چٹخارے دار بھنڈی
دہشتگردوں کا کوئی اتاپتا نہیں ملتا لیکن عوام یہ مذمتی بھنڈی صبروشکرکے ساتھ کھا کراگلی ڈش کا انتظارکرنا شروع کردیتے ہیں
شادی کے فقط دو ہی ہفتے بعد نئی نویلی دُلہن روتی پیٹتی اپنے میکے پہنچی اور آتے ہی ماں کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو ہچکیوں اور سِسکیوں کے ایک طویل سیشن کے بعد دُلہن نے اپنی ماں کو بتایا '' میں نے خاوند سے پوچھا کہ آپ کی پسندیدہ ڈش کونسی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا بھنڈی ''۔ میں نے اتوار کے دِن بھنڈی پکائی، تو وہ بہت خوش ہوئے اور اُنہوں نے میری اور بھنڈی کی بہت تعریف کی ۔ پیر کو بھنڈی بنائی تو اُنہوں نے بہت چٹخارے لے کر کھائی ۔
منگل کے دِن اُنہوں نے مسُکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بھنڈی کھا کے پھر مسُکرائے ۔ بدھ کے دِن اُنہوں نے خاموشی سے بھنڈی کھالی ۔ جمعرات کو نہ جانے وہ کیوں غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے ، لیکن اُنہوں نے بھنڈی کھا لی ۔ جمعے کے روز اُن کا موڈ کچھ آف تھا ، شاید آفس میں کچھ پرابلم ہو گئی تھی ، اُنہوں نے خاصی ناک بھوں چڑھائی ، لیکن بہرحال بھنڈی کھا لی ۔ ہفتے کے روز ڈائنگ ٹیبل پر ڈش کا ڈھکن اُٹھاتے ہی اُنہوں نے بھنڈی پر ایک نظر ڈالی اور اُن کا ہاتھ کانپنے لگا ، اِس کے فوراً بعد وہ خود کانپنے لگے ، پھر نہ جانے کیا ہوا ، اُنہوں نے ڈش اُٹھاکر اپنے ہی سر پر مار لی ۔ پھر غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے پوری ڈائنگ ٹیبل اُلٹ ڈالی ۔
جو برتن ہاتھ میں آیا اُٹھا کر فرش پر پٹخ دیا ۔ پھر اُنہوں نے اپنا کوٹ اُتار کر پھاڑ ڈالا ۔اُس کے بعد وہ غصے سے غراتے ہوئے مجھے مارنے کے لیے لپکے تو میں بھاگ کر یہاں چلی آئی ۔ امی میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اُن پر اچانک یہ پاگل پن کا دورہ کیوں پڑگیا ؟ خدا کے لیے میرے ساتھ چلیں اور چل کر اُنہیں سمجھائیں کہ میرا اِس معاملے میں کیا قصور ہے ؟ سارا قصور تو بھنڈی کا ہے۔ میں تو روز اُنہیں اُن کی پسندیدہ ڈش بنا کر کھلاتی رہی ہوں ، اُنہوں نے خود ہی تو کہا تھا کہ مجھے بھنڈی بہت پسند ہے ۔''
ہمارے عوام کو بھی جمہوریت بہت پسند ۔ پارلیمنٹ پسند ہے ۔ الیکشن پسند ہیں ۔ جمہوری حکمران اور کابینہ بھی بہت پسند ہے لیکن مسئلہ صرف ایک ہی ہے عوام تو بے شک جمہوریت پسند ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے لیے صرف اعلانات کرنا ہی پسند ہے ، عملی اقدامات صرف اپنی ذات کے لیے کرنا اُنہیں بہت مرغوب ہے ۔ عوام کے نصیب میں صرف اعلانات کی '' بھنڈی '' ہے جو حکمران روز پکاکر عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ عوام کی اِس پسندیدہ ڈش کو پکانے میں حکمرانوں نے گزشتہ 5برسوں سے نہ تو اِس میں کسی مصالحے کا اضافہ کیا اور نہ ہی کمی کی ۔
وہی لگے بندھے فارمولے کے مطابق اعلانات کی تیار کردہ ڈش روزانہ عوام کے سامنے لا کر سجا دی جاتی ہے لیکن عوام کی قوتِ برداشت کی داد نہ دینا یقینا اُن کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ عوام اِس کم ظرف شوہر کی طرح بھنڈی کھا کھا کر 5سال میں بہرحال اتنے بھی بے مزہ نہیں ہوئے کہ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالیں اور سامنے آنیوالی ہر شے کو اُٹھا کر زمین پر پٹخ ماریں یا روز بھنڈی تیار کرنے والی اپنی معصوم بیوی کو مارنے کے لیے دوڑیں لیکن یقین سے اِس بارے میں کچھ یوں بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بیوی بیچاری ،حکمرانوں کی طرح ریڈ زون ایریا میں کنٹینرز کے پیچھے پناہ گزیں بھی تو نہیں تھی ، بلُٹ پروف اور بم پروف گاڑی اپنے جہیز میں بھی نہیں لائی تھی اور نہ ہی اُس کے آگے پیچھے جدید اسلحے سے لیس سیکیورٹی موجود ہوتی تھی ۔
اگر حکمران بھی اُس دُلہن کی طرح بے بس ، لاچار اور بے یار و مدد گار ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ عوام کا ردِ عمل بھی اُس مظلوم شوہر سے زیادہ مختلف نہ ہوتا ، جو روز کھانے کی میز پر پکی ہوئی بھنڈی دیکھ دیکھ کر خود بھی بُری طرح سے پک گیا تھا ۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے گزشتہ 5برسوں سے اعلانات و بیانات کی جو بھنڈی پکا پکا کر عوام کے سامنے پیش کی ہے اُس کے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں جنھیں پڑھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ اِن اعلانات کا ذائقہ کچھ جانا پہچانا سا معلوم ہوتا ہے ۔آئیے صرف دہشتگردی ہی کو لیں ۔
کسی بھی ایسی دہشتگردی کی واردات کے بعد جس میں کم و بیش دس سے پندرہ افراد شہید ہو گئے ہوں اور چالیس پچاس زخمی ہوگئے ہوں بیانات و اعلانات سے تیار کردہ بھنڈی کی یہ ڈش آپکے سامنے پیش کی جاتی ہے '' دہشتگرد بچ کر نہیں جا سکتے، جلد اُنہیں آہنی گرفت میں لا کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر دینگے ۔'' ''دہشتگردوں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔'' ''وزیرِ داخلہ نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ۔'' '' اِس سلسلے میں 3اعلیٰ سطحی مختلف تفتیشی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کر دینگی ۔''
'' شہید ہونیوالے لواحقین کے لیے پانچ لاکھ اور زخمیوں کو دو دو لاکھ ہرجانہ ادا کیا جائے گا ۔'' '' دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ۔'' یہ مٹھی بھر شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے ۔''''مظلوم عوام کو کڑے وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے'' اور '' دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔'' اِن بیانات کے بعد ہر جماعت کے سیاستدانوں کی جانب سے مذمّتی بیانات کی ایک آندھی چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ '' مذمتی بھنڈی '' بھی ہمیشہ ایک ہی قسم کے فارمولے اور مصالحے سے تیارکی جاتی ہے ۔ کوئی صرف مذمت کرتا ہے ، کوئی سخت مذمت کرتا ہے اور کوئی شدید مذمت کرتا ہے ۔
دہشتگردوں کا کوئی اتاپتا نہیں ملتا لیکن عوام یہ مذمتی بھنڈی صبرو شکر کے ساتھ کھا کر اگلی ڈش کا انتظار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ زیادہ بڑی واردات ہو جائے تو وزیرِ اعظم یا صدر صاحب اِس سانحہ کا نوٹس ، نرم نوٹس، '' سخت نوٹس '' اور یا پھر '' انتہائی سخت نوٹس '' لے کر متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلیتے ہیں ۔ عوام بیچارے نوٹسوں کی یہ بھنڈی بھی ہضم کر کے خدا کا شکر بجا لاتے ہیں ۔اِس بھنڈی پر مزید مصالحہ چھڑکتے ہوئے حکمران یہ اعلان بھی کردیتے ہیں کہ اِس واردات سے دہشتگردی کے خلاف ہمارا عزم اور پختہ ہوا ہے ۔
اِدھر دہشتگردوں نے پے در پے وارداتیں کر کے حکومت کا عزم اتنا پختہ کردیا ہے کہ اب شاید مزید پختگی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی لیکن جیسے جیسے حکمرانوں کا یہ عزم روز بہ روز پختہ ہوتا جا رہا ہے عوام کا عزم ریزہ ریزہ ہونے کے قریب جا پہنچا ہے ۔ سانحہ عباس ٹاؤن کے بعد تو عوام کا یہ عزم ٹوٹ پھوٹ کے بعد ریت کی طرح بکھر چکا ہے لیکن حکمران اب بھی اعلانات کی یہ بھنڈی پکانے اور پکا کر عوام کے سامنے پیش کرنے میں اُسی طرح مصروف ہیں جس طرح 5سال قبل مصروف تھے ۔
خدا خدا کر کے موجودہ حکومت نے اپنے 5 سال مکمل کر لیے ہیں اور اب چاروں طرف سے '' انتخابی بھنڈی '' کی یلغار شروع ہوچکی ہے ۔ منشوروں کی بھنڈی اِس کے علاوہ ہے موجودہ حکمران پارٹی یعنی پی پی پی پی نے بڑا دلچسپ منشور پیش کیا ہے اُنہوں نے روٹی کپڑا اور مکان والی پُرانی ڈش نئی کراکری میں سجا کر پیش کردی ہے سابق وزیراعظم گیلانی صاحب نے تو اِس بھنڈی میں '' مٹی کے تیل'' کا بگھار لگا مارا ہے فرماتے ہیں ''5برس میں 85 فیصد منشور پر عمل درآمد کر چکے ہیں ۔'' مطلب یہ کہ صرف پندرہ فیصد کی کسر رہ گئی ہے ۔ وہ دُرست فرماتے ہیں اُن کی پارٹی جب برسرِاقتدار آئی تھی تو ڈالر 60 روپے کا تھا اب 100 روپے کا ہے مزید موقع ملنے پر یہ ڈالر جب 120 روپے کا ہوگا تو منشور پر 100 فیصد عمل درآمد مکمل ہوجائے گا ۔
منگل کے دِن اُنہوں نے مسُکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بھنڈی کھا کے پھر مسُکرائے ۔ بدھ کے دِن اُنہوں نے خاموشی سے بھنڈی کھالی ۔ جمعرات کو نہ جانے وہ کیوں غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے ، لیکن اُنہوں نے بھنڈی کھا لی ۔ جمعے کے روز اُن کا موڈ کچھ آف تھا ، شاید آفس میں کچھ پرابلم ہو گئی تھی ، اُنہوں نے خاصی ناک بھوں چڑھائی ، لیکن بہرحال بھنڈی کھا لی ۔ ہفتے کے روز ڈائنگ ٹیبل پر ڈش کا ڈھکن اُٹھاتے ہی اُنہوں نے بھنڈی پر ایک نظر ڈالی اور اُن کا ہاتھ کانپنے لگا ، اِس کے فوراً بعد وہ خود کانپنے لگے ، پھر نہ جانے کیا ہوا ، اُنہوں نے ڈش اُٹھاکر اپنے ہی سر پر مار لی ۔ پھر غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے پوری ڈائنگ ٹیبل اُلٹ ڈالی ۔
جو برتن ہاتھ میں آیا اُٹھا کر فرش پر پٹخ دیا ۔ پھر اُنہوں نے اپنا کوٹ اُتار کر پھاڑ ڈالا ۔اُس کے بعد وہ غصے سے غراتے ہوئے مجھے مارنے کے لیے لپکے تو میں بھاگ کر یہاں چلی آئی ۔ امی میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اُن پر اچانک یہ پاگل پن کا دورہ کیوں پڑگیا ؟ خدا کے لیے میرے ساتھ چلیں اور چل کر اُنہیں سمجھائیں کہ میرا اِس معاملے میں کیا قصور ہے ؟ سارا قصور تو بھنڈی کا ہے۔ میں تو روز اُنہیں اُن کی پسندیدہ ڈش بنا کر کھلاتی رہی ہوں ، اُنہوں نے خود ہی تو کہا تھا کہ مجھے بھنڈی بہت پسند ہے ۔''
