سیاسی جماعتوں کی ذمے داری

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عام انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی کی وارداتیں ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عام انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی کی وارداتیں ہیں۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہو چکی ہے لیکن ان سطور کے لکھے جانے تک ملک میں نگراں سیٹ اپ قائم نہیں ہو سکا۔ ادھر ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں نے پیر کو پشاور میں جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کیا' دہشت گردی کی اس واردات میں چار افراد جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ دو حملہ آور بھی مارے گئے۔

کراچی میں لیاقت آباد ڈگری کالج کے سابق پرنسپل سبط جعفر کو قتل کیا گیا ہے' یہ صورت حال خاصی الارمنگ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عام انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی کی وارداتیں ہیں۔ موجودہ صورت حال میں عام انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریںاور صرف سیکیورٹی ایجنسیوں پر سارا ملبہ نہ ڈالیں۔

بلاشبہ جمہوریت مخالف قوتیں اب بھی چین سے نہیں بیٹھیں، وہ لازمی کوشش کریں گی کہ کوئی ایسی غیرمعمولی صورت حال پیدا ہو جائے جس کے نتیجے میں عام انتخابات کے ملتوی ہونے کی راہ ہموار ہو جائے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گروں نے گزشتہ روز جس طرح حملہ کیا' یہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔کراچی میں پرنسپل کا قتل فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ خاصے عرصے سے کئی جہتوں میں کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے کی دھمکی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

وہاں سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا خاصا مشکل ہوگا، کراچی میں جرائم مافیا بھی سرگرم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت پھیلانے والے بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ لاہور میں جوزف کالونی کا سانحہ ہوچکا ہے۔ یہ خطرات کی واضح نشانیاں ہیں۔ ادھر صورت حال یہ ہے کہ صرف خیبر پختونخوا میں نگراں وزیراعلیٰ کا نام سامنے آیا ہے' خیبرپختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن نے جمہوری طرز عمل اور شعور کی قابل قدر مثال قائم کی ہے۔اس صوبے کی قیادت نے باہمی تنازعے میں پڑے بغیر معاملہ طے کرلیا ۔

بلوچستان میں معاملہ خاصا مضحکہ خیز ہے لیکن یہاں نگراں سیٹ اپ کے قیام میں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ سندھ میں بھی ایسا ہی لگتا ہے اور وہاں بھی باآسانی یہ مرحلہ طے پا جائے گا لیکن اصل مسئلہ مرکز میں نگراں وزیراعظم کے تعین کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس ساری مشق میں امید کاپہلو سامنے رکھنا چاہیے لیکن معاملہ وہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی بڑی جماعتوں کو نگراں وزیراعظم کی تعیناتی کے معاملے کو زیادہ پیچیدہ اور متنازعہ نہیں بنانا چاہیے اور اسے جلد ازجلد طے کرنا چاہیے۔


ملک کی سیاسی قیادت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام خطرات میں گھرا ہوا ہے' جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے لیکن خطرات کم نہیں ہوئے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ملک کی اقتصادی حالت بہتر نہیں ہو سکی۔ بے روز گاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے' توانائی کے بحران نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے'غیرملکی سرمایہ کاری بھی نہیں ہورہی۔ حکومت نے اپنے آخری ایام میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کا افتتاح ضرور کیا ہے لیکن یہ منصوبہ مکمل ہونے میں خاصا وقت لگے گا جب کہ عوام کو فوری ریلیف کی ضرورت تھی۔

پانچ برس میں کوئی ایک بڑا ڈیم بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا' گو بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ شروع ہوئے ہیں اور ایک آدھ مکمل بھی ہوئے لیکن ان کی اہمیت بہت زیادہ نہیں ہے کیونکہ اس سے بجلی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یوں دیکھا جائے تو ملک کی معیشت ڈانوا ڈول ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شدت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی' یہ حالات مد نظر رکھے جائیں تو نگراں حکومت بڑے نازک وقت میں اقتدار سنبھالے گی۔ نگراں حکومت کو عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ عام انتخابات کے شفاف اور پر امن انعقاد کے لیے فوج ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے نگراں سیٹ اپ کے قیام کے لیے باہمی اختلافات کو زیادہ طول نہیں دینا چاہیے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کریں' اگر کہیں کوئی جلسہ' جلوس یا کارنر میٹنگ منعقد ہونی ہے تو متعلقہ پارٹی کے نوجوان کارکن حفاظتی فرائض کی انجام دہی میں پولیس' رینجرز یا فوج کا بھرپور ساتھ دیں۔

سیاسی جماعتوں کو سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے اپنے کارکنوں کے لیے ورکشاپس کا انعقاد شروع کر دینا چاہیے' بعض سیکیورٹی آلات بھی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے پاس ہونے چاہئیں' سب کو پتہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور پشاور میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران ہی خود کش حملے میں شہید ہوئے تھے' اگر اے این پی کے کارکن اس کارنر میٹنگ کی سیکیورٹی خود سنبھالے ہوتے تو خود کش حملہ آور کو میٹنگ میں پہنچنے کا موقع نہ ملتا۔

ملک کی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے طور پر دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی قیادت کو احساس ہونا چاہیے کہ عام انتخابات کے دوران سیکیورٹی ادارے ہر جلسے یا جلوس کو سیکیورٹی کور فراہم نہیں کر سکتے' سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی جلسوں اور جلوسوں کی سیکیورٹی اپنے کارکنوں کے سپرد کرنی چاہیے' ان کے ساتھ سیکیورٹی کے ادارے بھی ہوں گے' اس طریقے سے دہشت گردوں کوبھی روکا جا سکے گا اور انتخابی مہم کو بھی پر امن بنایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story