرام تنیو ، ڈاکٹر حاکم ابڑو اور دیگر نے مطالبہ کیا کہ اگر ان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو تدریسی عمل کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

مطالبات کی منظوری کے لیے اساتذہ کے خلاف انتقامی کارروایوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ شعبہ قلب کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سانگی کو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے ایک پرائیوٹ شخص کی حیثیت سے غیر ملکی دورے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ایف آئی اے سندھ نے کارروائی وائس چانسلر کی شکایت پر کی، پروفیسر ڈاکٹر سعید سانگی کے مطابق ان کے خلاف یہ انتقامی کارروائی عالمی یوم قلب کی تقریب میں ایاز سومرو کو مہمان خصوصی کے طور پر نہ بلانے پر کی گئی، انہوں نے دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس تقریب میں اسپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا۔ اس صورت حال پر جامعہ بے نظیر کے شیخ الجامعہ پروفیسر اکبر حیدر سومرو نے بتایا کہ یونیورسٹی کی پی سی ون گذشتہ برس مارچ میں منظور کی گئی جس میں ایک ارب روپے منظور کیے گئے ہیں۔

گذشتہ برس اگست میں دس کروڑ روپے دینے کا کہا گیا، تاہم اب تک صرف چار کروڑ موصول ہوئے ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فروری میں مزید پیسے دینے کا وعدہ کیا ہے، یونیورسٹی کی ساٹھ ہزار اسکوائر فٹ میں سے پینتیس ہزار اسکوائر فٹ میں بنیادیں پڑ چکی ہیں، پہلے زمین سڑک سے چھ فٹ نیچے تھی، مگر اب اس کی سطح بھی ہم وار کر دی گئی ہے، یونیورسٹی کی تعمیرات کا کام تیزی سے جاری ہے۔ ڈاکٹر سعید سانگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان سے میری ذاتی رنجش نہیں۔

اگر میرے خلاف سازشیں بند نہ کی گئیں تو میں ان بیس سے زائد ڈاکٹر کے نام بھی بتاؤں گا، جن کے پاس سعید سانگی کی طرح ذاتی حیثیت میں پاسپورٹ موجود ہیں، مخالفین مجھ پر جو بھی الزامات لگائیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور میں اپنا کام کرتا رہوں گا، سیاسی سفارش پر کی گئیں خلاف قانون بھرتیوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ ان سے پہلے کنٹریکٹ پر اگر کوئی بھرتی ہوئی ہو تو انہیں علم نہیں، اب ایسا نہیں۔

جامعہ بے نظیر کے ان تمام مسائل کے باعث نہ تو جامعہ مکمل طور پر فعال ہو سکی، نہ ہی انتظامی اور تدریسی عمل بہتر ہو سکا ہے، جس سے طلبا میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں