اُجلی صلیب کے سائے تلے۔۔۔ ڈاکٹر رُوتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ
خدمت کا استعارہ بن جانے والی عظیم خاتون کو بیتا سال ساتھ لے گیا۔
دور تک پھیلی ہوئی چوڑی سڑک جسے دن بھر مشینی جانور پیٹرول پیتے اور دھواں اگلتے روندتے چلے جاتے ہیں، اور بعض تو انسانوں کو بھی کچل دیتے ہیں، ہر سمت سے امڈتی چلی آتی مشینیں، احساس سے عاری، اور کیوں نہ ہوں کہ ان کے سینے میں کوئی دل تھوڑی دھڑکتا ہے، لیکن اس المیے کا کیا کیجیے کہ انسان جس نے مشین ایجاد کی، خود مشین بنا ہوا اور احساس سے عاری ہوگیا ہے اور بدنصیبی کہ بنتا ہی چلا جارہا ہے، رکنے کا نام ہی بُھول چکا ہو جیسے، نہ جانے گم راہی اور کسے کہتے ہیں۔ احساس ہی تو زندگی ہے، احساس نہیں تو سب کچھ ہوگا، پَر انسان نہیں۔
احساس، ہاں یہی تو شرف انسانیت ہے اور ہے کیا۔۔۔۔۔۔ فقط احساس، دردمندی، ایثار اور قربانی۔ لیکن ذرا سا رکیے کہ یہ سب اوصاف بھی جب تک بے ریا، بے غرض، بے لوث اور بے تعصب نہ ہوں تو کھوٹے ہیں، سراسر بے کار و بے مصرف کہ جن کا کوئی دام نہیں، بس بے وقعت۔ دام ہیں تو بس کھرے اکّل کھرے، بے ریا جذبات کے، جن میں تعصب، ریاکاری اور کسی غرض کا شائبہ تک نہ ہو، سب سے بے نیاز ہوں، بس درد مندی، ایثار اور قربانی سے لبالب بھرے ہوئے۔
میں کہیں اور نکل گیا ہوں، واپس پلٹتے ہیں تو اس چوڑی سڑک پر اس شور میں اٹے شہر ناپرساں میں ایک شہر خموشاں بسا ہے، جس کے صدر دروازے پر آسمان کی سمت سر اٹھائے ایک اجلی سفید صلیب کھڑی ہے، کبھی یوں لگتا ہے کہ دست بہ دعا ہے کہ الہی خیر، سب کا بھلا ہو، سب کی خیر۔ نہ جانے میں اسے اجلی کیوں کہہ گیا ہوں ، صلیبیں تو اجلی نہیں ہوتیں کہ انسانوں کو مصلوب کرنے کے لیے بنائی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ جو اس صلیب کا اجلاپن ہے وہ ایک ایسے پیغمبر کی یاد دلاتا ہے جس پر اس نے انسانیت کے لیے اپنی قربانی پیش کی تھی۔
وہ جو روح اﷲ تھے اور جنہوں نے گہوارے میں کلام کیا، اور صرف کلام ہی نہیں اس نے جو کچھ کہا اس پر ہمیشہ کاربند رہا، وہ کہ جو پانی پر قدم رکھتا اور راستہ بناتا چلا جاتا، ہاں وہ کہ جو مٹی سے پرندے بناتا اور سب کے سامنے ان میں جان ڈالتا اور مٹی ہوا میں پرندہ بن کر پرواز کرنے لگتی، وہ جو سماعتیں بانٹتا تھا اور بینائی بھی، ہاں وہ کہ جو مُردوں کو زندگی سے دیتا کہ وہ روح اﷲ جو تھا۔ اور وہ جو جذامیوں کی بستی میں جا نکلتا اور شفا بانٹتا۔ وہ جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو خدا کی طرف بلاتا تھا، وہ جس کی دعوت تھی کہ خلق خدا کا بھلا کرو تو تمہارا شرف قائم رہے گا، تم سرخ رُو رہو گے، امر ہوجاؤ گے۔ وہ جو تصادم، وحشت، قتل و غارت اور جنگ کے خلاف تھا کہ وہ امن کا اتنا بڑا پرچارک کہ جس کی تعلیم یہ تھی کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ رسید کرے تو اس کے سامنے اپنا دوسرا گال پیش کردو کہ شر رفع ہو، دم توڑ دے۔ دنیا دارالامن بن جائے کہ انسان کو ضرورت اسی کی ہے۔ وہ انسانوں کو نجات دلانے آیا تھا، ہر تعصب سے نجات، ہر دکھ سے نجات، ہر محرومی سے نجات، ہاں ایسا تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔!
لیکن یہ جو فنا کی سمت گام زن دنیا ہے اور شر پر آمادہ اس کے باسی، لیکن ذرا دم لیجیے موت ہے کیا آخر۔۔۔۔۔ ؟ کیا فنا کا نام موت ہے۔
اگر ایسا ہی ہے کہ موت اِسی کا نام ہے تو یعنی جو مرجائے تو وہ جو کام کر رہا تھا وہ نہیں کرسکے گا، وہ سانس لے رہا تھا تو وہ نہیں لے سکے گا، یعنی کہ دنیا سے گزر گیا اور بس اس کا زمانہ ختم ہوگیا، ایسا ہی ہے ناں، لیکن یہاں پھر ایک اور لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کیا کریں مجبوری ہے یہ لیکن ورنہ آگے کیسے چلیں گے تو اگر کوئی یہاں سے چلا گیا ہو تو اس کا کام رک جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ وہ مرگیا تو اس کا کام بھی دم توڑ گیا، لیکن اگر کوئی بہ ظاہر مرجائے لیکن اس نے جو کام شروع کیا ہو وہ اسی آب و تاب سے جاری رہے تو کیا ہم اسے بھی مُردہ ہی کہیں گے۔۔۔۔؟
تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ دو طرح کے لوگ نہیں مرتے، ایک وہ جنہوں نے انسانیت کے لیے کام کیا اور ایک وہ جنہوں نے انسانیت کا استحصال کیا۔ تو اب ایسا بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ جنہوں نے انسانیت کے لیے کام کیا وہ لوگوں کے لیے زندہ ہوتے ہیں، لوگ ان سے مستفید ہوتے ہیں اور ان کا اجر پاتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے انسانیت کے استحصال کی بنیاد ڈالی۔ اب جتنا انسانیت کا استحصال ہوگا انہیں اس کا عذاب ملتا رہے گا، خلق خدا انہیں بُرے الفاظ سے یاد رکھے گی جیسے فرعون، ہامان، قارون اور جیسے دور جدید کے سام راجی۔ اور دوسرے وہ جنہیں دنیا سخی حاتم، نوشیروان عادل، مدر ٹریسا، ایدھی اور جیسے ڈاکٹر روتھ فاؤ کہ جن کا نام سنتے ہی نگاہیں احترام سے جھک جاتی ہیں اور ان کے گوشے نم ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خلق خدا کبھی محروم نہیں رہی، ہاں یہ بدقسمتی ہے کہ یہ کم یاب رہے ہیں جیسے ہمارے ہاں اب بھی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی لوگوں میں مسیحا کا روپ لیے زندگی بن کر دوڑ بھاگ کرتے ہیں اور وہ بھی اس عمر میں، سلامت رہیں وہ۔
تو بات ہورہی تھی ماں روتھ فاؤ کی۔ اس چوڑی سڑک پر اس شور میں اٹے شہر ناپرساں میں ایک شہر خموشاں بسا ہے، جس کے صدر دروازے پر آسمان کی سمت سر اٹھائے ایک اجلی سفید صلیب کھڑی ہے، بس اسی کے دامن میں وہ محو آرام ہیں۔ نہ جانے محو آرام صحیح ہے بھی، وہ تو ہر وقت کام کرتی رہی ہیں تو وہاں کی دنیا سے ہم واقف تو نہیں لیکن گماں یہی ہے کہ وہ وہاں بھی کوئی کام ہی کر رہی ہوں گی۔
وہ جس خدا کے برگذیدہ پیغمبر کی پیروکار تھیں، اس کی تو پیدائش ہی ایک معجزہ تھی، وہ جو پیدائش سے پہلے ہی تہمتوں کی زد میں تھا۔ ایک ایسی پارسا ماں کا بیٹا جس کا نام مریم اور کردار مسلمہ تھا۔ وہ ایک ایسے وقت میں ظہور پذیر ہوا جب انسانوں پر جابروں نے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔ آزاد انسان غلام بنا لیے گئے تھے اور جنہیں زندگی کی ہر سانس کا خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا اور نجات دہندہ کہلایا۔ ایک ایسا انسان جو مسیحا کہلایا۔ اور وہ اسے آخر مسیحا کیوں نہ کہتے جو انہیں زندگی کا اصل درس دینے کے لیے آیا تھا۔ ایک ایسا پیغمبر جس کی زندگی کا مقصد انسانیت کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ اس کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
