اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ہمارے ملک ہی میں کیوں ’’بھرتے کو بھرو اور مرتے کو مارو‘‘ پر اس قدر تواتر سے۔۔۔
مایوسی کفر اور نا اُمیدی گناہ ہے، سو عوام بھی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں بلکہ وہ زندگی جو بقول شخصے
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
الیکشن کے بادل اُمڈ اُمڈ کر آرہے ہیں اور انتخابی نشانوں کی برسات جاری ہے کہیں سائیکل ہے کہ سی این جی مہنگی ہے تو کہیں تیر جس سے بیک وقت دو شکار بھی ہوسکتے ہیں، کہیں بے ڈور کی پتنگ ہے تو کہیں مٹی کا شیر (جو صرف چڑیا گھر کے گیٹ سے چند گز کے فاصلے پر نصب ہے) یا پھر کتاب جس کے پڑھنے والے خال خال ہی ہیں۔
کہتے ہیں لوگ تبدیلی چاہتے ہیں یقیناً ایسا ہے مگر جہاں پاکستان کی معیشت بھی تبدیل ہوچکی ہو بلکہ ملک کا حلیہ ہی یکسر بدل گیا ہو وہاں لوگ آخر کس قسم کا چینج چاہتے ہیں؟ یہ محاورہ کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اور اپنوں کو دے ۔فی زمانہ بے معنی ہوچکا ہے کیونکہ اب تو ریوڑیوں کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں جو خود بخود انھی کے ہاتھوں میں جاتی ہیں جن کے ہاتھ مضبوط ہیں ایک زمانے سے ہماری بیوروکریسی پر تنقید ہوتی آئی ہے کہ یہاں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتی ہے بیوروکریسی تو بیچاری خواہ مخواہ بدنام ہے کیونکہ اسمبلی سے بل بیورو کریسی پاس نہیں کرتی کابینہ کرتی ہے، پارلیمنٹ کرتی ہے صدر صاحب نے وزیراعظم کو اختیارات دے دیے تھے مگر خود کبھی بے اختیار نہیں رہے اس لیے کہ ہمارے آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اگر وہ سات خون بھی کرے تب بھی۔ یہ سہولت اور کس کو میسر ہے ؟
حکومت جاتے جاتے بہت سے تحفے عوام کو دے گئی کہ سند رہیں اور ''ہر وقت'' کام آئیں خواہ بجلی کے بل میں اضافہ ہو یا حج کے اخراجات میں، پٹرول میں ہو یا سی این جی میں، ٹماٹر میں ہو یا اشیائے خور و نوش میں البتہ عوام کی پانچ سال تک خدمت کرنے والے ممبران اسمبلی کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات سرکاری مراعات کا بل متفقہ طور پر منظور ہو چکا ہے جس کی رو سے نہ صرف موجودہ وزرأ ، معاونین خصوصی، ارکان اسمبلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہوں اور الاؤنسز اور مراعات میں پرکشش اضافہ کیا گیا ہے بلکہ سابق وزرائے اعلیٰ ، سابق اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور سابق ارکان اسمبلی کو بھی بعض مراعات سے نوازا گیا ہے۔
اب سابق ارکان سرکاری گیسٹ ہاؤسز، ریسٹ ہاؤسز، سندھ ہاؤس سے اورگوادر میں اسی قیمت پر رہائش اختیار کرسکیں گے جس قیمت پر سرکاری ارکان اور اہلکار اختیار کرتے ہیں نیز تمام ہوائی اڈوں پر وی آئی پی لاؤنجز استعمال کرسکیں گے۔
وزرأ ، اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکرز کے الاؤنسز اور تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافہ ہوگا،دفتر کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں 8ہزار روپے ملیں گے (خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو) ٹریولنگ کی مد میں 40 ہزار کی بجائے ایک لاکھ بیس ہزار جب کہ ریکریشن الاؤنس کی رقم 30سے بڑھا کر ایک لاکھ کردی گئی ہے۔ وزرائے اعلیٰ کے خصوصی معاونین (جو سیاہ و سپید کے مالک ہوتے ہیں) ان کی تنخواہ میں یکمشت تقریباً ساڑھے 15ہزار روپے بڑھا دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ 4 سال تک وزیراعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر رہنے والے صاحب یا صاحبہ کو ان کی تنخواہ اور مراعات کا ستر فیصد اعزازیہ ساری عمر ملے گا یہی نہیں بلکہ انھیں گریڈ 17 کا ایک افسر بطور پی ایس، ایک اردلی، ڈرائیور، ایک باورچی، ایک مالی اور ایک سینٹری ورکر کی بھی مفت خدمات میسر ہوں گی یہ تو اس جاتی حکومت کے آخری اجلاس کی کہانی ہے کیونکہ بہتی گنگا میں ہاتھ عقلمند ہی دھوتے ہیں۔ 25 یا 30 سال تک حکومت کی خدمت کرنے والے پنشنرز تو بیچارے دس پندرہ فیصد اضافے کو بھی یہ جان کر برداشت کرلیتے ہیں کہ چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی بھلی۔
ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ہمارے ملک ہی میں کیوں ''بھرتے کو بھرو اور مرتے کو مارو'' پر اس قدر تواتر سے عمل ہوتا ہے۔ ایک پنشنر اپنے 25سال پورے کرنے یا 60 سال کا ہوجانے کے بعدسرکار سے جو فنڈ پاتا ہے وہ اس کے بچوں کی شادی بیاہ میں خرچ ہوجاتا ہے کیونکہ ذاتی مکان کا تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتا اس لیے ساری زندگی کرائے کے گھر میں رہتا ہے اور اس کی ساری پنشن گھر کے کرائے اور یوٹیلیٹی بلز میں خرچ ہوجاتی ہے یہاں کیا اس کی طویل ترین سرکاری خدمات کے صلے میں سرکار اسے 60 گز کا ایک کوارٹر بھی نہیں دے سکتی؟
جمہوریت کے یہ 5 سال پاکستان کی تاریخ میں واقعی سنہری حروف سے لکھے جائیں گے کیونکہ اس سے پہلے تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں یعنی حکومت اتنی مدت چلی کہ خزانہ اتنا خالی ہوگیا ویسے خالی خزانے کے بہت سے فائدے ہیں مثال کے طور پر اگر ایک گلاس، پانی سے لبالب بھرا ہو تو آپ اس میں مزید پانی نہیں ڈال سکتے اگلے پانی کے لیے اس کو خالی کرنا ضروری ہے یہ دیگر بات کہ اس کے بعد کی آنے والی حکومت اس ''فل ان دی بلینک'' کو کس طرح پر کرے گی۔
خزانہ خالی ہوگا تو قرضہ لینے میں بھی آسانی ہوگی۔ پارٹی کے بہت سے لوگ حکومت سے شاکی تھے اور شکوہ بہ لب بھی کہ اس نے انھیں کچھ نہیں دیا اب وہ خوش ہیں کہ چلیے ہمارے رہنما چلے تو گئے مگر محسن بن کر کہ ایک لاکھ نوکریاں دے گئے، عارضی ملازمین کو مستقل کرگئے، راتوں رات بھرتیاں ہوئیں، کوئی نائب قاصد سے کلرک بنا اور کوئی کلرک سے اٹھارہ گریڈ تک پہنچ گیا۔ کیا سیاسی پارٹیاں صرف انھی افراد کو نوازتی ہیں جو ان کی پارٹیوں میں شامل ہیں؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان کے تمام اٹھارہ کروڑ لوگوں کو کوئی نہ کوئی پارٹی جوائن کرلینی چاہیے کہ جانے کب ان کے نام قرعہ نکل آئے۔
معاملہ جعلی ڈگریوں کا ہو یا کرپشن کا پارلیمنٹ کا تقدس پامال ہوا ہے۔ با اثر افراد کا راج ہے کہ ان ہی کے دم سے مجرم ایک باعزت شہری ہوجاتا ہے۔ غریب کے بچے نان شبینہ کو ترستے ہیں اور کچرا کنڈی میں بچا ہوا کھانا تلاش کرتے ہیں اور بڑے صاحب کے کتے ولایتی بسکٹ بھی کھاتے ہیں اور بروسٹ بھی اڑاتے ہیں لیکن ان سب تلخیوں کے باوجود بھی صبر اور فریاد کے دن تھوڑے ہیں کیونکہ قدرت کا قانون ہے وہ رسی دراز کرتا ہے اور پھر جب کھینچتا ہے تو انسان اپنی ساری چوکڑیاں بھول جاتا ہے۔
شاید بے ایمان اور بددیانت لوگ یہ نہیں جانتے کہ حرام کے پیسوں سے کھایا ہوا ایک نوالہ بھی ان کی اولاد کے لیے زہر بن جائے گا وہ وقتی طور پر سب کچھ حاصل کرلیں گے ، شہرت بھی اور دولت بھی مگر وہ جو ایک تین حرفی لفظ ہوتا ہے نا ''عزت'' اسے کبھی نہ پاسکیں گے، وہ تخت طاؤس پر براجمان تو ہوجاتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ تخت کبھی تختے میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے اب اہل وطن ان جھوٹے پرکشش اور بیوقوف بنانے والے سیاسی نعروں میں نہ آئیں بلکہ صرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر خدائے عز و جل کی بارگاہ میں دعا مانگیں کہ
''خدا پاکستان کی حفاظت کرے''