ہمارے عوام کو بھی جمہوریت بہت پسند ۔ پارلیمنٹ پسند ہے ۔ الیکشن پسند ہیں ۔ جمہوری حکمران اور کابینہ بھی بہت پسند ہے لیکن مسئلہ صرف ایک ہی ہے عوام تو بے شک جمہوریت پسند ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے لیے صرف اعلانات کرنا ہی پسند ہے ، عملی اقدامات صرف اپنی ذات کے لیے کرنا اُنہیں بہت مرغوب ہے ۔ عوام کے نصیب میں صرف اعلانات کی '' بھنڈی '' ہے جو حکمران روز پکاکر عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ عوام کی اِس پسندیدہ ڈش کو پکانے میں حکمرانوں نے گزشتہ 5برسوں سے نہ تو اِس میں کسی مصالحے کا اضافہ کیا اور نہ ہی کمی کی ۔
وہی لگے بندھے فارمولے کے مطابق اعلانات کی تیار کردہ ڈش روزانہ عوام کے سامنے لا کر سجا دی جاتی ہے لیکن عوام کی قوتِ برداشت کی داد نہ دینا یقینا اُن کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ عوام اِس کم ظرف شوہر کی طرح بھنڈی کھا کھا کر 5سال میں بہرحال اتنے بھی بے مزہ نہیں ہوئے کہ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالیں اور سامنے آنیوالی ہر شے کو اُٹھا کر زمین پر پٹخ ماریں یا روز بھنڈی تیار کرنے والی اپنی معصوم بیوی کو مارنے کے لیے دوڑیں لیکن یقین سے اِس بارے میں کچھ یوں بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بیوی بیچاری ،حکمرانوں کی طرح ریڈ زون ایریا میں کنٹینرز کے پیچھے پناہ گزیں بھی تو نہیں تھی ، بلُٹ پروف اور بم پروف گاڑی اپنے جہیز میں بھی نہیں لائی تھی اور نہ ہی اُس کے آگے پیچھے جدید اسلحے سے لیس سیکیورٹی موجود ہوتی تھی ۔
اگر حکمران بھی اُس دُلہن کی طرح بے بس ، لاچار اور بے یار و مدد گار ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ عوام کا ردِ عمل بھی اُس مظلوم شوہر سے زیادہ مختلف نہ ہوتا ، جو روز کھانے کی میز پر پکی ہوئی بھنڈی دیکھ دیکھ کر خود بھی بُری طرح سے پک گیا تھا ۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے گزشتہ 5برسوں سے اعلانات و بیانات کی جو بھنڈی پکا پکا کر عوام کے سامنے پیش کی ہے اُس کے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں جنھیں پڑھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ اِن اعلانات کا ذائقہ کچھ جانا پہچانا سا معلوم ہوتا ہے ۔آئیے صرف دہشتگردی ہی کو لیں ۔
کسی بھی ایسی دہشتگردی کی واردات کے بعد جس میں کم و بیش دس سے پندرہ افراد شہید ہو گئے ہوں اور چالیس پچاس زخمی ہوگئے ہوں بیانات و اعلانات سے تیار کردہ بھنڈی کی یہ ڈش آپکے سامنے پیش کی جاتی ہے '' دہشتگرد بچ کر نہیں جا سکتے، جلد اُنہیں آہنی گرفت میں لا کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر دینگے ۔'' ''دہشتگردوں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔'' ''وزیرِ داخلہ نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ۔'' '' اِس سلسلے میں 3اعلیٰ سطحی مختلف تفتیشی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں جو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کر دینگی ۔''
