سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دشمن چلا گیا

شاویز کا جرم یہ تھا کہ اس نے وینزویلا کو ایک ایسا نیا آئین دیا جس میں وینزویلا کے عوام کو اقتدار کا مالک بنادیا۔


Zaheer Akhter Bedari March 19, 2013
[email protected]

''میں یقین رکھتاہوں کہ ایک نئی بہتر اور امکانات سے بھرپور دنیا کی طرف جانے والا راستہ کیپٹل ازم نہیں بلکہ سوشلزم ہے''یہ آواز ہوگوشاویز کی تھی جو روس کی شکست وریخت کے بعد دنیا کے7ارب مایوس اور غریب عوام کے لیے امید کی کرن بنی ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تو وینز ویلا واحد ملک اور شاویز واحد عالمی رہنما تھا جس نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ''جارج بش ایک دہشت گرد صدر ہے اور اس نے امریکا کو دہشت گرد ریاست بنادیا ہے۔

اجلاس میں موجود امریکی صدر جارج بش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاویز نے کہا امریکا کی عوام پر یہ قاتل جنونی اور نسل کش شیطان حکومت کررہا ہے'' ارجنٹائن کے شہر مارڈیل میں ہونے والی اقتصادی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر مارڈیل کے فٹبال اسٹیڈیم میں35ہزار عوام سے خطاب کرتے ہوئے شاویز نے اپنا یہ الزام دہرایا کہ بش بے گناہ انسانوں کا قاتل ہے، بش فاشسٹ ہے اب دنیا کو بش اور اس کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے'' شاویز کی تقریر کے دوران35ہزار عوام پرجوش نعرے لگاتے رہے۔

بش کو ذلیل کرنے کے لیے شاویز نے اعلان کیا''ہم امریکی ریاست میسا چوسیٹس کے سردی سے ٹھٹھر تے عوام کو اپنے گھر گرم رکھنے کے لیے 12ملین گیلن تیل دینے کے لیے تیار ہیں'' شاویز نے کہا میں نے اپنے دورہ امریکا کے دوران ایئرپورٹ سے شہر جاتے ہوئے دیکھا کہ سڑکوں پر دوڑنے والی90فیصد گاڑیوں میں صرف ایک آدمی سفر کررہاہے، میں نے محسوس کیا کہ امریکی حکمران کس بے دردی سے پیٹرول صرف کررہے ہیں جب کہ خود امریکا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتاہے۔

سوشلسٹ بلاک کو50 سال کی سازشوں کے بعد تہس نہس کرنے والی امریکی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اپنے سب سے بڑے دشمن شاویز کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے بار بار سازشوں کے جال پھیلاتی رہیں لیکن انھیں ہمیشہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وینزویلا کے عوام شاویز کے ساتھ کھڑے تھے۔11اپریل2002کو سی آئی اے نے شاویز کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے کروائے کہ شاویز نے از خود حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔

جب عوام کو پتہ چلا کہ ان کے محبوب نے اقتدار چھوڑدیا تو وہ لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئے اور صرف 47گھنٹوں میں امریکی سازش کو ناکام بناکر شاویز کو دوبارہ ایوان اقتدار میں پہنچادیا۔ شاویز کا جرم یہ تھا کہ وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن تھا جس نے دنیا کے عوام2/98میں تقسیم کرکے چھ ارب انسانوں کو بھوک کا شکار بنادیاتھا، شاویز کا جرم یہ تھاکہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتاتھا کہ ''ایک نئی بہتر اور امکانات سے بھرپور دنیا کی طرف جانے والا راستہ کیپٹل ازم نہیں سوشلزم ہے'' شاویز کا جرم یہ تھا کہ وہ دنیا پر امریکی حکمرانوں کی بادشاہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا،شاویز کا جرم یہ تھا کہ ایران کے خلاف امریکی جارحانہ کارروائیوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا رہتاتھا۔

شاویز کا جرم یہ تھا کہ اس نے وینزویلا کو ایک ایسا نیا آئین دیا جس میں وینزویلا کے عوام کو اقتدار کا مالک بنادیا، شاویز کا جرم یہ تھا کہ اس نے وینزویلا کو ایک آزاد خارجہ پالیسی دی،شاویز کا جرم یہ تھا کہ اس نے دنیا کی واحد سپر پاور کے سربراہ کو قاتل جنونی اور شیطان کہا، شاویزکا جرم یہ تھا کہ اس نے عراق پر امریکی حملے کی مذمت کی اور اسے بش کی خودکشی سے تعبیر کیا، شاویزکا جرم یہ تھا کہ وہ شمالی کوریا اور ایران کے خلاف امریکا کی امتیازی پالیسیوں کے سخت خلاف تھا، شاویز کا جرم یہ تھا کہ وہ موجودہ صدی کو لاطینی امریکا کی صدی بنانا چاہتاتھا،شاویز کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن تھا۔

اس مرد آہن کو امریکا تو شکست نہ دے سکا البتہ کینسر نے شکست دیدی،کینسر نے وینزویلا کے عوام سے ان کا محبوب چھین لیا اوروینزویلا کے لاکھوں عوام مرد عورت بچے جوان آج وینزویلا کی سڑکوں پر دھاڑیں مار مار کر روتے نظر آتے ہیں، عوام کی یہ محبت کسی کسی ہی رہنما کو حاصل ہوتی ہے، شاویز وینزویلا کے عوام کو غربت وافلاس کی دلدلوں سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے آیا۔ شاویز کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے وینزویلا کی مجموعی قومی پیداوار میں12 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔

شاویز کی حکومت نے سماجی بہبود کے اداروں کو جو بھاری امداد فراہم کی اس کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچے، شاویز حکومت نے وینزویلا کے عوام کو مفت تعلیم،مفت علاج کی سہولتیں فراہم کیں، شاویز کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے جہاں عوام کو فائدہ ہورہا تھا وہیں خواص اس کی پالیسیوں سے سخت نالاں تھی اور شاویز حکومت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی امریکی سازشوں میں اس کے ساتھ تھیں۔ وینزویلا کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا 90 فیصد حصہ مراعات یافتہ پروامریکا طبقات کی ملکیت ہے،شاویز نے دائیں بازو کی اس طاقت کو عوامی طاقت کے ذریعے دبائے رکھا تھا، دیکھنا یہ ہے کہ اب شاویز کے بعد یہ طاقتیں کیا گل کھلاتی ہیں۔

18 مارچ کو وینزویلا کے دارالحکومت کاراکاس میں شاویز کی آخری رسومات ادا کردی گئیں، اس الوداعی تقریب میں دنیا کے33 ممالک کے سربراہان نے حصہ لیا، جن میں ایران کے صدر احمدی نژاد بھی شامل تھے،شرکاء نے اس موقعے پر شاویز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا''ہوگوشاویز لاطینی امریکا کے بہادر جنگجو،سامراج مخالف انقلابی تھے، ایران کی امریکا مخالف جد وجہد میں ایران کو ہمیشہ شاویز کی حمایت حاصل رہی۔

لاطینی امریکا کے اس سب سے بڑے امریکا مخالف رہنما کے گزر جانے کے بعد امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی بھرپور کوشش ہوگی کہ وینزویلا میں کسی اپنی پسند کے تابعدار کو برسر اقتدار لائیں۔ وینزویلا سے اپنے علاج کے لیے کیوبا روانگی کے موقعے پر شاویز نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ ان کی بیماری سنگین نوعیت کی ہے، وینزویلا کے نائب صدر نکولس مدورو پر اعتماد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں نہ رہا تو عوام نکولس کو ووٹ دیکر انھیں وینزویلا کی صدارت پر سرفراز کریں۔

شاویز چلے گئے، دنیا کی انقلابی تاریخ کے نامور لوگوں کو بھی آخر کار ایک دن اس دنیا کو خیر باد کہنا ہی پڑا ہے، اصل بات یہ ہے کہ کسی سیاسی رہنما کے گزر جانے کے بعد عوام اس کا نام احترام وعقیدت سے لیتے ہیں یا نفرت اور حقارت سے شاویز کو اس کسوٹی پر پرکھاجائے تو بلا شبہ وہ وینزویلا ہی نہیں بلکہ لاطینی امریکا کے ایک انتہائی مقبول رہنما تھے،وینزویلا کی سڑکوں پر شاویز کے غم میں دھاڑیں مارتے لاکھوں عوام شاویز کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، شاویزہو یا ماؤزے تنگ ہو۔

یا ہوچی منہہ یا لینن یا کاسترو تاریخ میں یہ لوگ اس لیے امر ہوگئے کہ انھوں نے کسی فرد یا خاندان کے خلاف جنگ نہیں کی بلکہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف جنگ لڑی جس نے دنیا کے سات ارب انسانوں کو2/98 میں تقسیم کرکے98 کو نان جویں سے محروم کردیا ہے اور 2 فیصد کی جھولیاں دنیا کے ہر عیش ہر عشرت سے بھردی ہیں، شاویز بھی ان ہی انقلابیوں کے پیروکار تھے، جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ کرتے رہے ہیں۔

سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سامراجی ملکوں کے میڈیا نے بھرپور طریقے سے یہ مہم چلائی کہ اب سوشلزم ختم ہوگیا اور دنیا کے سامنے سوائے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنے کے کوئی آپشن موجود نہیں۔ چین اور روس جیسے بڑے ملکوں کی منڈی کی معیشت کی طرف مراجعت کے بعد جب کہ ساری دنیا نظریاتی انتشار کا شکار ہے، شاویز یہ کہہ کر اس دھند کو چیرتا نظر آرہاہے کہ'' میں یقین رکھتاہوںکہ ایک نئی بہتر اور امکانات سے بھرپور دنیا کی طرف جانے والا راستہ کیپٹل ازم نہیں سوشلزم ہی ہے۔''

شاویز کی آخری رسومات ان کے مذہب کے مطابق شاویز کی فیملی نے ادا کردیں، وینزویلا کے عوام مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشلسٹ معیشت کو اپنے استحصالی نظام کے خلاف سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر اسے ناکام بنانے کے لیے جہاں اوربہت سارے حربے استعمال کیے وہیں سوشلزم کو لادینی بلکہ مذہب دشمن نظریہ ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک ایسا طوفان اٹھایا کہ پسماندہ ملکوں کے عوام ذہنی انتشار کا شکار ہوگئے، خاص طور پر مسلم ملکوں میں یہ پروپیگنڈہ مہم اس شدت سے چلائی گئی کہ عام سادہ لوح عوام اس سیاسی اور معاشی نظام سے بد ظن ہوتے گئے۔

جب سوشلسٹ بلاک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیاگیا تو سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے سکون کا سانس لیا، لیکن اس استحصالی نظام کے مظالم سے آج ساری دنیا کے عوام اس قدر متنفر ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں اس نظام کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیاجارہاہے، وال اسٹریٹ سے چلنے والی یہ تحریک مختلف شکلوں میں ساری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے، لاطینی امریکا میں یہ تحریک ایک بغاوت کی شکل اختیار کر گئی تھی، شاویز اس تحریک کے روح رواں رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں