حکومت حکمرانوں کی جاگیر
آئین کے تحت اسمبلیاں 5 سالہ مدت کے لیے منتخب ہوتی ہیں مگر ماضی میں بعض جمہوری حکومتیں اپنی ہی غلطیوں سے برطرف ہوئیں۔۔۔
قومی اسمبلی تو اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل کردی گئی اور وفاقی حکومت کے وزیر، مشیر اور معاونین بھی فارغ ہوگئے مگر صوبائی اسمبلیاں ابھی برقرار ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ 19 مارچ کو تحلیل ہوں گی اور وزیراعظم بھی نگراں وزیراعظم کے حلف اٹھانے تک نہ صرف موجود رہیں گے بلکہ تمام وزارتیں ان ہی کے کنٹرول میں رہیں گی اور اس طرح ملک میں پیپلز پارٹی کی تنہا حکومت برقرار رہے گی کیونکہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی پی پی پی کے سیکریٹری جنرل ہیں جب کہ صدر مملکت تو پہلے ہی پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ہیں اور ان کی صدارتی مدت کے 6 ماہ ابھی باقی ہیں۔
16 مارچ کو قومی اسمبلی تحلیل ہوتے ہی مبارکباد کے ایس ایم ایس کی بھرمار ہے جس میں جشن آزادی اور یوم نجات کا ذکر ہے کہ ویک اینڈ پر پی پی حکومت ختم ہوئی۔ جاتے جاتے جہاں سندھ اسمبلی نے اپنے موجودہ اور سابق ارکان کے لیے تاحیات بھاری مراعات منظور کرلیں وہاں سابق وزیر داخلہ رحمن ملک بھی اپنے اور سابق وزرائے داخلہ کے لیے تاحیات مراعات حاصل کرنیکا فیصلہ کر گئے اور موصوف جاتے جاتے قوم کو یہ لطیفہ بھی سنا گئے کہ آنیوالوں کو پرامن پاکستان دے کر جارہا ہوں اور پہلے کی طرح اب بھی صدارتی مشیر ہوں۔
5 سال میں پی پی کی اتحادی حکومت نے ملک اور قوم کو جس حال میں پہنچادیا ہے، اس میں ضروری تھا کہ حکمران خود کو پہلے سے حاصل مراعات میں سے کچھ قوم کو دے کر جاتے مگر دیے جانے کے بجائے اپنی باقی زندگی کے لیے بھی ریلیف سے محروم قوم کے پاس جو بچا تھا وہ بھی سمیٹ کے لے گئے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں یہ مسودہ قانون منظور کراتے وقت متحدہ اور مسلم لیگ (ف) کے ارکان نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب کہ افراط زر بڑھا ہوا ہے ہمیں یہ مراعات لینا زیب نہیں دیتا۔ مخالفت کی پروا کیے بغیر اپنے مفادات میں اضافے کا یہ بل اپنے آخری اجلاس میں سندھ اسمبلی نے اکثریت کے زور پر منظور کرلیا اور یہ ثابت کردیا کہ حکومت حکمرانوں کی جاگیر ہے جسے وہ جیسے چاہیں اپنے مفاد کے لیے حکومت میں رہ کر اور اسمبلی میں اکثریت کے باعث آپس میں بانٹ لیں اور خود ہی نہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی تحفے میں دے جائیں کیونکہ آخر وہ 5 سال حکومت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ پہلا نہیں بلکہ تیسرا موقعہ ہے کہ اسمبلیاں خود تحلیل ہوئیں اور انھیں دو ڈھائی سال میں برطرف نہیں کیا گیا موجودہ قومی اسمبلی نے اپنے اقتدار کا نہ صرف آخری گھونٹ تک پیا بلکہ گلاس میں لگی مٹھاس بھی نہیں چھوڑی کہ قوم وہی چاٹ لیتی۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے الوداعی خطاب میں حکومت کی کسی ناکامی کا اعتراف نہیں کیا اور اس خوبصورتی سے اپنا دفاع کیا کہ لوگ حیران رہ گئے، حکمرانوں نے 5 سال میں قوم کو تو کوئی ریلیف نہیں دیا اور جاتے جاتے بجلی کی قیمت بڑھادی اور اپنے لیے وہ مراعات بھی سمیٹ لیں جو ان کا حق نہیں تھا۔