'' شہید ہونیوالے لواحقین کے لیے پانچ لاکھ اور زخمیوں کو دو دو لاکھ ہرجانہ ادا کیا جائے گا ۔'' '' دہشتگردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے ۔'' یہ مٹھی بھر شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے ۔''''مظلوم عوام کو کڑے وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے'' اور '' دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔'' اِن بیانات کے بعد ہر جماعت کے سیاستدانوں کی جانب سے مذمّتی بیانات کی ایک آندھی چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ '' مذمتی بھنڈی '' بھی ہمیشہ ایک ہی قسم کے فارمولے اور مصالحے سے تیارکی جاتی ہے ۔ کوئی صرف مذمت کرتا ہے ، کوئی سخت مذمت کرتا ہے اور کوئی شدید مذمت کرتا ہے ۔
دہشتگردوں کا کوئی اتاپتا نہیں ملتا لیکن عوام یہ مذمتی بھنڈی صبرو شکر کے ساتھ کھا کر اگلی ڈش کا انتظار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ زیادہ بڑی واردات ہو جائے تو وزیرِ اعظم یا صدر صاحب اِس سانحہ کا نوٹس ، نرم نوٹس، '' سخت نوٹس '' اور یا پھر '' انتہائی سخت نوٹس '' لے کر متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلیتے ہیں ۔ عوام بیچارے نوٹسوں کی یہ بھنڈی بھی ہضم کر کے خدا کا شکر بجا لاتے ہیں ۔اِس بھنڈی پر مزید مصالحہ چھڑکتے ہوئے حکمران یہ اعلان بھی کردیتے ہیں کہ اِس واردات سے دہشتگردی کے خلاف ہمارا عزم اور پختہ ہوا ہے ۔
اِدھر دہشتگردوں نے پے در پے وارداتیں کر کے حکومت کا عزم اتنا پختہ کردیا ہے کہ اب شاید مزید پختگی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی لیکن جیسے جیسے حکمرانوں کا یہ عزم روز بہ روز پختہ ہوتا جا رہا ہے عوام کا عزم ریزہ ریزہ ہونے کے قریب جا پہنچا ہے ۔ سانحہ عباس ٹاؤن کے بعد تو عوام کا یہ عزم ٹوٹ پھوٹ کے بعد ریت کی طرح بکھر چکا ہے لیکن حکمران اب بھی اعلانات کی یہ بھنڈی پکانے اور پکا کر عوام کے سامنے پیش کرنے میں اُسی طرح مصروف ہیں جس طرح 5سال قبل مصروف تھے ۔
خدا خدا کر کے موجودہ حکومت نے اپنے 5 سال مکمل کر لیے ہیں اور اب چاروں طرف سے '' انتخابی بھنڈی '' کی یلغار شروع ہوچکی ہے ۔ منشوروں کی بھنڈی اِس کے علاوہ ہے موجودہ حکمران پارٹی یعنی پی پی پی پی نے بڑا دلچسپ منشور پیش کیا ہے اُنہوں نے روٹی کپڑا اور مکان والی پُرانی ڈش نئی کراکری میں سجا کر پیش کردی ہے سابق وزیراعظم گیلانی صاحب نے تو اِس بھنڈی میں '' مٹی کے تیل'' کا بگھار لگا مارا ہے فرماتے ہیں ''5برس میں 85 فیصد منشور پر عمل درآمد کر چکے ہیں ۔'' مطلب یہ کہ صرف پندرہ فیصد کی کسر رہ گئی ہے ۔ وہ دُرست فرماتے ہیں اُن کی پارٹی جب برسرِاقتدار آئی تھی تو ڈالر 60 روپے کا تھا اب 100 روپے کا ہے مزید موقع ملنے پر یہ ڈالر جب 120 روپے کا ہوگا تو منشور پر 100 فیصد عمل درآمد مکمل ہوجائے گا ۔