اسی عظیم پیغمبر کے بے لوث پیروکاروں میں ڈاکٹر روتھ بھی تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کردی۔ وہ نوجوانی میں پاکستان آئیں اور عیسیٰؑ کی طرح دھتکار دیے جانے والے کوڑھیوں کو گلے لگایا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ ان کے درمیان رہنے لگیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، نہلایا دھلایا اور اپنے پیار سے ان میں زندگی کی جوت جگائی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے کوئی بھی غیر نہیں تھا، سب اپنے ہی تھے۔ مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور خدائی کنبے کے ہر فرد کو یک ساں حقوق کا حق دار بنایا گیا ہے۔ روٹی، کپڑا، تعلیم، علاج معالجہ اور مکان ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دنیا کے وسائل پر سارے انسانوں کا بلا تفریق مذہب و ملت حق مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ تسلیم شدہ حق بھی صرف کتابوں میں ہی درج ہے، ان پر عمل شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ خدا نے تو انسانوں کو یک ساں حقوق سے نوازا تھا لیکن پھر چند زمینی خداؤں نے ان وسائل پر بہ زور قبضہ کرلیا اور اس طرح محرومین کا طبقہ وجود میں آیا۔
ان چند زمینی خداؤں نے صرف ان وسائل پر قبضہ نہیں کیا بل کہ ان محروم لوگوں کی زندگی کو اپنی پیسا بنانے والی بھٹیوں کا ایندھن بنالیا اور اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور محرومین اپنی ہڈیوں کو ان کی سفاک بھٹیوں کا ایندھن بناتے بناتے تہہ خاک ہوتے رہے۔ لیکن ان مایوس کن حالات میں ایک طبقہ وہ بھی وجود میں آیا جن کے دل ہم دردی اور انسانیت دوستی سے لبریز تھے۔ ان سرپھرے، نادر و کم یاب لوگوں کی لغت میں اقربا پروری، تعصب، مذہب، رنگ و نسل جیسے الفاظ ناپید تھے، وہ تو بس انسانیت کو خدا کا کنبہ سمجھتے تھے اور ان کے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ ایسے نادر و نایاب لوگ ہر شعبۂ زندگی میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد بس خلق خدا کی آسودگی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے وقف تھی اور یہی لوگ ان چند مکار و عیار لوگوں کی، جنہوں نے وسائل انسانی پر قبضہ کرلیا تھا، کھٹکتے بھی تھے۔
روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ،1929 میں جرمنی میں پیدا ہوئیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران پلی بڑھیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے شہر پر بمباری کے مناظر دیکھے اور اپنا گھر بھی وحشت ناک موت برساتے بموں سے تباہ ہوتے دیکھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1948 میں روتھ فاؤ نے مغربی جرمنی میں طب کی تعلیم شروع کی۔ 1950 میں Mainz and Marburg یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد وہ مشنری تنظیم '' ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری'' سے وابستہ ہوگئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند میں جذام یا کوڑھ کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے ہزاروں ہلاکتیں ہورہی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ کی تنظیم نے انہیں ایک مشن پر انڈیا بھیجنے کا فیصلہ کیا اور 8 مارچ 1960 میں انڈیا جاتے ہوئے وہ کراچی رکیں۔ ویزے کے مسئلے پر ان کو کراچی زیادہ رکنا پڑا تو انہیں یہاں کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ جب ڈاکٹر روتھ نے ان مریضوں کے حالات دیکھے تو وہ بہت دکھی ہوئیں اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
1965 میں انہوں نے پیرا میڈیکل ورکرز کا ایک ٹریننگ گروپ تیار کیا۔ جب کراچی میں انہوں نے اس بیماری پر قابو پالیا تو پھر 1971 میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تمام صوبوں بہ شمول آزادکشمیر کام شروع کردیا اور ملک کے کونے کونے کا سفر کر کے جذام کے مریضوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا علاج کرتی رہیں۔ کراچی میں ان کا پہلا کلینک ایک جھگی میں قائم کیا گیا تھا، جو بعد میں ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہوگیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ انہوں نے پورے ملک میں بھی اپنے مراکز قائم کیے۔
ڈاکٹر روتھ کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں 1979 میں جذام کے متعلق وفاقی حکومت کا مشیر مقرر کیا۔ ڈاکٹر روتھ کی خدمات اور کوششوں سے 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام کی بیماری سے پاک ملک تسلیم کرلیا۔ ڈاکٹر روتھ نے طب، جذام اور اپنے کام کے حوالے سے کتب بھی تحریر کی ہیں۔ ڈاکٹر روتھ کو ان کی خدمات پر بہت سے پاکستانی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں: دی آرڈر آف دی کراس فرام جرمنی، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز، دی کمانڈرز کراس آف دی آرڈر آف میرٹ ود اسٹار فرام جرمنی، ہلال پاکستان اور دیگر شامل ہیں۔ ڈاکٹر روتھ نے اپنے مشن میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے اپنی جوانی، خواب اور پوری زندگی قربان کردی۔ وہ دم آخر تک انسانیت کی خدمت میں مصروف رہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یہ خواہش تھی کہ مرنے کے بعد انھیں پاکستان میں ہی دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں ادا کی گئیں۔ ان کے تابوت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا تھا، پاک فوج کے دستے نے سلامی دی اور ان کے جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ گورا قبرستان پہنچایا گیا اور انہیں ایک اجلی صلیب کے سائے میں آسودہ کردیا گیا۔
مجھے کہنے دیجیے کہ وہ امر تھیں اور امر ہوگئیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنی بے لوث خدمات کے باعث ہر دردمند کے دل میں زندہ رہیں گی۔
احساس، ہاں یہی تو شرف انسانیت ہے اور ہے کیا۔۔۔۔۔۔ فقط احساس، دردمندی، ایثار اور قربانی۔ لیکن ذرا سا رکیے کہ یہ سب اوصاف بھی جب تک بے ریا، بے غرض، بے لوث اور بے تعصب نہ ہوں تو کھوٹے ہیں، سراسر بے کار و بے مصرف کہ جن کا کوئی دام نہیں، بس بے وقعت۔ دام ہیں تو بس کھرے اکّل کھرے، بے ریا جذبات کے، جن میں تعصب، ریاکاری اور کسی غرض کا شائبہ تک نہ ہو، سب سے بے نیاز ہوں، بس درد مندی، ایثار اور قربانی سے لبالب بھرے ہوئے۔
میں کہیں اور نکل گیا ہوں، واپس پلٹتے ہیں تو اس چوڑی سڑک پر اس شور میں اٹے شہر ناپرساں میں ایک شہر خموشاں بسا ہے، جس کے صدر دروازے پر آسمان کی سمت سر اٹھائے ایک اجلی سفید صلیب کھڑی ہے، کبھی یوں لگتا ہے کہ دست بہ دعا ہے کہ الہی خیر، سب کا بھلا ہو، سب کی خیر۔ نہ جانے میں اسے اجلی کیوں کہہ گیا ہوں ، صلیبیں تو اجلی نہیں ہوتیں کہ انسانوں کو مصلوب کرنے کے لیے بنائی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ جو اس صلیب کا اجلاپن ہے وہ ایک ایسے پیغمبر کی یاد دلاتا ہے جس پر اس نے انسانیت کے لیے اپنی قربانی پیش کی تھی۔