آئین کے تحت اسمبلیاں 5 سالہ مدت کے لیے منتخب ہوتی ہیں مگر ماضی میں بعض جمہوری حکومتیں اپنی ہی غلطیوں سے برطرف ہوئیں مگر کسی نے بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ 5 سالہ اقتدار حکمرانوں کی جاگیر یا بادشاہت نہیں ہوتی کہ وہ جو چاہیں کریں اور اپنے دور کے لیے ہی نہیں بلکہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی اپنے لیے مراعات سمیٹ لیں۔ پی پی کی سابق ہونے والی حکومت کے پہلے وزیراعظم گیلانی نے اپنے شہر ملتان کو بنایا تو 9 ماہ کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے شہر گوجر خان کو اس لیے نوازا کہ انھوں نے وہیں سے سیاست کرنی ہے اور خود اور اپنے بچوں کو وہاں سے الیکشن لڑوانا ہے۔
وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بیشک ایک شہر سے تعلق رکھتا ہے مگر وہ پورے ملک اور صوبے کا حکمران ہوتا ہے اور اسے تمام علاقوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر حکمران نے امتیاز برتا اور قومی سرمایے کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے اس طرح استعمال کیا جیسے وہ ان کا ذاتی ہو اور وہ 5 سال کے لیے نہیں بلکہ ساری عمر حکومت کرنے کے لیے منتخب ہوئے ہوں۔
شریف برادران پر بھی الزام رہا ہے کہ انھوں نے اپنے علاقے جاتی عمرہ پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے اور اپنے علاقوں کی حالت بدل دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں لاڑکانہ کو پیرس بنانے کے لیے اس وقت کروڑوں روپے ہر سال لاڑکانہ پر خرچ کیے جاتے تھے مگر آج لاڑکانہ بدحالی کا شکار ہے۔
ایک عرصے تک اقتدار میں رہنے والے شریف برادران پر الزام لگتا ہے کہ انھوں نے جنوبی پنجاب پر توجہ نہیں دی اور لاہور کو بنایا۔ چوہدری برادران نے بھی اپنے شہر گجرات ہی کو نہیں لاہور کو بھی بنایا مگر لاہور ہی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بجائے دوسرے شہروں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ سابق وزیر اعظم گیلانی کو بھی سوچنا چاہیے تھا کہ وہ ملتان کے نہیں پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور ساری عمر وزیراعظم نہیں رہیں گے اور وفاق کے فنڈ کسی کی جاگیر نہیں کہ اس کا ذاتی استعمال کریں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں لاڑکانہ کو نظرانداز کرکے گڑھی خدابخش اور نوڈیرو پر توجہ دی گئی، حکمرانوں نے اقتدار کو اپنی جس طرح جاگیر سمجھ کر سرکاری فنڈ استعمال کیا اسی کی وجہ سے چیف جسٹس پاکستان کو پوچھنا پڑا کہ کیا بلاول ہاؤس ایوان صدر ہے۔ صدر زرداری نے اپنے دور میں کراچی کو تو محفوظ نہیں بنایا مگر بلاول ہاؤس کو محفوظ کرنے کے لیے سامنے کی سڑک بند کرکے بلند دیوار بنوائی تھی تو انھوں نے بھی یہی سمجھا کہ صدارت ان کی جاگیر ہے اور وہ ہمیشہ صدر رہیں گے۔
قومی اسمبلی تو ختم ہوگئی اب ممکن ہے سندھ اسمبلی کا خاص اجلاس بلاکر یہ قانون منظور کرالیا جائے کہ صدر زرداری کے بعد بلاول ہاؤس کے سامنے سڑک بند اور دیوار برقرار رہے گی، قانون عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے بنائے جاتے ہیں انفرادی اور ذاتی مفاد امت کے لیے نہیں مگر جس طرح رحمن ملک اور سندھ اسمبلی نے کیا، اس سے لگتا ہے کہ قانون تو گھر کی لونڈی اور اقتدار ذاتی جاگیر ہے جو چاہو اقتدار میں کرو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انھیں یہ بھی خوف نہیں کہ اگر اگلا اقتدار انھیں نہ ملا تو آنے والے صاحبان اقتدار موجودہ جاگیردارانہ قوانین کو ختم یا تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