کراچی پھر قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت کا مرکز بننے لگا

ملک میں جاری بدامنی کی وجہ سے کئی علاقوں سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر نکالنے کا کام بند ہوگیا تھا۔


Kashif Hussain December 30, 2017
شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وافر ذخائر موجود ہیں، تاجر فیاض احمد۔ فوٹو: ایکسپریس

SUKKUR: ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے پر بالخصوص کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت کرنے والے تاجر بلاخوف وخطر کراچی کا رخ کررہے ہیں۔

ملک کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وافر ذخائر موجود ہیں، ملک میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کی وجہ سے ان علاقوں سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر نکالنے کا کام بند ہوگیا تھا،دوسری جانب ملکی اور غیرملکی سیاحوں نے بھی گلگت بلتستان، بلوچستان،خیبرپختون خوا کے علاقوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا جس سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ملک بھر میں حکومت کی رٹ قائم ہوگئی،بدامنی کے شکار علاقوں میں ترقی اور بحال کا عمل زور و شور سے جاری ہے جب کہ ملک بھر میں تاجر بلاخوف و خطر سفر اور تجارت کررہے ہیں جس سے ملک کی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔

آل پاکستان جیم مرچنٹس اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے تاجروں کی وفاقی انجمن ایف پی سی سی آئی کے اشتراک سے کراچی میں25سال بعد نیم قیمتی اور قیمتی پتھروں کی نمائش کا انعقاد کیا جس میں گلگت بلتستان، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نکالے جانے والے پتھر، نوادرات، جیولری اور آرائشی اشیا رکھی گئی تھیں۔

2 روز تک جاری رہنے والی اس نمائش میںسونے کے زیورات تیار کرنے والے سناروں کے علاوہ پتھروں کے شوقین عام شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی،نمائش میں شریک چترال جیمز کے فیاض احمد نے کہا کہ شمالی علاقوں اورگلگت بلتستان میں حالات بہتر ہونے سے پتھروںکی تجارت بڑھ رہی ہے، کراچی میں نمائش کا انعقاد احسن اقدام ہے جس سے ملک کے دور دراز علاقوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

ماہانہ بنیادوں پر3 روزہ بازارمنعقدکیا جائے گا، کاشف الرحمن

جیمز اور جیولری کی صنعت کی نمائندہ انجمن اے پی جی ایم جے نے زیورات کے ساتھ قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے شعبے کو ترقی دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے، ایسوسی ایشن کے سینئر رکن کاشف الرحمن کے مطابق جیم بازار کو کراچی میں منظم طور پر بڑے پیمانے پر منعقد کیا جائے گا، ماہانہ بنیادوں پر3 روزہ بازار منعقد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت سے وابستہ افراد شرکت کریں گے۔

کاشف الرحمن نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کی کاوشوں سے پچیس سال بعد قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت کو بحال کرنے کے لیے اقدامات پر بھرپور رسپانس حاصل ہوا ہے۔ پہلے بازار میں تیس سے زائد اسٹالز لگائے گئے آئندہ ماہ ہونے والے بازار میں پچاس سے زائد اسٹالز ہوں گے اور عوامی شرکت کو بھی بھرپور بڑھایا جائے گا کراچی کے ساتھ لاہور اس اسلام آباد میں بھی جیم بازار منعقد کیے جائیں گے۔

پاکستان میں زیادہ تر نیم قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں،مظہر الدین

کئی نسلوں سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی تجارت کرنے والے مظہر الدین نے بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر نیم قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں، قیمتی پتھروں کی بھی کچھ اقسام محدود مقدار میں موجود ہیں، قیمتی پتھروں میں زمرد، یاقوت، روبی وغیرہ شامل ہیں جبکہ نیم قیمتی پتھروں میں ایکوامیرین، لارج ورد (لیپیس)، مختلف رنگوںکے گارنٹ، پکھراج نیلم وغیرہ شامل ہیں،25سے 30 سال قبل کراچی خطے میں نیم قیمتی پتھروں کی بڑی مارکیٹ تھی،حکومت کی عدم توجہ اور بدامنی کی وجہ سے کراچی کا بازار اجڑ گیا،پاکستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے۔

زیادہ تر پتھر برآمد کیے جاتے ہیں، پاکستان میں 99فیصد زیورات میں مصنوعی پتھر لگائے جاتے ہیں، نیم قیمتی پتھروںکی قیمت 100 روپے قیراط سے شروع ہوکر ایک لاکھ سے قیراط اور اس سے زائد تک ہوتی ہے،پتھر کی قیمت کا تعین اس کی رنگت، شفافیت اور حجم کے لحاظ سے کیا جاتا ہے،پاکستان میں زیادہ تر تین قیراط کے پتھر پہنے جاتے ہیں جو زیادہ تر انگوٹھیوں میں جڑوائے جاتے ہیں۔