وہ جو روح اﷲ تھے اور جنہوں نے گہوارے میں کلام کیا، اور صرف کلام ہی نہیں اس نے جو کچھ کہا اس پر ہمیشہ کاربند رہا، وہ کہ جو پانی پر قدم رکھتا اور راستہ بناتا چلا جاتا، ہاں وہ کہ جو مٹی سے پرندے بناتا اور سب کے سامنے ان میں جان ڈالتا اور مٹی ہوا میں پرندہ بن کر پرواز کرنے لگتی، وہ جو سماعتیں بانٹتا تھا اور بینائی بھی، ہاں وہ کہ جو مُردوں کو زندگی سے دیتا کہ وہ روح اﷲ جو تھا۔ اور وہ جو جذامیوں کی بستی میں جا نکلتا اور شفا بانٹتا۔ وہ جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو خدا کی طرف بلاتا تھا، وہ جس کی دعوت تھی کہ خلق خدا کا بھلا کرو تو تمہارا شرف قائم رہے گا، تم سرخ رُو رہو گے، امر ہوجاؤ گے۔ وہ جو تصادم، وحشت، قتل و غارت اور جنگ کے خلاف تھا کہ وہ امن کا اتنا بڑا پرچارک کہ جس کی تعلیم یہ تھی کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ رسید کرے تو اس کے سامنے اپنا دوسرا گال پیش کردو کہ شر رفع ہو، دم توڑ دے۔ دنیا دارالامن بن جائے کہ انسان کو ضرورت اسی کی ہے۔ وہ انسانوں کو نجات دلانے آیا تھا، ہر تعصب سے نجات، ہر دکھ سے نجات، ہر محرومی سے نجات، ہاں ایسا تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔!
لیکن یہ جو فنا کی سمت گام زن دنیا ہے اور شر پر آمادہ اس کے باسی، لیکن ذرا دم لیجیے موت ہے کیا آخر۔۔۔۔۔ ؟ کیا فنا کا نام موت ہے۔
اگر ایسا ہی ہے کہ موت اِسی کا نام ہے تو یعنی جو مرجائے تو وہ جو کام کر رہا تھا وہ نہیں کرسکے گا، وہ سانس لے رہا تھا تو وہ نہیں لے سکے گا، یعنی کہ دنیا سے گزر گیا اور بس اس کا زمانہ ختم ہوگیا، ایسا ہی ہے ناں، لیکن یہاں پھر ایک اور لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کیا کریں مجبوری ہے یہ لیکن ورنہ آگے کیسے چلیں گے تو اگر کوئی یہاں سے چلا گیا ہو تو اس کا کام رک جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ وہ مرگیا تو اس کا کام بھی دم توڑ گیا، لیکن اگر کوئی بہ ظاہر مرجائے لیکن اس نے جو کام شروع کیا ہو وہ اسی آب و تاب سے جاری رہے تو کیا ہم اسے بھی مُردہ ہی کہیں گے۔۔۔۔؟
تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ دو طرح کے لوگ نہیں مرتے، ایک وہ جنہوں نے انسانیت کے لیے کام کیا اور ایک وہ جنہوں نے انسانیت کا استحصال کیا۔ تو اب ایسا بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ جنہوں نے انسانیت کے لیے کام کیا وہ لوگوں کے لیے زندہ ہوتے ہیں، لوگ ان سے مستفید ہوتے ہیں اور ان کا اجر پاتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے انسانیت کے استحصال کی بنیاد ڈالی۔ اب جتنا انسانیت کا استحصال ہوگا انہیں اس کا عذاب ملتا رہے گا، خلق خدا انہیں بُرے الفاظ سے یاد رکھے گی جیسے فرعون، ہامان، قارون اور جیسے دور جدید کے سام راجی۔ اور دوسرے وہ جنہیں دنیا سخی حاتم، نوشیروان عادل، مدر ٹریسا، ایدھی اور جیسے ڈاکٹر روتھ فاؤ کہ جن کا نام سنتے ہی نگاہیں احترام سے جھک جاتی ہیں اور ان کے گوشے نم ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خلق خدا کبھی محروم نہیں رہی، ہاں یہ بدقسمتی ہے کہ یہ کم یاب رہے ہیں جیسے ہمارے ہاں اب بھی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی لوگوں میں مسیحا کا روپ لیے زندگی بن کر دوڑ بھاگ کرتے ہیں اور وہ بھی اس عمر میں، سلامت رہیں وہ۔
تو بات ہورہی تھی ماں روتھ فاؤ کی۔ اس چوڑی سڑک پر اس شور میں اٹے شہر ناپرساں میں ایک شہر خموشاں بسا ہے، جس کے صدر دروازے پر آسمان کی سمت سر اٹھائے ایک اجلی سفید صلیب کھڑی ہے، بس اسی کے دامن میں وہ محو آرام ہیں۔ نہ جانے محو آرام صحیح ہے بھی، وہ تو ہر وقت کام کرتی رہی ہیں تو وہاں کی دنیا سے ہم واقف تو نہیں لیکن گماں یہی ہے کہ وہ وہاں بھی کوئی کام ہی کر رہی ہوں گی۔
وہ جس خدا کے برگذیدہ پیغمبر کی پیروکار تھیں، اس کی تو پیدائش ہی ایک معجزہ تھی، وہ جو پیدائش سے پہلے ہی تہمتوں کی زد میں تھا۔ ایک ایسی پارسا ماں کا بیٹا جس کا نام مریم اور کردار مسلمہ تھا۔ وہ ایک ایسے وقت میں ظہور پذیر ہوا جب انسانوں پر جابروں نے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔ آزاد انسان غلام بنا لیے گئے تھے اور جنہیں زندگی کی ہر سانس کا خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا اور نجات دہندہ کہلایا۔ ایک ایسا انسان جو مسیحا کہلایا۔ اور وہ اسے آخر مسیحا کیوں نہ کہتے جو انہیں زندگی کا اصل درس دینے کے لیے آیا تھا۔ ایک ایسا پیغمبر جس کی زندگی کا مقصد انسانیت کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ اس کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
اسی عظیم پیغمبر کے بے لوث پیروکاروں میں ڈاکٹر روتھ بھی تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کردی۔ وہ نوجوانی میں پاکستان آئیں اور عیسیٰؑ کی طرح دھتکار دیے جانے والے کوڑھیوں کو گلے لگایا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ ان کے درمیان رہنے لگیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، نہلایا دھلایا اور اپنے پیار سے ان میں زندگی کی جوت جگائی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے کوئی بھی غیر نہیں تھا، سب اپنے ہی تھے۔ مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور خدائی کنبے کے ہر فرد کو یک ساں حقوق کا حق دار بنایا گیا ہے۔ روٹی، کپڑا، تعلیم، علاج معالجہ اور مکان ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دنیا کے وسائل پر سارے انسانوں کا بلا تفریق مذہب و ملت حق مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ تسلیم شدہ حق بھی صرف کتابوں میں ہی درج ہے، ان پر عمل شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ خدا نے تو انسانوں کو یک ساں حقوق سے نوازا تھا لیکن پھر چند زمینی خداؤں نے ان وسائل پر بہ زور قبضہ کرلیا اور اس طرح محرومین کا طبقہ وجود میں آیا۔
ان چند زمینی خداؤں نے صرف ان وسائل پر قبضہ نہیں کیا بل کہ ان محروم لوگوں کی زندگی کو اپنی پیسا بنانے والی بھٹیوں کا ایندھن بنالیا اور اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور محرومین اپنی ہڈیوں کو ان کی سفاک بھٹیوں کا ایندھن بناتے بناتے تہہ خاک ہوتے رہے۔ لیکن ان مایوس کن حالات میں ایک طبقہ وہ بھی وجود میں آیا جن کے دل ہم دردی اور انسانیت دوستی سے لبریز تھے۔ ان سرپھرے، نادر و کم یاب لوگوں کی لغت میں اقربا پروری، تعصب، مذہب، رنگ و نسل جیسے الفاظ ناپید تھے، وہ تو بس انسانیت کو خدا کا کنبہ سمجھتے تھے اور ان کے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ ایسے نادر و نایاب لوگ ہر شعبۂ زندگی میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد بس خلق خدا کی آسودگی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے وقف تھی اور یہی لوگ ان چند مکار و عیار لوگوں کی، جنہوں نے وسائل انسانی پر قبضہ کرلیا تھا، کھٹکتے بھی تھے۔
روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ،1929 میں جرمنی میں پیدا ہوئیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران پلی بڑھیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے شہر پر بمباری کے مناظر دیکھے اور اپنا گھر بھی وحشت ناک موت برساتے بموں سے تباہ ہوتے دیکھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1948 میں روتھ فاؤ نے مغربی جرمنی میں طب کی تعلیم شروع کی۔ 1950 میں Mainz and Marburg یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد وہ مشنری تنظیم '' ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری'' سے وابستہ ہوگئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند میں جذام یا کوڑھ کی وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے ہزاروں ہلاکتیں ہورہی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ کی تنظیم نے انہیں ایک مشن پر انڈیا بھیجنے کا فیصلہ کیا اور 8 مارچ 1960 میں انڈیا جاتے ہوئے وہ کراچی رکیں۔ ویزے کے مسئلے پر ان کو کراچی زیادہ رکنا پڑا تو انہیں یہاں کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ جب ڈاکٹر روتھ نے ان مریضوں کے حالات دیکھے تو وہ بہت دکھی ہوئیں اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
1965 میں انہوں نے پیرا میڈیکل ورکرز کا ایک ٹریننگ گروپ تیار کیا۔ جب کراچی میں انہوں نے اس بیماری پر قابو پالیا تو پھر 1971 میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تمام صوبوں بہ شمول آزادکشمیر کام شروع کردیا اور ملک کے کونے کونے کا سفر کر کے جذام کے مریضوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا علاج کرتی رہیں۔ کراچی میں ان کا پہلا کلینک ایک جھگی میں قائم کیا گیا تھا، جو بعد میں ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہوگیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ انہوں نے پورے ملک میں بھی اپنے مراکز قائم کیے۔
ڈاکٹر روتھ کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں 1979 میں جذام کے متعلق وفاقی حکومت کا مشیر مقرر کیا۔ ڈاکٹر روتھ کی خدمات اور کوششوں سے 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام کی بیماری سے پاک ملک تسلیم کرلیا۔ ڈاکٹر روتھ نے طب، جذام اور اپنے کام کے حوالے سے کتب بھی تحریر کی ہیں۔ ڈاکٹر روتھ کو ان کی خدمات پر بہت سے پاکستانی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں: دی آرڈر آف دی کراس فرام جرمنی، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز، دی کمانڈرز کراس آف دی آرڈر آف میرٹ ود اسٹار فرام جرمنی، ہلال پاکستان اور دیگر شامل ہیں۔ ڈاکٹر روتھ نے اپنے مشن میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے اپنی جوانی، خواب اور پوری زندگی قربان کردی۔ وہ دم آخر تک انسانیت کی خدمت میں مصروف رہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی یہ خواہش تھی کہ مرنے کے بعد انھیں پاکستان میں ہی دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں ادا کی گئیں۔ ان کے تابوت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا تھا، پاک فوج کے دستے نے سلامی دی اور ان کے جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ گورا قبرستان پہنچایا گیا اور انہیں ایک اجلی صلیب کے سائے میں آسودہ کردیا گیا۔
مجھے کہنے دیجیے کہ وہ امر تھیں اور امر ہوگئیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنی بے لوث خدمات کے باعث ہر دردمند کے دل میں زندہ رہیں گی۔