اکثر تاریخ پیدائش اور برج کے لحاظ سے موافق پتھر پہنے جاتے ہیں،کراچی میں مارکیٹ ختم ہونے کے بعد اب مختلف علاقوں سے نکالے جانے والے پتھر براہ راست ہانگ کانگ، تھائی لینڈ کی مارکیٹ میں فروخت کیے جارہے ہیں زیادہ تر پتھر غیرقانونی راستے سے ملک سے باہر جارہا ہے جو ملک کا نقصان ہے بھارت قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی کٹنگ پالش میں مہارت حاصل کرچکا ہے اور دنیا بھر سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر کٹنگ پالش کے لیے بھارت کے شہر گجرات اور جے پور میں لائے جاتے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی اور مہارت سے ان پتھروں کی تراش خراش کی جاتی ہے،ان کے خاندان نے پاکستان میں پتھروں کی تراش خراش کی پہلی فیکٹری قائم کی تھی اور مقامی سطح پر مشینیں بھی تیار کی گئی تھیں لیکن سازگار حالات اور پالیسی کے فقدان اور کاریگروں میں مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیکٹری بند کردی گئی۔



بلوچستان کی زمین میں کئی ہزارپرانے نوادرات پوشیدہ ہیں


جیم بازار میں بلوچستان سے شرکت کرنے والے نوادرات اور قیمتی پتھروں کے تاجر نے بتایا کہ بلوچستان کے علاقوں میں کئی ہزار پرانے نوادرات پوشیدہ ہیں جن میں تاریخی سکے ، زیورات اور مورتیاں شامل ہیں، تاجر نے بتایا کہ چین سے آنے والے سیاح اور تاجر بلوچستان سے نکالے گئے نوادرات کی بڑے پیمانے پر خریداری کررہے ہیں جو چینی تاجر بعد میں بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

پاکستانی تاجروں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سے کم قیمت پر خریدے گئے نوادرات بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں، ان نوادرات میں اسلام کے ابتدائی ادوار اور مختلف ریاستوں میں جاری کردہ سکے شامل ہیں،تاجر نے بتایا کہ اس کے پاس برصغیر میں برطانوی دور حکومت کے قدیم اسلامی سکے موجود ہیں جن کی قیمت 10 ہزار روپے فی سکہ ہے۔

نوجوانوں کو پتھروں کی صنعت میں جدید تربیت فراہم کی جائے


قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور سونے چاندی کے زیورات کی خریداری میں دھوکہ دہی کے واقعات عام ہیں اور اس حوالے سے صارفین کو سنار برادری سے بہت سی شکایات رہتی ہیں،جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے صارفین قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور سونے چاندی کے زیورات میں ملاوٹ اور معیار کی جانچ کی تصدیق کراسکتے ہیں۔

قیمتی و نیم قیمتی پتھروں اور زیورات کی صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جیم اینڈ جیولری کی صنعت کو ترقی دے کر پاکستان کی معاشی ترقی کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے، پاکستان سے سونے کے زیورات کی برآمدات پانچ ارب ڈالر تک بڑھائے جانے کی گنجائش موجود ہے اور اس شعبے میں نوجوانوں کو جدید تربیت فراہم کرکے روزگار کے بھرپور نئے مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں۔

اس شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کے ادارے پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی کے چیئرمین عبدالرزاق کے مطابق کمپنی نوجوانوں کو قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی شناخت اور درجہ بندی کیلیے خصوصی تربیت فراہم کررہی ہے اس مقصد کیلیے کراچی، لاہور ، پشاور، کوئٹہ، مظفرآباد، سرگودھا، گلگت میں پتھروں کی جانچ اور شناخت کیلیے لیبارٹریز اور تربیتی مراکز قائم ہیں جو جدید آلات سے آراستہ ہیں،ان لیبارٹریز میں جیم اسٹون کی جانچ اور شناخت کے علاوہ ،سرٹیفکیٹ کا اجرا،جیم اسٹون کی شناخت کیلیے جدید ٹیکنالوجی، ٹولز اور آلات کے استعمال کی تربیت کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کے بارے میں آگہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

کمپنی کے تحت جیم اسٹون کے خریداروں اور تاجروں کے درمیان براہ راست رابطے استوار کرنے کیلیے جیم ایکس چینج بھی قائم کی گئی ہے جو کوئٹہ میں کام کررہی ہے، اس جیم ایکس چینج کے ذریعے جیم اسٹون کی تجارت سے متعلق تمام سہولتیں ایک ہی جگہ مہیا کی جاتی ہیں، جس سے لاگت کم بنانے میں نمایاں مدد مل رہی ہے،پاکستان جیم اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی سونے چاندی اور پلاٹینم کی شناخت اور معیار کی تصدیق کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے عام خریدار سونے میں ملاوٹ اور خالص پن کا درست اور سائنسی بنیادوں پر اندازہ لگاسکتے ہیں۔

اس طرح قیمتی زیورات کی خریدوفروخت میں دھوکہ دہی سے بچا جاسکتا ہے،اس کے ساتھ ہی سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں پر معیار اور جانچ کی مہر بھی ثبت کی جاتی ہے جسے ہال مارکنگ کہا جاتا ہے اس نشان سے سونے چاندی کے خریداروں کو یہ اطمینان اور تصدیق ہوتی ہے کہ خریدی جانے والی دھاتیں مجاز تجزیہ کار کمپنی کے دفاتر سے جانچ شدہ ہے،وقت گزرنے کے بعد زیورات کی فروخت کے موقع پر جانچ اور درجہ بندی کے سرٹیفکیٹ کی موجودگی سے بہتر قیمت حاصل ہوتی ہے،ان سہولتوں کی فراہمی سے قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور زیورات کی صنعت کو شفاف بنانے اور صارفین کے تحفظ میں نمایاں مدد مل رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں